یو این او کا رہا ہونیوالے قیدیوں کی تصاویر پر اظہار تشویش
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کی حراست سے رہا ہونے والے فلسطینیوں کے ساتھ اس طرح کے سلوک کا انکشاف ہوا ہے، جو ان سنگین حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان تھمین الخیتان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے حصے کے طور پر جاری کی جانے والی اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی تصاویر پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہفتے کے آخر میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی جو تصاویر دیکھی ہیں ان میں بدسلوکی اور شدید غذائی قلت کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جو غزہ میں ان کے ساتھ انتہائی سنگین حالات کی عکاسی کرتی ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ ہمیں غزہ میں حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی پر بھی گہری تشویش ہے، جس میں رہائی کے دوران بظاہر دباؤ کے تحت دیے گئے بیانات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی حراست سے رہا ہونے والے فلسطینیوں کے ساتھ اس طرح کے سلوک کا انکشاف ہوا ہے، جو ان سنگین حالات کی عکاسی کرتا ہے جن کے تحت انہیں حراست میں رکھا گیا ہے، جس طرح سے انہیں رہا کیا گیا ہے اس سے بھی سنگین تشویش پیدا ہوتی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
100 سے زائد عالمی امدادی تنظیموں نے غزہ میں قحط کی صورتحال کو سنگین قرار دے دیا
غزہ:عالمی امدادی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے غزہ میں قحط کی صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ علاقے کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ ان تنظیموں نے عالمی برادری سے فوری اقدامات کرنے کی درخواست کی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز ، (MSF) سیو دی چلڈرن اور آکسفام سمیت 100 سے زائد عالمی امدادی تنظیموں نے مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ان کے اہلکار اور غزہ کے عوام موت کے دہانے پر ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 10 افراد کی موت ہوئی ہے، جس سے اس ہفتے کے آغاز سے اب تک قحط کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 43 تک پہنچ گئی ہے۔
اقوام متحدہ نے بتایا کہ اسپتالوں میں غذائی قلت کی وجہ سے مریض شدید کمزوری کا شکار ہو رہے ہیں اور کچھ افراد سڑکوں پر گر کر بے ہوش ہو رہے ہیں۔
عالمی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امدادی کارکن بھی اب خوراک کی لائنوں میں شامل ہیں، اور وہ اپنی زندگی کی قیمت پر اپنے اہل خانہ کو کھانا فراہم کر رہے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت کا محاصرہ غزہ کے عوام کو بھوک سے مار رہا ہے، اور اب امدادی کارکن اپنے ہی ساتھیوں کو غذائی قلت کی وجہ سے کمزور ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل پر مارچ کے آغاز میں مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی، اور دو ماہ کے جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دی تھیں، جس کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔
امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز نے بچوں اور بزرگوں میں غذائی کمی کے سنگین اعداد و شمار کی اطلاع دی ہے، اور اس کے ساتھ ہی اسہال جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں، بازار خالی ہیں، اور کوڑا کرکٹ جمع ہو رہا ہے۔
غزہ میں حالات اتنے سنگین ہو چکے ہیں کہ ایک امدادی کارکن نے بچوں کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بچے اپنے والدین سے کہتے ہیں کہ وہ جنت جانا چاہتے ہیں، کیونکہ وہاں کم از کم کھانا ملے گا۔