Nai Baat:
2025-06-10@23:53:11 GMT

جو بھی کہوں گا سچ کہوں گا….!

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

جو بھی کہوں گا سچ کہوں گا….!

میرے ایک عزیز کل ہی مجھے بتا رہے تھے کہ ان کے ایک بھتیجے یورپین سفارتخانے میں کام کرتے ہیں، کہنے لگے کہ وہ بتاتا ہے، گورا ہر غلطی برداشت کرلیتا ہے، لیکن جھوٹ معاف نہیں کرتا۔ میں اپنے عزیز کی بات سن رہا تھا اور دل ہی دل میں ایک آہ بھر رہا تھا…. میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا: یہ تو ہمیں بتایا گیا تھا….

یہ تعلیم تو ہمیں دی گئی تھی، یہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ مومن ہر برائی کا مرتکب ہو سکتا ہے، مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ جس ہستی کے ہم نام لیوا ہیں، اس کا لقب ہی صادق اور امین ہے…. اور صادق اور امین کا یہ لقب ان لوگوں نے دیا تھا جو آپ پر ابھی ایمان بھی نہیں لائے تھے…. یعنی قبل از اعلانِ نبوت اہل مکہ آپ کو سچا اور دیانتدار کہتے تھے۔ جس رسول کی یہ شان کہ وہ قبل از اعلانِ نبوت بھی صادق اور امین کہلائیں، ان کے نام لیوا معاشروں میں جھوٹ بولنے کو ایک ایسا جرم ہی نہیں سمجھا جاتا جو قابلِ مواخذہ ہو…. سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہمارا نصاب کیا ہے اور ہمارا کردار کیا ہے۔ کبھی کبھی ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ہم اسلام پر بوجھ ہیں…. اسلام سچے لوگوں کا دین ہے، اسلام ہمیں اپنی جھولی میں ڈال کر پریشان ہے…. جھوٹے لوگ ایک سچے دین کو بدنام کر رہے ہیں۔ ہم جس دین کا کلمہ پڑھتے ہیں، اس کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ غیرلوگوں کے ہاں اسلام کا تعارف ہمارے ہی ذریعہ ہوتا ہے…. اور کیا ہی اچھا تعارف ہم پیش کر رہے ہیں۔
خدانخواستہ ایسی بات نہیں کہ سب جھوٹے ہیں، سوال یہ ہے کہ سب سچے کیوں نہیں؟ اکثریت ہی تعارف ہوا کرتی ہے۔ اچھوں میں برے ار بروں میں اچھے تو ہر قوم اور ہر خاندان میں ہوتے ہیں۔ تعارفی لہجہ اکثریت کا لہجہ ہوتا ہے۔
آخر ہمیں کیا افتاد آن پڑی کہ ہم سچ کو چھوڑ کر جھوٹ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جھوٹ اور سچ میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہمارا اختیار ہے۔ مشکل اور آسان دونوں گھاٹیوں کا راستہ ہمیں دکھا دیا گیا ہے، اب یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم مشکل گھاٹی کا راستہ اپناتے ہیں، یا آسان گھاٹی میں لڑھکنا پسند کرتے ہیں۔ یہ وعدہ تو موجود ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ، لیکن ہر آسانی کے بعد آسانی ہی میسر آتی رہے گی، اس کی
کوئی ضمانت نہیں۔ کامیابی محنت کرنے والوں کا انتظار کرتی ہے۔ راحت …. ابدی راحت…. جاگنے والوں کے حصے میں آتی ہے۔ آسان گھاٹی، شارٹ کٹ…. کامیابی کی طرف نہیں لے کر جاتی۔ حتمی اور دیرپا کامیابی سچ بولنے والوں کا نصیبہ ہوتی ہے۔ جب تک جسم اور روح دونوں شادمان نہ ہوجائیں، کامیابی نزدیک نہیں آتی۔ شائد ہم نے دولت ، شہرت اور منصب کو کامیابی سمجھ لیا ہے۔ جب تک انسان اندر تک اطمینان نہ پالے، اسے سکون میسر نہیں آتا…. اور اندر کے اطمینان کے لیے سچ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جھوٹ کی قسمت میں سکون نہیں۔ جھوٹ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا…. جھوٹ کے تو پاو¿ں ہی نہیں ہوتے۔
جھوٹ ایک شارٹ کٹ ہے…. اور شارٹ کٹ اپنانے والے اس پ±رلطف راستے کا منظر دیکھنے سے محروم ہو جاتے ہیں جو سچ کے مسافروں کا منظر ہوا کرتا ہے۔ جھوٹ کا راستہ اختیار کرنے والے جوڑ توڑ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں …. اور جوڑ توڑ کے ذریعے راستہ لینے والا کامیابی کی ٹرافی میں کئی حصے دار پیدا کر لیتا ہے۔ کامیابی کے پوڈیم پر ایک وقت میں ہی ایک شخص کھڑا ہو سکتا ہے۔
