خط لکھیں گے چاہے کچھ مطلب نہ ہو
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اب تو موبائل اور انٹرنیٹ نے خط لکھنے کی روایت تقریباً ختم کردی ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب اپنے احباب اور محبوب شخصیات سے رابطے کا واحد ذریعہ خط ہوا کرتا تھا۔ ڈاک کا محکمہ بھی بہت عرصے بعد وجود میں آیا اور خط کی ترسیل آسان ہوگئی ورنہ ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے جب لوگ خط مکتوب الیہ تک پہنچانے کے لیے نامہ بر یا قاصد کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ وہ خط منزلِ مقصود تک پہنچاتا بھی تھا اور وہاں سے جواب بھی لے کر آتا تھا۔ اسی لیے غالبؔ نے کہا ہے کہ
قاصد کے آتے آتے خط اِک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں کیا وہ لکھیں گے جواب میں
نامہ بر یا قاصد کے ہاتھ خط بھیجنے میں بہت خدشات تھے، یہ بھی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں نامہ بر خط دینے کے بجائے خود دوستی کی پینگیں بڑھا بیٹھے اور قاصد کے بجائے رقیب کا روپ نہ اختیار کرلے۔ میر تقی میر کو شاید ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا اسی لیے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ
کچھ خلل راہ میں ہوا اے میرؔ
نامہ بر کب سے لے گیا ہے خط
اللہ بھلا کرے محکمہ ٔ ڈاک کا جس نے ظہور پزیر ہو کر یہ مشکل آسان کردی اور خط بھیجنے اور وصول کرنے والے کے درمیان براہِ راست رابطہ آسان بنادیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مشاہیر ِ علم و ادب نے بھی خط نگاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اردو نثر میں ایک نئی صنف ِ ادب کا اضافہ کیا ہے۔ خطوطِ غالب کو اس حوالے سے فوقیت حاصل ہے۔ مرزا غالبؔ پٹے پٹائے رستے پر چلنے کے قائل نہ تھے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے ڈاڑھی رکھی تو سر منڈا دیا جبکہ عام چلن سے مختلف نظر آئوں، اسی طرح جب انہوں نے اپنے احباب کو خط لکھنے کا شغل اختیار کیا تو اسے مکالمے اور بات چیت کی زبان بنادیا۔ خط کو ’’آدھی ملاقات‘‘ کہتے ہیں لیکن غالب آدھی ملاقات کے قائل نہ تھے۔ انہوں نے اسے پوری ملاقات کا درجہ دے دیا۔ آپ ’’خطوط غالب‘‘ پڑھیے آپ کو اندازہ ہوگا کہ مرزا خط نہیں لکھ رہے بلکہ مخاطب کو سامنے بٹھا کر اس سے باتیں کررہے ہیں اور اپنی بذلہ سنجی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان کے بعد بعض ادیبوں نے غالب کے طرز کو اپنانے کی کوشش کی۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا معاملہ بھی غالبؔ سے مختلف نہ تھا وہ بھی عام روش پر چلنے کے خلاف تھے۔ مولانا آزاد جیل میں نظر بند تھے تو انہوں نے وہاں وقت گزاری کے لیے اپنے عزیز دوست کو خط لکھنے کا شغل اختیار کرلیا۔ یہ خطوط پابندیوں کے سبب اپنی منزل پر تو نہ پہنچ سکے لیکن بعد میں ’’غبارِ خاطر‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہو کر ادبی دنیا میں تہلکا مچادیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’غبارِ خاطر‘‘ کی مرصع نثر نے شاعری کو مات دے دی اور ہم جیسے کم سواد اِسے مدتوں سرہانے رکھ کر سوتے رہے۔ ظاہر ہے کہ ایک زمانے میں ٹیلی فون کی سہولت بھی میسر نہ تھی اور عام و خاص سبھی ایک دوسرے سے رابطے کے لیے خط لکھنے پر مجبور تھے۔ مشاہیر علم و ادب نے اپنے ہم عصروں کو جو خطوط لکھے وہ علمی و ادبی حوالہ بن گئے اور آج بھی ان کی تاریخی اہمیت برقرار ہے۔ مثلاً علامہ اقبال نے لندن میں مقیم محمد علی جناح کو جو خطوط لکھے وہ تحریک پاکستان کے حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان خطوط کے نتیجے ہی میں جناح صاحب ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ ہوئے اور قائداعظم کہلائے۔ علامہ اقبال کی اپنے ہم عصر شاعر اکبر الہ آبادی سے بھی بڑی دوستی تھی ان دونوں کی خط و کتابت بھی بہت مشہور ہے۔
