UrduPoint:
2025-07-26@14:46:04 GMT

یورپ: بالٹک ریاستوں نے روسی پاور گرڈ سے رابطہ ختم کر لیا

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

یورپ: بالٹک ریاستوں نے روسی پاور گرڈ سے رابطہ ختم کر لیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) یورپ کی بالٹک ریاستیں لتھوانیا، لاتویا اور ایسٹونیا نے ہفتے کے روز اپنے بجلی کے نظام کو روس کی پاور گرڈ سے منقطع کر دیا تھا اور اتوار کے روز سے اسے یورپی یونین کے گرڈ سے تبدیل کر دیا گیا۔

لتھوانیا کے وزیر توانائی زیگیمانتاس ویکیوناس نے اس حوالے سے کہا، "ہم اس مقصد تک پہنچ گئے، جس کے لیے ہم طویل عرصے سے کوششیں کرتے رہے تھے۔

اب حالات کنٹرول میں ہیں۔"

نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائنز برطانوی بحریہ نے تباہ کی تھیں، روس کا الزام

یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار اور ایسٹونیا کے سابق وزیر اعظم کاجا کالس نے سوشل میڈیا پر اس اقدام کو "آزادی اور یورپی اتحاد کی فتح" قرار دیا۔

روس سے موروثی تعلقات کا انقطاع

بجلی کی گرڈ کے ذریعے روس کے ساتھ ان تینوں ممالک کا آخری کنکشن تھا، جو سوویت یونین کے زوال کے بعد سن 1990 کی دہائی کے اوائل میں آزاد ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

ان ممالک نے سن 2004 میں یورپی یونین اور نیٹو میں شمولیت اختیار کی تھی۔

جرمنی نے بحیرہ بالٹک سے بجلی کے حصول کا راستہ محفوظ کر لیا

روس کی پاور گرڈ سے الگ ہونے کی باتیں کئی دہائیوں سے جاری تھیں، تاہم ان ریاستوں کو تکنیکی اور مالی مسائل کا سامنا رہا۔ پھر یوکرین پر روسی حملے نے اس تبدیلی کو مزید فوری بنا دیا، کیونکہ انہیں بھی نشانہ بنائے جانے کا خدشہ تھا۔

گرچہ ان ریاستوں نے روس سے توانائی کی خریداری بند کر دی تھی، تاہم ماسکو پھر بھی اپنے پاور سسٹم کو کنٹرول کرتا تھا۔

روسی گیس جرمنی میں، گزشتہ پچاس برس کے پیچیدہ تعلقات

لیتھوانیا کے وزیر توانائی زیگیمانتاس ویکیوناس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا "اب ہم روسی بجلی کے نظام کو جغرافیائی سیاسی بلیک میلنگ کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت کو ختم کر رہے ہیں۔

"

یورپی کمشنر برائے توانائی ڈین جورجینسن نے اسٹونیا کے دارالحکومت ٹالِن میں صحافیوں کو بتایا، "مجھے روشنی اس وقت زیادہ اچھی لگتی ہے جب کوئی روسی الیکٹران اس میں شامل نہ ہو۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ سکیورٹی سے متعلق ہے۔۔۔۔ کسی بھی یورپی ملک کو کسی بھی چیز کے لیے روس پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔

"

یوکرین پر روسی فوج کشی: مستقبل کا منظر نامہ کیا ہو سکتا ہے؟

حالیہ مہینوں کے دوران بحیرہ بالٹک میں کئی زیر سمندر بجلی اور ٹیلی کام کے کیبلز منقطع ہونے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ کچھ سیاستدانوں نے روس پر ہائبرڈ جنگ چھیڑنے کا الزام بھی لگایا ہے، تاہم ماسکو ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا رہا ہے۔

تبدیلی کا عمل کیسے ہوا؟

روسی گرڈ سے منقطع ہونے کے بعد بالٹک ریاستوں نے اپنی فریکوئنسی، استحکام اور طاقت کی سطح کو جانچنے کے لیے تقریباً 24 گھنٹوں تک تنہا کام کیا۔