ہمیں ایک پرسکون معاشرہ قائم کرنے کا نصاب دیا گیا تھا۔ پرسکون معاشرہ وہی ہے جہاں انصاف گھر کی دہلیز پر میسر آ جائے، جہاں طاقتور قانونی اور اخلاقی طاقت کے آگے سر جھکا دے …. جہاں کمزور اگر حق پر ہو تو وہ طاقتور نظر آئے اور طاقتور اگر ناحق پر کھڑا ہو تو وہ کمزور دکھائی دے۔ ایک دوسرے کے لیے بے ضرر ہونا معاشرے کو پرسکون کرتا ہے۔ مسلمان ہونے کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخص مسلمان نہیں جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ نہیں۔ ایمان دار ہونے کی شرط یہ بتائی گئی ہے کہ وہ شخص ایمان دار نہیں جو امانت دار نہیں۔ دین دار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ دین دینے والوں نے دین دار ہونے کی شرط یہ بتائی کہ وہ شخص دین دارہی نہیں جس میں ایفائے عہد نہیں۔ گویا امانت میں خیانت کرنے والا اور وعدہ توڑنے والا اپنے دین اور ایمان کا جائزہ لے کہ وہ کس منہ سے خود دین دار اور صاحبِ ایمان کہہ رہا ہے۔ مومن ہونے کا دعویٰ کرنے والا یہ دیکھے کہ مومن کی بارے میں واضح فرمایا گیا ہے کہ مومن جھوٹا نہیں ہوتا۔ اسلام، ایمان اور دین ایک فلسفہ محض نہیں، یہ کسی عمل کی تعلیم اور دعوت بھی ہے…. اسلام اور ایمان ایک حلف ہے، اور یہ حلف اٹھانے والے کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ زندگی کے کسی موڑ پر اس حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں۔
کتبِ احادیث میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص اسلام لانے کی غرض سے آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ! مجھ میں بہت برائیاں ہیں، اتنی برائیاں ہیں کہ میں سب کو دور نہیں کر سکتا۔ بس آپ کے کہنے پر صرف کوئی ایک برائی ترک سکتا ہوں۔ رسولِ کریم نے فرمایا: جھوٹ ترک کردو۔ اس نے وعدہ کر لیا۔ خوش نصیب ہے وہ جو وعدہ کرنے کے بعد وعدہ نبھانا بھی جانتا ہے۔ کچھ ہی عرصے میں معلوم ہوا کہ اس شخص سے ساری برائیاں ہی چھوٹ چکی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی بہت سی برائیاں ہیں، اتنی برائیاں کہ ہم شائد یک قلم نہ چھوڑ سکیں۔ اس حدیثِ پاک کی روشنی میں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔ اگر ہم جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو ہماری زندگیوں میں ، ہماری کمایﺅں میں، ہمارے تعلقات میں اور ہمارے وقت میں برکت ہونے لگے گی۔ جب برکت آتی ہے تو انسان تعداد اور مقدار سے آزاد ہو جاتا ہے۔ سو قسم کے تعلق وہ قوت نہیں دیتے جو ایک سچا تعلق قوت عطا کر دیتا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں زندگی میں وہ سہولت پیدا نہیں کرتے جو چند ہزار بڑی آسانی پیدا کر دیتے ہیں۔ زندگی میں برکت آ جائے تو انسان گوشہ نشینی میں کسی شہرت یافتہ ہیرو کی طرح لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔
اے کاش! ہماری قوم سچ کی طاقت جان لے اور جھوٹ کی بے برکتی سے آگاہ ہو جائے۔ سچ کہنا ہمارا قومی فریضہ بھی اور دینی فریضہ بھی۔ ہم آج ہی خود سے یہ وعدہ کر لیں کہ سچ بولیں گے اور سچ سنیں گے…. اور سچ کے سوا کچھ اور نہیں کہیں گے۔ یہ جملہ صرف عدل کے ایوانوں ہی میں نہیں،بلکہ بھرے بازاروں، دفتروں، گھروں اور سیاست کے میدانوں میں بھی یہی نعرہ گونجنا ہونا چاہیے۔ سچ کی طاقت لازوال ہے ، جھوٹ کی کامیابی عارضی ہے…. اور ہم تو ہیں ہی دائمی زندگی کے طلب گار!…. ہمیں جھوٹ سے کیا کام! جھوٹ ہماری زندگی بھی برباد کر رہا ہے اور عاقبت بھی!! ہمیں جھوٹ سے دہرا نقصان ہو رہا ہے۔ وقنی فائدے کی خاطر ہمیشہ کا نقصان مول نہ لیں….گھاٹے کی تجارت نہ کریں!

