ویب ڈیسک: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن پرسپشن انڈیکس 2024 جاری کردیا۔ 

نجی ٹی وی کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کرپشن پرسپشن انڈیکس میں پاکستان تنزلی کے بعد 135 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

کرپشن پرسپشن انڈیکس کے مطابق ڈنمارک بدستورپہلے نمبر پر موجود ہے جب کہ فن لینڈ دوسرے اور سنگاپور تیسرے نمبر پر ہیں۔

انڈیکس کے مطابق امریکا تنزلی کے بعد 28 ویں نمبر پر آگیا ہے ، بھارت 96، ترکیہ 107، بنگلا دیش 151 اور افغانستان 165 نمبر پر ہے۔

قدیم اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ پاکستان ریلوے اکیڈمی والٹن

انڈیکس کے مطابق کرپشن میں پاکستان کی درجہ بندی 8 مختلف ذرائع سےحاصل ڈیٹا پر کی گئی، انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی بھی مزید نیچے آکر 27 ہوگئی، 2023 میں پاکستان کی کرپشن پرسپشن انڈیکس میں درجہ بندی 29 تھی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ انڈیکس کے مطابق اختیارات کاناجائز استعمال کرنے والے عہدیداران کے خلاف قانونی کارروائی یاسزا کا انڈیکس اسکوربدستور 21 رہا، پبلک وسائل کے غلط استعمال اور اس سے متعلقہ انڈیکس کا اسکور 20 سے کم ہوکر 18 ہوگا۔

"شاہین، نسیم کو ٹیم سے باہر کرو" سابق کرکٹر کا مطالبہ

انڈیکس کے مطابق کاروبار کےلیے رشوت دینا یا کرپٹ پریکٹس کاسامنا کرنے کا اسکور 35 سے کم ہوکر 32 ہوگیا جب کہ  سیاسی نظام میں کرپشن کا انڈیکس 32 سے بڑھ کر 33 ہوگیا۔ 

رپورٹ کے مطابق حکومتی اداروں اور سرکاری ملازمین کی جواب دہی، بااثر گروہوں کے ریاست پر قبضے کاانڈیکس 35سے بڑھ کر 39 ہوگیا جب کہ کرپشن کی وجہ سے عوامی فنڈز افراد یا کمپنیوں کو دینے کا انڈیکس 45 سے کم ہو کر 33 پر آگیا ہے۔

لیبیا کشتی حادثے میں 7 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق

انڈیکس میں بتایا گیا ہے کہ ایگزیکٹو، عدلیہ، ملٹری اور قانون سازوں کا ذاتی مقاصد کے لیے سرکاری وسائل کے استعمال کا اسکور 25 سے بڑھ کر 26 ہوگیا جب کہ پبلک سیکٹر، ایگزیکٹو، عدلیہ اور لیجسلیٹو کرپشن کا اسکور 20 سے کم ہو کر 14 ہوگیا۔ 

Ansa Awais Content Writer.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: کرپشن پرسپشن انڈیکس انڈیکس کے مطابق میں پاکستان انڈیکس میں کا اسکور

پڑھیں:

پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔

یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔

سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔

طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔

ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔

اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔

اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا جے-35 اسٹیلتھ طیارہ خریدنےکا ارادہ، چینی دفاعی کمپنیوں کے شیئرز میں اضافہ ہوگیا
  • پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
  • مقبول ترین اسمارٹ فونز کی فہرست میں سام سنگ کی حکمرانی برقرار
  • 2.7 فیصد جی ڈی پی گروتھ بھی شرمندگی والا نمبر ہے، مزمل اسلم
  • بھارتی وفد کو لندن میں منہ کی کھانی پڑی، پاکستان مخالف ایجنڈا ناکام ہوگیا؛ شیری رحمان
  • منڈی بہاءالدین میں 8 سالہ بچی کے قتل کا معمہ حل ہوگیا
  • گورنر پختونخوا کی صوبائی حکومت پر کڑی تنقید، کرپشن اور بے امنی پر سوالات اٹھا دیے
  • امریکی ٹینس اسٹار نے ورلڈ نمبر ون کھلاڑی کو شکست دیکر فرنچ اوپن جیت لیا
  • سکیورٹی گارڈ کی مبینہ غفلت سے گولی چل گئی، بازار شاپنگ کرنے آیا شخص جاں بحق
  • مظفرگڑھ: سکیورٹی گارڈ کی مبینہ غفلت، اچانک گولی چلنے سے ایک بھائی جاں بحق، دوسرا زخمی