لتھوانیا کے سرکاری گرڈ آپریٹر کا کہنا تھا، "ہمیں یورپ کو یہ یقین دلانے کے لیے کچھ ٹیسٹ کرنے کی ضرورت تھی کہ ہم اب ایک مستحکم توانائی کا نظام ہیں۔ اس کے لیے ہم نے پاور اسٹیشنوں کو آن اور آف کیا اور مشاہدہ کیا کہ فریکوئنسی میں کیسے اتار چڑھاؤ آتا ہے ۔ اسے کنٹرول کرنے کی اپنی صلاحیت کا بھی اندازہ لگایا۔"

جرمنی سے روس تک گیس پائپ لائن: تنازعہ ہے کیا؟

اس ٹیسٹ کی تکمیل کے بعد ریاستیں پولان کے ذریعے یورپی پاور گرڈ میں ضم ہو گئیں۔

خطرات کیا ہیں؟

حکام نے خبردار کیا ہے کہ اس تبدیلی سے سکیورٹی کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

لتھوانیا کے ریاستی سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ نے اے ایف پی کو بتایا، "مختلف قلیل مدتی خطرات ممکن ہیں، جیسے کہ اہم بنیادی ڈھانچے کے خلاف متحرک کارروائیاں، سائبر حملے اور غلط معلومات پھیلانے کی مہم وغیرہ۔"

’روس کے باعث خدشات‘: امریکی نائب صدر ایسٹونیا پہنچ گئے

پولینڈ کے پاور گرڈ آپریٹر پی ایس ای نے کہا کہ وہ لتھوانیا کے ساتھ رابطے کی نگرانی کے لیے ڈرون اور ہیلی کاپٹر استعمال کرے گا۔

لاتویا کے صدر ایڈگر رینکیوکس نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ ریاستیں "زیادہ سے زیادہ تیار" ہیں لیکن "اشتعال انگیزی" کو مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاور گرڈ کے لیے

پڑھیں:

بھارت کی روس کو مہلک دھماکہ خیز مواد کی خفیہ فروخت

ایچ ٹی آئی ایس نے اپنی ویب سائٹ پر اعتراف کیا ہے کہ وہ دھماکہ خیز مواد کی تیاری کرتی ہے جو زمین دوز اور زمینی تعمیراتی منصوبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ اسپین کی کمپنی ”Maxam“ کی ذیلی کمپنی ہے، جس پر امریکی سرمایہ دار ادارہ ”Rhone Capital“ کا کنٹرول ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عالمی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت خفیہ طور پر روس کو ہتھیاروں میں استعمال ہونے والا خطرناک دھماکہ خیز کیمیکل ”ایچ ایم ایکس“ فروخت کیا ہے، جو یوکرینی شہریوں پر برسنے والے میزائلوں اور راکٹوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ یہ انکشاف بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بھارتی کسٹمز ڈیٹا کے ذریعے کیا ہے۔ دسمبر میں بھارتی کمپنی ”آئیڈیل ڈیٹونیٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ“ (Ideal Detonators Pvt Ltd) نے تقریباً 14 لاکھ ڈالر مالیت کا ایچ ایم ایکس روس بھیجا۔ حیرت انگیز طور پر یہ مواد دو ایسی روسی کمپنیوں کو فراہم کیا گیا، جن کے براہِ راست تعلقات روسی دفاعی صنعت سے ہیں۔ ان میں سے ایک کمپنی ”Promsintez“ وہی ادارہ ہے جس پر حال ہی میں یوکرین نے ڈرون حملہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ ایچ ایم ایکس ایک ایسا دھماکہ خیز مواد ہے جو میزائلوں، ٹارپیڈوز، راکٹ موٹروں اور جدید فوجی ہتھیاروں میں استعمال ہوتا ہے۔ امریکی وزارتِ دفاع اسے روسی جنگی مشین کے لیے ”انتہائی اہم“ قرار دے چکی ہے، اور کسی بھی ملک کو اس کے لین دین سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ بھارتی کسٹمز کے ریکارڈ اور ایک سرکاری اہلکار کی تصدیق کے مطابق، دونوں کھیپیں روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں اتاری گئیں۔ رپورٹ کے مطابق، پہلی کھیپ، جس کی مالیت 4 لاکھ 5 ہزار ڈالر تھی، روسی کمپنی ”High Technology Initiation Systems“ (HTIS) نے خریدی، جبکہ دوسری کھیپ، جو 10 لاکھ ڈالر سے زائد کی تھی، ”Promsintez“ نامی کمپنی نے وصول کی۔ دونوں کمپنیاں روس کے جنوبی علاقے سمارا اوبلاست میں واقع ہیں، جو قازقستان کی سرحد کے قریب ہے۔

