جو بھی کہوں گا سچ کہوں گا….!
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
میرے ایک عزیز کل ہی مجھے بتا رہے تھے کہ ان کے ایک بھتیجے یورپین سفارتخانے میں کام کرتے ہیں، کہنے لگے کہ وہ بتاتا ہے، گورا ہر غلطی برداشت کرلیتا ہے، لیکن جھوٹ معاف نہیں کرتا۔ میں اپنے عزیز کی بات سن رہا تھا اور دل ہی دل میں ایک آہ بھر رہا تھا…. میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا: یہ تو ہمیں بتایا گیا تھا….
خدانخواستہ ایسی بات نہیں کہ سب جھوٹے ہیں، سوال یہ ہے کہ سب سچے کیوں نہیں؟ اکثریت ہی تعارف ہوا کرتی ہے۔ اچھوں میں برے ار بروں میں اچھے تو ہر قوم اور ہر خاندان میں ہوتے ہیں۔ تعارفی لہجہ اکثریت کا لہجہ ہوتا ہے۔
آخر ہمیں کیا افتاد آن پڑی کہ ہم سچ کو چھوڑ کر جھوٹ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جھوٹ اور سچ میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہمارا اختیار ہے۔ مشکل اور آسان دونوں گھاٹیوں کا راستہ ہمیں دکھا دیا گیا ہے، اب یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم مشکل گھاٹی کا راستہ اپناتے ہیں، یا آسان گھاٹی میں لڑھکنا پسند کرتے ہیں۔ یہ وعدہ تو موجود ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ، لیکن ہر آسانی کے بعد آسانی ہی میسر آتی رہے گی، اس کی
کوئی ضمانت نہیں۔ کامیابی محنت کرنے والوں کا انتظار کرتی ہے۔ راحت …. ابدی راحت…. جاگنے والوں کے حصے میں آتی ہے۔ آسان گھاٹی، شارٹ کٹ…. کامیابی کی طرف نہیں لے کر جاتی۔ حتمی اور دیرپا کامیابی سچ بولنے والوں کا نصیبہ ہوتی ہے۔ جب تک جسم اور روح دونوں شادمان نہ ہوجائیں، کامیابی نزدیک نہیں آتی۔ شائد ہم نے دولت ، شہرت اور منصب کو کامیابی سمجھ لیا ہے۔ جب تک انسان اندر تک اطمینان نہ پالے، اسے سکون میسر نہیں آتا…. اور اندر کے اطمینان کے لیے سچ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جھوٹ کی قسمت میں سکون نہیں۔ جھوٹ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا…. جھوٹ کے تو پاو¿ں ہی نہیں ہوتے۔
جھوٹ ایک شارٹ کٹ ہے…. اور شارٹ کٹ اپنانے والے اس پ±رلطف راستے کا منظر دیکھنے سے محروم ہو جاتے ہیں جو سچ کے مسافروں کا منظر ہوا کرتا ہے۔ جھوٹ کا راستہ اختیار کرنے والے جوڑ توڑ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں …. اور جوڑ توڑ کے ذریعے راستہ لینے والا کامیابی کی ٹرافی میں کئی حصے دار پیدا کر لیتا ہے۔ کامیابی کے پوڈیم پر ایک وقت میں ہی ایک شخص کھڑا ہو سکتا ہے۔
ہمیں ایک پرسکون معاشرہ قائم کرنے کا نصاب دیا گیا تھا۔ پرسکون معاشرہ وہی ہے جہاں انصاف گھر کی دہلیز پر میسر آ جائے، جہاں طاقتور قانونی اور اخلاقی طاقت کے آگے سر جھکا دے …. جہاں کمزور اگر حق پر ہو تو وہ طاقتور نظر آئے اور طاقتور اگر ناحق پر کھڑا ہو تو وہ کمزور دکھائی دے۔ ایک دوسرے کے لیے بے ضرر ہونا معاشرے کو پرسکون کرتا ہے۔ مسلمان ہونے کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخص مسلمان نہیں جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ نہیں۔ ایمان دار ہونے کی شرط یہ بتائی گئی ہے کہ وہ شخص ایمان دار نہیں جو امانت دار نہیں۔ دین دار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ دین دینے والوں نے دین دار ہونے کی شرط یہ بتائی کہ وہ شخص دین دارہی نہیں جس میں ایفائے عہد نہیں۔ گویا امانت میں خیانت کرنے والا اور وعدہ توڑنے والا اپنے دین اور ایمان کا جائزہ لے کہ وہ کس منہ سے خود دین دار اور صاحبِ ایمان کہہ رہا ہے۔ مومن ہونے کا دعویٰ کرنے والا یہ دیکھے کہ مومن کی بارے میں واضح فرمایا گیا ہے کہ مومن جھوٹا نہیں ہوتا۔ اسلام، ایمان اور دین ایک فلسفہ محض نہیں، یہ کسی عمل کی تعلیم اور دعوت بھی ہے…. اسلام اور ایمان ایک حلف ہے، اور یہ حلف اٹھانے والے کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ زندگی کے کسی موڑ پر اس حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں۔
کتبِ احادیث میں ایک واقعہ درج ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص اسلام لانے کی غرض سے آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ! مجھ میں بہت برائیاں ہیں، اتنی برائیاں ہیں کہ میں سب کو دور نہیں کر سکتا۔ بس آپ کے کہنے پر صرف کوئی ایک برائی ترک سکتا ہوں۔ رسولِ کریم نے فرمایا: جھوٹ ترک کردو۔ اس نے وعدہ کر لیا۔ خوش نصیب ہے وہ جو وعدہ کرنے کے بعد وعدہ نبھانا بھی جانتا ہے۔ کچھ ہی عرصے میں معلوم ہوا کہ اس شخص سے ساری برائیاں ہی چھوٹ چکی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی بہت سی برائیاں ہیں، اتنی برائیاں کہ ہم شائد یک قلم نہ چھوڑ سکیں۔ اس حدیثِ پاک کی روشنی میں ہمیں بھی چاہیے کہ ہم صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔ اگر ہم جھوٹ بولنا چھوڑ دیں تو ہماری زندگیوں میں ، ہماری کمایﺅں میں، ہمارے تعلقات میں اور ہمارے وقت میں برکت ہونے لگے گی۔ جب برکت آتی ہے تو انسان تعداد اور مقدار سے آزاد ہو جاتا ہے۔ سو قسم کے تعلق وہ قوت نہیں دیتے جو ایک سچا تعلق قوت عطا کر دیتا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں زندگی میں وہ سہولت پیدا نہیں کرتے جو چند ہزار بڑی آسانی پیدا کر دیتے ہیں۔ زندگی میں برکت آ جائے تو انسان گوشہ نشینی میں کسی شہرت یافتہ ہیرو کی طرح لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔
اے کاش! ہماری قوم سچ کی طاقت جان لے اور جھوٹ کی بے برکتی سے آگاہ ہو جائے۔ سچ کہنا ہمارا قومی فریضہ بھی اور دینی فریضہ بھی۔ ہم آج ہی خود سے یہ وعدہ کر لیں کہ سچ بولیں گے اور سچ سنیں گے…. اور سچ کے سوا کچھ اور نہیں کہیں گے۔ یہ جملہ صرف عدل کے ایوانوں ہی میں نہیں،بلکہ بھرے بازاروں، دفتروں، گھروں اور سیاست کے میدانوں میں بھی یہی نعرہ گونجنا ہونا چاہیے۔ سچ کی طاقت لازوال ہے ، جھوٹ کی کامیابی عارضی ہے…. اور ہم تو ہیں ہی دائمی زندگی کے طلب گار!…. ہمیں جھوٹ سے کیا کام! جھوٹ ہماری زندگی بھی برباد کر رہا ہے اور عاقبت بھی!! ہمیں جھوٹ سے دہرا نقصان ہو رہا ہے۔ وقنی فائدے کی خاطر ہمیشہ کا نقصان مول نہ لیں….گھاٹے کی تجارت نہ کریں!