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: برائیاں ہی کا راستہ

پڑھیں:

عیدالاضحیٰ۔۔۔ سر تسلیم خم کرنے کا عہد

اسلام ایک ضابطۂ حیات ہے، ایسا مکمل ضابطۂ حیات جو ہماری زندگی کا نصب العین ہونا چاہیے۔ اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے میں ہی نجات اخروی کے ساتھ دنیوی آسودگی اور اطمینان کا سامان بھی ہے۔ اسلام صرف رسومات کا ہی دین نہیں ہے، بل کہ اس نے انسانی حقوق کی پاسداری پر انتہائی زور دیا ہے، اور یہ کہہ کر انسانی حقوق کی ادائی کو مقدم کیا ہے کہ رب تعالٰی اپنے حقوق تو معاف فرما دے گا لیکن انسانوں کے حقوق کی بازپرس ضرور ہوگی۔

عید قرباں بھی احکامات خداوندی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حقوق انسانی کی پاس داری کا نام ہے۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ کو ہرگز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ خون۔ ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔‘‘

ذوالحجہ، حرمت والے مہینوں میں سے ہے۔ سورۂ الفجر میں اﷲ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور ان دس راتوں سے مراد ذوالحجّہ کے ابتدائی دس ایام ہیں۔ ان دنوں میں اﷲ تعالی نے اپنا خاص ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ان دنوں میں کیے جانے والے نیک اعمال اﷲ تعالٰی کو بہت زیادہ محبوب ہیں حتٰی کہ جہاد فی سبیل اﷲ جیسا افضل عمل بھی ان دنوں میں کیے گئے اعمال سے بڑھ کر نہیں ہے۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’کسی بھی دن کیا ہوا عمل اﷲ تعالیٰ کو ان دنوں (کے عمل) سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے سوال کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! کیا جہاد فی سبیل اﷲ بھی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اﷲ بھی نہیں، مگر وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔‘‘ (سنن بی داؤد)

اسلام، دین فطرت اور انسانیت کے لیے پیغام محبت و الفت ہے۔ اسلام کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ بنی آدم ایک دوسرے سے جُڑے رہیں اور ملت واحد بن جائیں۔ حضور اکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہل مدینہ سال میں دو دن خوشی کے بہ طور عید منایا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ کون سے دن ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیے ہیں، عیدالفطر اور عیدالضحٰی۔‘‘

رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’کوئی دن اﷲ تعالی کے ہاں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل اﷲ تعالیٰ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے تحلیل، تکبیر اور تحمید کہا کرو۔‘‘ (مسند احمد)

اسلامی تہوار لہو و لعب اور ہنگامہ آرائی کے لیے نہیں، بل کہ دوسری اقوام سے اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ وہ فرحت و نشاط کا ذریعہ بھی ہیں اور وحدت و اجتماعات اور ایثار، قربانی اور اجتماعی عبادات کا منبع بھی۔ سرور دو عالم ﷺ کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے: ’’جس نے عیدین کی رات (شب عیدالفطر اور شب عیدالضحٰی) قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مَرے گا۔ جس دن لوگوں کے دل مَرجائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)

عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لیے، بل کہ حقیقت میں تو عید اس کی ہے جو عذاب الہٰی سے ڈر گیا۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کے دورخلافت میں لوگ عید کے روز کاشانۂ خلافت پر حاضر ہوئے تو دیکھا کہ امیرالمؤمنین دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں۔ لوگوں نے حیرت زدہ ہوکر دریافت کیا: یاامیرالمؤمنینؓ! آج تو عید کا دن ہے اور آپ خوشی کی جگہ رو رہے ہیں؟ سیدنا فاروق اعظمؓ نے فرمایا: اے لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والے دن یوم النحر اور یوم القر ہیں۔ یہ اہل ایمان کے لیے نیکیاں کرکے اجر و ثواب حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ تحلیل (لاالہ الااﷲ) تکبیر (اﷲ اکبر) تحمید (الحمدﷲ) پڑھنا بہت اجر کا باعث ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان)

قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیوں کہ قربانی کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کرکے درحقیقت اپنے جذبۂ عبودیت کا اظہار کرتا ہے، جو اﷲ تعالیٰ کو بہت پسند ہے کیوں کہ توحید باری تعالیٰ کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ انسان کی محبت کا محور صرف ذات باری تعالیٰ ہو۔