ہمارے دور میں سید مودودیؒ کے خطوط کا بہت چرچا ہے۔ سید صاحب اپنی بے پناہ علمی مصروفیات کے باوجود ہر خط کا جواب ضرور دیتے تھے۔ آخری برسوں میں یہ کام معاون خصوصی ملک غلام علی کے سپرد تھا۔ وہ سید صاحب کی طرف سے جواب لکھتے اور وہ اس پر نظرثانی کرکے سپرد ڈاک کردیتے۔ تاہم سید مودودی کے قلم سے لکھے گئے خطوط کا ایک ڈھیر ہے جسے مختلف لوگوں نے مرتب کیا ہے۔ مکاتب کے ان مجموعوں کی تعداد دس کے قریب بنتی ہے۔ آخری مجموعہ ’’مکاتب سید مودودی‘‘ کے زیر عنوان پروفیسر نور ور جان نے مرتب کیا ہے اور ادارہ معارف اسلامی منصورہ نے اسے چھاپا ہے۔ سید مودودی اردو نثر نگاری میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔ خطوط بھی ان کی انشا پر دازی کا بہترین نمونہ ہیں ان میں تحریک آزادی ہو، تحریک پاکستان، برطانوی ہند کے اہم حالات و واقعات، معاصر شخصیتوں کا تعارف اور بہت سے مباحث سمٹ آئے ہیں۔ خطوط نگاری میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نام بھی آتا ہے جو ہمارے عہد کے نامور اسلامی اسکالر تھے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پیرس چلے گئے اور وہیں سیرت رسولؐ پر معرکے کی کتابیں تحریر کیں۔ ان کی زندگی سادگی اور نفاست کا نادر نمونہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے دوست محمد طفیل مقیم پیرس کے نام جو خطوط ارسال کیے انہیں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی مرحوم نے مرتب کیا ہے اور زبان و بیان کے اعتبار سے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ غالب نے کہا تھا
خط لکھیں گے چاہے کچھ مطلب نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے!
لیکن وہ زمانہ گیا جب لوگ بغیر کسی مطلب کے خط لکھا کرتے تھے۔ اب تو لوگ بغیر مطلب کے سلام بھی نہیں کرتے۔ اِن دنوں عمران خان کے ایک خط کا بڑا چرچا ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ خط آرمی چیف سید عاصم منیر کے نام لکھا ہے۔ تاہم سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کو یہ خط موصول نہیں ہوا۔ جناب عرفان صدیقی نے اس پر یہ مطلع ارشاد فرمایا ہے کہ خط موصول ہو بھی جائے تو اس کا نہ جواب دیا جائے گا نہ اس کی وصولی کی رسید بھیجی جائے گی۔ خط کا متن عمران خان کی جانب سے جاری نہیں کیا گیا لیکن سوشل میڈیا پر اس کی خوب تشہیر ہوچکی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خان صاحب نے گورننس کے بارے میں کچھ گلے شکوے کیے ہیں اور کچھ مشورے دیے ہیں۔ چونکہ یہ ساری باتیں سیاسی نوعیت کی ہیں اس لیے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف اس خط کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں وہ آئین کے تحت اٹھائے گئے حلف کے مطابق سیاست سے قطعی طور پر لاتعلق ہیں۔ یہ بات وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کے ساتھ ایک ملاقات میں بھی کہہ چکے ہیں۔ عمران خان آرمی چیف کو سیاست میں گھسیٹنا چاہتے ہیں جبکہ وہ سختی کے ساتھ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اسے ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ البتہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ
یہ تماشا دکھائے گا کیا سین
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
بعض ستم ظریف عمران خان کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ غالبؔ کے اسی قول پر عمل کریں جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے یعنی
’’خط لکھیں گے چاہے کچھ مطلب نہ ہو‘‘
خان صاحب خط لکھتے رہیں اور مطلب سے غرض نہ رکھیں۔ مطلب نکالنے والے خود نکال لیں گے۔ آخر سوشل میڈیا کس مرض کی دوا ہے!
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا رمی چیف انہوں نے خط لکھنے رہے ہیں ہیں اور ہے کہ ا کیا ہے
پڑھیں:
پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو۔
قطری دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر عرب ٹی وی الجزیرہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور مسلم دنیا کی خودمختاری کے خلاف سنگین اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مسلم دنیا نے صرف بیانات پر اکتفا کیا تو 2 ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ممالک اپنی عوام کی نظروں میں ناکام ٹھہریں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل ایک بے قابو ریاست بن چکی ہے جو ایک کے بعد دوسرے مسلم ملک کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہے۔ آپ نے لبنان، شام، ایران اور اب قطر پر حملہ دیکھا۔ یہ روش ناقابلِ قبول ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ قطر اس حملے کے وقت امریکی اور مصری ثالثی کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف تھا اور اسی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے یہ حملہ کیا گیا۔
اسحاق ڈار نے 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف قراردادوں اور بیانات کا وقت نہیں ہے، اب ایک واضح لائحۂ عمل درکار ہے کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت نہ روکے تو کیا اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فوری طور پر صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خصوصی اجلاس طلب کروایا اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی متحرک کیا ہے۔
انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ فوجی اقدام آخری راستہ ہوتا ہے جب کہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارتکاری رہی ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام ہو جائے اور جارحیت رکنے کا نام نہ لے تو پھر مؤثر عملی اقدامات ضروری ہوں گے ، جن میں اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، یا علاقائی سیکورٹی فورس کی تشکیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی جوہری طاقت کے تناظر میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری جوہری طاقت محض دفاعی صلاحیت ہے، کبھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اگر ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا، تو ہم ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو۔
اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملے کو بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی سے تشبیہ دینے پر اسحاق ڈار نے اسے ایک توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ وہ آپریشن کیا تھا۔ پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار اور سب سے بڑا فریق رہا ہے۔
بھارت سے متعلق گفتگو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ بھارت کا آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا جیسے متنازع اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی سے انخلا کا کوئی اختیار بھارت کو حاصل نہیں ۔ اگر بھارت نے پانی کو ہتھیار بنایا تو یہ اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتا ہے اور کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 7 تا 10 مئی کے درمیان پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے واضح دفاعی برتری دکھائی اور بھارت کا خطے میں سکیورٹی نیٹ کا دعویٰ دفن ہو گیا۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تجارت، معاہدوں اور ریلوے منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے عناصر کی موجودگی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یا تو ان دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے یا افغانستان سے نکالا جائے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کی عالمی قراردادوں پر عمل نہیں ہو رہا، اگر اقوام متحدہ کے فیصلے محض کاغذی بن کر رہ جائیں تو پھر عالمی ادارے کی ساکھ کہاں بچتی ہے؟ انہوں نے زور دیا کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات اور ایسے ممالک کے خلاف سخت اقدامات ضروری ہیں جو اس کے فیصلے نظرانداز کرتے ہیں۔
انٹرویو کے اختتام پر وزیر خارجہ نے زور دیا کہ اس وقت سب سے اہم اور فوری اقدام غیر مشروط جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر لمحہ قیمتی ہے، ہر جان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