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: برائیاں ہی کا راستہ
پڑھیں:
جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں
جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 26 July, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
مون سون کی آمد سے پہلے ہی پاکستان کے مختلف علاقے تباہی کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔ بے موسمی اور نہ تھمنے والی بارشیں اس سرزمین پر اس شدت سے برسیں کہ سیلابی ریلوں نے گھروں، سڑکوں، فصلوں اور قیمتی جانوں تک کو بہا لے گیا۔ ان مہینوں میں بارش اجنبی نہیں ہوا کرتی، مگر اس تباہی کی وسعت ماضی کے موسمی برساتی نظم سے بالکل مختلف ہے۔ جو سیلاب کبھی پیشگی تنبیہ اور کسی نہ کسی ترتیب کے ساتھ آیا کرتے تھے، اب ایک ناگہانی عذاب کی طرح اچانک اور بے رحم ہو کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ قوم ایک کڑے سوال کے سامنے کھڑی ہے؛ کیا یہ سب کچھ بدلتے موسموں کا شاخسانہ ہے، انسانی کوتاہی کا نتیجہ ہے یا پھر ربّ کی ناراضی کا اظہار؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اس صورتحال میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان، اگرچہ عالمی کاربن اخراج میں سب سے کم حصہ ڈالنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، مگر ماحولیاتی بگاڑ کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار ملکوں میں شامل ہے۔ غیر متوقع موسمی رویے، طویل خشک سالی کے بعد اچانک موسلا دھار بارشیں، شمال میں پگھلتے ہوئے گلیشیئرز اور جنوب میں بلند ہوتے سمندری سطح کے پانی—یہ تمام عناصر مل کر ایک بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ تاہم، اگر اس تمام تباہی کا الزام صرف قدرت پر دھر دیا جائے تو یہ ہماری اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہوگا۔
عوام، خصوصاً سیاحوں اور سنسنی کے متلاشی افراد کی غفلت اور لاپروائی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہر سال جب محکمہ موسمیات کی جانب سے وارننگز جاری کی جاتی ہیں، تب بھی کئی لوگ خطرناک علاقوں کا رخ کرتے ہیں، دریاؤں کے کنارے کیمپ لگاتے ہیں یا ان پہاڑی راستوں پر چڑھائی کرتے ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ کے لیے مشہور ہوتے ہیں۔ ایسی لاپروائی بارہا قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنی ہے—نہ صرف ان افراد کی، جو خود خطرہ مول لیتے ہیں، بلکہ ان امدادی کارکنوں کی بھی، جو انہیں بچانے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔
لیکن اصل اور زیادہ خطرناک مسئلہ انفرادی غلط فیصلوں میں نہیں، بلکہ نظامی ناکامی اور بے لگام شہری لالچ میں پوشیدہ ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا بے قابو پھیلاؤ—جو اکثر بااثر افراد کی سرپرستی کے سائے میں اور ماحولیاتی قوانین کو پس پشت ڈال کر کام کرتا ہے—نے وسیع زرعی زمینوں اور قدرتی آبی گزرگاہوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ یہ سوسائٹیاں، منافع اور سیمنٹ کے جنون میں، صدیوں پرانے دریاؤں اور بارش کے پانی کے بہاؤ کے راستوں کو بند یا موڑ دیتی ہیں۔ نتیجتاً جب بارش ہوتی ہے تو پانی کے نکلنے کے قدرتی راستے باقی نہیں رہتے؛ وہ رہائشی علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے، سڑکوں کو ڈبو دیتا ہے، اور ہر اُس چیز کو تباہ کر دیتا ہے جو اس کے قدرتی بہاؤ کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
زرعی میدان، جو کبھی بارش کے پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اب کنکریٹ اور تارکول میں بدل چکے ہیں۔ نہریں اور ذیلی نالے یا تو تنگ کر دیے گئے ہیں یا ان کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔ بعض صورتوں میں ہاؤسنگ ڈیویلپرز نے خشک دریا کے کناروں پر تعمیرات کر ڈالیں، اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے یا جان بوجھ کر بھلا کر کہ یہ خشک راستے مردہ نہیں بلکہ خاموش ہیں۔ جب قدرت اپنا حق واپس لیتی ہے تو نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان کبھی زرخیز رہنے والا علاقہ، اسلام آباد کے گرد و نواح، اور کراچی کی مضافاتی بستیاں اس بات کی تلخ مثالیں ہیں کہ کس طرح بے لگام تعمیر و ترقی نے ماحولیاتی توازن بگاڑا اور انسانی مصائب کو جنم دیا۔