ایچ ٹی آئی ایس نے اپنی ویب سائٹ پر اعتراف کیا ہے کہ وہ دھماکہ خیز مواد کی تیاری کرتی ہے جو زمین دوز اور زمینی تعمیراتی منصوبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ اسپین کی کمپنی ”Maxam“ کی ذیلی کمپنی ہے، جس پر امریکی سرمایہ دار ادارہ ”Rhone Capital“ کا کنٹرول ہے۔ بھارت کی جانب سے بھیجی گئی یہ خطرناک دھماکہ خیز اشیاء صرف فیکٹریوں میں نہیں، بلکہ عام شہریوں کی جانیں لینے والے ہتھیاروں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ یوکرینی حکام کے مطابق Promsintez جیسی کمپنیاں بھارت کے ساتھ مسلسل تعاون کر رہی ہیں، جس کے نتیجے میں روس کی دفاعی پیداوار مسلسل جاری ہے۔

حالانکہ امریکہ نے بارہا خبردار کیا ہے کہ جو بھی ملک یا کمپنی روسی فوجی صنعت سے وابستہ ہو گا، اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں، لیکن بھارت کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ماہرین کے مطابق امریکہ بھارت سے نجی سطح پر بات چیت تو کرتا ہے، مگر پابندیوں سے گریز کرتا ہے تاکہ چین کے خلاف بھارت کو ساتھ رکھا جا سکے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے روایتی بیان جاری کیا کہ ’ہم دوہری نوعیت کی اشیاء کا برآمدی نظام عالمی قوانین کے تحت چلاتے ہیں‘۔ مگر یہ وضاحت ایسے وقت میں دی گئی جب عالمی برادری کی آنکھوں کے سامنے بھارت روسی فوج کو مہلک مواد فراہم کر رہا ہے۔  

متعلقہ مضامین

  • اسٹارلنک نیٹ ورک میں فنی خرابی، امریکا و یورپ میں انٹرنیٹ سروس معطل
  • اسٹارلنک نیٹ ورک میں فنی خرابی، امریکا و یورپ میں انٹرنیٹ سروس گھنٹوں معطل
  • اسرائیلی پاور پلانٹ سے زہریلی گیس کا اخراج، شہری گھروں محصور ہونے پر مجبور
  • بھارت کی روس کو مہلک دھماکہ خیز مواد کی خفیہ فروخت
  • ناکارہ پاور پلانٹس کا ملبہ 46.73 ارب میں فروخت، قیمت اسٹیٹ بینک ماہرین نے مقرر کی
  • چین اور یورپ اگلے 50 سالوں میں باہمی فائدے اور جیت کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں، چینی میڈیا
  • علیمہ خان کا عمران خان سے پاور آف اٹارنی پر دستخط کی اجازت کیلئے عدالت سے رجوع
  • سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا سکردو میں "حسین سب کا" کانفرنس سے خطاب
  • قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والی 10 پاور کمپنیاں کون سی ہیں؟
  • موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک ذمہ دار ریاستوں سے ہرجانے کے حقدار ہیں، عالمی عدالت انصاف کا اہم فیصلہ