اس کی جان نثاری، اس کی عبادت غرض کہ اس کا ہر فعل اﷲ تعالیٰ کی خوش نُودی کے لیے اسی طرح انسان کے مال و جان کی قربانی بھی صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحظہ قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے، جیسے نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ، انسان کے مال و زر کی قربانی ہے۔ حج بیت اﷲ، انسان کی ہمت اور مال و زر کی قربانی ہے۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد میں بہت سے تقاضے ایسے ہیں جو انسانی قربانی کے مترادف ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو لاکھوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت عید قربان بھی ہے۔ مسلمان اس عید کے تین ایام میں مخصوص جانوروں کو ذبح کرکے اﷲ تعالیٰ کے حضور بہ طور ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ قربانی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ قرآن مجید کی مختلف آیات مقدسہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی امتِ محمدیؐ سے قبل امتوں پر بھی لازم تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا تذکرہ قرآن حکیم میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ’’اﷲ تعالیٰ کو ہرگز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون۔ ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔‘‘

اسلام میں قربانی کی بے پناہ فضیلت ہے کیوں کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اﷲ کریم کی بارگاہ میں بہت زیادہ قبولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی بنا پر قربانی کی ضرورت و اہمیت کتاب و سنت میں بہت تاکید کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ کیوں کہ اسلامی معاشرے میں تعمیری طور پر قربانی کے بے شمار فوائد ہیں۔ قربانی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ انسانی افکار میں جذبۂ ادائے اطاعت پیدا کیا جائے۔ اسی عظیم جذبے کے تحت انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اﷲ تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی کے لیے جانوروں کو قربان کرے، جس سے اس میں حکم خداوندی پر عمل پیرا رہنے کی قوت برقرار رہے۔

حضرت زید ابن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمؐ سے دریافت کیا گیا کہ، یارسول اﷲ ﷺ! یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا ہمارے لیے ان میں کیا اجر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا اور خون کے بدلے میں ؟ آپؐ نے فرمایا: ہر خون کے قطرے کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔

10ذوالحجہ، کو یوم النحر یعنی قربانی کا دن کہتے ہیں۔ اس دن اﷲ تعالی کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کے لیے بہ قدر استطاعت قربانی کرنا اور اس فرض کی ادائی میں ریاکاری اور فخر و تکبّر سے بچنے کا اہتمام کرنے کی بہت قدر و منزلت ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ کو قر بانی کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا بل کہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

سورۂ الانعام میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کہہ دیجیے! میری نماز، اور قربانی، اور میری زندگی اور موت سب کی سب اﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘

تمام نیکیوں کی طرح عید قربان کا بھی ایک خاص مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ اﷲ کی راہ میں مخلص ہوکر جانور کا ذبح کرنا۔ رسول اﷲ ﷺ نے اس حوالے سے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ کو تمہارے جانور کا نہ تو لہو پہنچتا ہے اور نہ ہی گوشت پہنچتا ہے، بل کہ صرف اور صرف تمہارا اخلاص اﷲ تعالیٰ کو پہنچتا ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں 10 سال قیام کے دوران ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں کی۔ باوجود اس کہ آپ ﷺ کے گھر میں بہ وجہ قلت طعام کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتا تھا۔ قربانی کی اہمیت کا اندازہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی اس حدیث مقدس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں داخل نہ ہو۔‘‘

عید قرباں کا اصل پیغام اطاعت رب میں اپنی جاں سے بھی گزر جانا ہے۔ عید قرباں کو اس کی اصل روح کو سمجھتے اور اس پر عمل کرتے ہوئے منائیے۔ اسے نمود و نمائش بنانے سے احتراز کیجیے اور اپنے ہر عمل میں صرف رضائے الہی کے حصول کو مدنظر رکھیے۔ عید قرباں پر اپنے ڈیپ فریزر مت بھریے بل کہ نادار اور ضرورت مند مخلوق کے لیے ایثار کیجیے جو ان نعمتوں کے لیے سال بھر ترستے رہتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • شملہ معاہدہ کی اہمیت و افادیت
  • اسرائیلیوں نے ہمیں "بین الاقوامی پانیوں" سے اغواء کیا تھا، گریٹا تھنبرگ
  • مریم نواز کی پولیس خواتین پر ظلم کررہی ہے، علیمہ خان
  • عدالت عمران خان کو رہا کردے تو اس کی حمایت کروں گا، بلاول بھٹو
  • عدالت عمران خان کو رہا کردے تو اس کی حمایت کروں گا، بلاول بھٹو
  • سکھر،آفرلیٹرجاری نہ کرنے کیخلاف امیدواروں کا احتجاج
  • چہرے روشن، دل سیاہ
  • ہمیں ملکر آبی وسائل کی ترقی کے لئے کام کرنا ہوگا، احسن اقبال
  • نریندر مودی کو جھوٹ بولنے کا نوبل انعام ملنا چاہیئے، سنجے راوت
  • عیدالاضحیٰ۔۔۔ سر تسلیم خم کرنے کا عہد