لیبیا کشتی حادثہ؛ 63 پاکستانیوں میں سے کتنے زندہ بچے اور وہ کہاں ہیں؟ترجمان دفترخارجہ کا اہم بیان
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)ترجمان دفتر خارجہ نے کہاہے کہ لیبیا میں حادثے کاشکار ہونےوالی کشتی میں 63پاکستانی سوار تھے،جن میں سے صرف3زندہ بچے اور انہیں سفارتخانے منتقل کردیاگیا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق حکام دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ لیبیا میں حادثے کا شکار ہونیوالی کشتی میں مجموعی طور پر 73افراد سوار تھے، کشتی میں سوار73افراد میں سے 63پاکستانی شہری تھے،ترجمان نے کہاکہ زیادہ تر پاکستانی شہریوں کا تعلق کرم اور ضم قبائلی علاقوں سے تھا،ترجمان کا مزید کہناتھا کہ زندہ بچنے والے 3پاکستانیوں کو سفارتخانے پہنچا دیاگیاجبکہ لاشوں کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔
عثمان قادر نے دلبرداشتہ ہو کر پاکستان چھوڑ کر کس ملک میں کھیلنے کا فیصلہ کر لیا؟
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
ای چالان: کراچی میں نافذ ٹریکس نظام کو کہاں تک توسیع دی جائے گی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: حکومت سندھ نے کراچی میں ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) کو ایک جدید اور مصنوعی ذہانت پر مبنی پروجیکٹ کے طور پر نافذ کیا ہے۔
ابتدائی طور پر اس نئے نظام کے تحت فی الحال شہر کے اہم مقامات بشمول شاہراہ فیصل، تین تلوار، ٹاور اور لیاری ایکسپریس وے پر 200 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں، جو سگنل توڑنے، تیز رفتاری، سیٹ بیلٹ نہ باندھنے اور ہیلمٹ نہ پہننے جیسی خلاف ورزیوں کا خودکار اندراج کر رہے ہیں۔
حکومت کا منصوبہ ہے کہ پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد آئندہ مرحلے میں کیمروں کی تعداد کو بڑھا کر 12 ہزار تک لے جایا جائے گا اور پھر اس نظام کو سندھ کے دیگر اضلاع تک بھی وسیع کیا جائے گا۔
ای چالان کے عمل کو آسان اور شفاف بنانے کے لیے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، ڈرائیونگ لائسنس سسٹم اور نادرا ای سہولت جیسے اہم ڈیٹا بیسز کے ساتھ ٹریکس کا انضمام کر دیا گیا ہے۔ شہری ٹریکس موبائل ایپ اور دیگر آن لائن گیٹ ویز کے ذریعے اپنے چالان دیکھ اور ادا کر سکتے ہیں۔
اسی طرح وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ سہولت بھی دی ہے کہ پہلی بار خلاف ورزی کرنے والے ذاتی طور پر پیش ہو کر معافی نامہ جمع کرائیں تو ان کا جرمانہ معاف ہو سکتا ہے۔ شکایت کے ازالے کے لیے بڑے ٹریفک دفاتر میں ٹریکس سہولت مراکز قائم کیے گئے ہیں اور سی پی ایل سی کے ساتھ بھی اس نظام کو منسلک کیا گیا ہے تاکہ شفاف نگرانی کو یقینی بنایا جا سکے۔