اس دکھ میں مزید اضافہ نکاسی آب کے نظام کی مجرمانہ غفلت سے ہوتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر ہر سال بند گٹروں اور صاف نہ کیے جانے والے نالوں کا شکار ہوتے ہیں۔ بارہا حادثات کے باوجود مقامی انتظامیہ شاذ و نادر ہی بروقت صفائی مہمات کا آغاز کرتی ہے۔ چنانچہ معمولی بارش بھی پورے علاقوں کو زیرِ آب کر دیتی ہے، شہری آمد و رفت مفلوج ہو جاتی ہے، اور عوامی و نجی املاک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
کچھ لوگ ان واقعات کو روحانی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں خدائی ناراضی کی علامات کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ ایک ایسی معاشرت میں، جو ناانصافی، بدعنوانی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو چکی ہو، ایسی آفات کو محض قدرتی حادثہ نہیں بلکہ تنبیہ سمجھا جاتا ہے۔ کوئی اس نقطۂ نظر سے اتفاق کرے یا نہ کرے، مگر خوداحتسابی کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔ اب صرف آسمان ہی نہیں بدلا، زمین بھی—سماجی، اخلاقی اور حقیقی معنوں میں—ہمارے قدموں کے نیچے سے کھسک چکی ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، اس سال بارشوں سے متعلقہ حادثات کے نتیجے میں اب تک 180 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جبکہ املاک اور بنیادی ڈھانچے کو ہونے والا نقصان 60 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں کئی دیہات یا تو زیرِ آب آ گئے ہیں یا مکمل طور پر منقطع ہو گئے ہیں۔ فصلیں، جو کٹائی سے محض چند ہفتے دور تھیں، بہہ گئی ہیں، جس سے پہلے ہی مشکلات کا شکار دیہی آبادی پر مزید بوجھ پڑا ہے۔
اگر ہم نے مستقبل میں ایسے نقصانات کو روکنا ہے تو فوری اور طویل المدتی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک جامع، تکنیکی طور پر جدید ابتدائی وارننگ سسٹم کا قیام ناگزیر ہے۔ مقامی حکومتوں کو ایسے انتباہات پر تیزی سے عمل کرنے کے لیے لیس اور بااختیار ہونا چاہیے۔ شہری منصوبہ بندی میں مناسب نکاسی آب اور پانی کے بہاؤ کے تحفظات کو شامل کیا جانا چاہیے، اور سیلابی میدانوں پر غیر قانونی تعمیرات کو بغیر کسی استثنا کے ہٹایا جانا چاہیے۔ طوفانی نالوں کی سالانہ صفائی شفافیت اور باقاعدہ نگرانی کے ساتھ کی جائے۔
علاوہ ازیں، زرعی زمینوں اور قدرتی آبی گزرگاہوں کے قریب ہاؤسنگ سوسائٹیز کی منظوری پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ زمین کی ترقی سے متعلقہ اداروں کو از سر نو منظم کیا جائے تاکہ وہ قلیل مدتی آمدن کے بجائے ماحولیاتی پائیداری کو ترجیح دیں۔ ملک بھر میں ایک مضبوط اور جدید ابتدائی انتباہی نظام نافذ کیا جانا چاہیے، جس میں حقیقی وقت پر الرٹس اور مقامی سطح پر فوری ردعمل کے مؤثر طریقہ کار شامل ہوں۔ شہروں کو دوبارہ درست شہری منصوبہ بندی کی طرف لوٹنا ہوگا، جس میں نکاسی آب کے نظام، سبز جگہوں، اور پانی جذب کرنے والے علاقوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔
اس کے علاوہ، نالوں اور نالیوں کی سالانہ صفائی کو ریاستی ذمہ داری قرار دینا چاہیے، نہ کہ صرف بارش سے چند دن قبل کی جانے والی رسمی کارروائی۔ آگاہی مہمات، اسکولوں کے نصابات، اور عوامی پیغام رسانی کے ذریعے بارش کے موسم میں غیر ذمہ دارانہ رویوں کے خطرات کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔ آخر میں، پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر ماحولیاتی انصاف کی بھرپور وکالت کرنی چاہیے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی، مالی معاونت اور شراکت داری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ملک ماحولیاتی خطرات کے خلاف مضبوط مدافعت پیدا کر سکے۔
ہمارے سامنے چیلنج بہت بڑا ہے، لیکن ناقابل تسخیر نہیں۔ اگر ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، حکمت کو سائنس کے ساتھ جوڑتے ہیں، اور اپنے اعمال کو عقل اور راستبازی دونوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں، تو ہمیں ابھی تک حفاظت کا راستہ مل سکتا ہے۔ ورنہ اگلے سال بارشیں لوٹ کر آئیں گی اور ان کے ساتھ دکھ کا ایک اور باب بھی لائیں گی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرفلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان، اسرائیلی وزیر نے میکرون کی اہلیہ سے تھپڑ کھانے کی ویڈیو شیئر کردی گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟ عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی غیرت کے نام پر ظلم — بلوچستان کے المیے پر خاموشی جرم ہے آبادی پر کنٹرول عالمی تجربات اور پاکستان کے لیے سبق حلف، کورم اور آئینی انکار: سینیٹ انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا اسمبلی کا بحران اور اس کا حلCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم