وائٹ ہاؤس نے 'خلیج امریکہ' نہ لکھنے پر صحافی کا داخلہ روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 فروری 2025ء) ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے رپورٹر کو وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز اوول آفس میں ہونے والے ایک پروگرام میں داخلہ دینے سے اس لیے منع کردیا کیونکہ خبر رساں ایجنسی نے"خلیج میکسیکو" کا نام تبدیل کر کے "خلیج امریکہ" رکھنے کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کی تعمیل نہیں کی۔
وائٹ ہاؤس نے رپورٹر، جس کی شناخت اے پی نے ظاہر نہیں کی ہے، کا داخلہ اس وقت تک روک دیا ہے، جب تک کہ نیوز ایجنسی خلیج میکسیکو کا حوالہ دینے کا اپنا انداز تبدیل نہ کردے۔
گوگل میپس پر خلیج میکسیکو کو خلیج امریکہ کر دیا جائے گا
اے پی کی ایگزیکٹو ایڈیٹر جولی پیس نے کہا، "یہ تشویشناک ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اے پی کو اس کی آزاد صحافت کی سزا دے رہی ہے۔
(جاری ہے)
" انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کی رسائی کو محدود کرنے سے آزادی صحافت کی ضمانت دینے والی امریکی آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
جنوری میں، ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے، جس میں سیکرٹری داخلہ کو خلیج میکسیکو کا نام بدل کر "خلیج امریکہ" رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
ٹرمپ کی فتح ریلی: صدارت کے پہلے ہی دن ایگزیکٹو آرڈرز کے بہت سے وعدے
اے پی کا کہنا ہے کہ اس خلیج کا نام 400 سال سے زیادہ عرصے سے "خلیج میکسیکو" ہے۔ اور ایک عالمی خبر رساں ایجنسی کے طور پر، اپنی اسٹائل بک میں وہ ٹرمپ کے منتخب کردہ نئے نام کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے اصل نام کا ذکر کرے گی۔
گوگل اور ایپل میپس نے اس ہفتے سے "خلیج امریکہ" کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
گوگل نے کہا کہ اس کے پاس ایسے معاملات پر امریکی حکومت کے احکامات کی پیروی کرنے کی "دیرینہ روایت" رہی ہے۔ وائٹ ہاوس کے رویے پر صحافیوں کا احتجاجوائٹ ہاؤس کے نامہ نگاروں کی ایسوسی ایشن نے منگل کو ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے پر احتجاج کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پابندی سے امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ایسوسی ایشن کے صدر یوجین ڈینیئلز نے کہا، "انتظامیہ کی جانب سے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر کو خبروں کی کوریج کے لیے ایک عام سرکاری پروگرام سے روکنے کا اقدام ناقابل قبول ہے۔"
’صحافت ہتھیار ڈالنے کا نہیں، سچ رپورٹ کرنے کا نام ہے‘
ڈینیئلز نے منگل کو ایکس پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا، "وائٹ ہاؤس یہ حکم نہیں دے سکتا کہ خبر رساں ادارے کس طرح خبروں کی رپورٹنگ کریں، اور نہ ہی اسے ورکنگ صحافیوں کو اس لیے سزا دینا چاہیے کیونکہ وہ اپنے ایڈیٹرز کے فیصلوں سے ناخوش ہیں۔
"اے پی کے رپورٹر کے داخلے پر پابندی کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کوئی نیا تبصرہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی دیگر صحافیوں کو وائٹ ہاؤس سے روکے جانے کی کوئی اطلاع ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی بنیاد 1846 میں رکھی گئی تھی اور یہ دنیا بھر کی اشاعتوں کو مختلف شکلوں میں خبریں فراہم کرتی ہے۔
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خلیج میکسیکو خلیج امریکہ وائٹ ہاؤس کا نام
پڑھیں:
نیتن یاہو ہر مسئلے میں جھوٹ بولتا ہے، اسرائیلی صحافی کا اعلان
ایک مشہور اسرائیلی صحافی نے غاصب صیہونی رژیم کے سفاک وزیر اعظم کے حالیہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس شخص کے لا تعداد جھوٹ پر عملدرآمد کرنا ایک تھکا دینے والا مشن ہے جس کیلئے مکمل حکومتی وسائل بھی کافی نہیں! اسلام ٹائمز۔ معروف اسرائیلی صحافی بن کیسپت (בן כספית-Ben Caspit) نے صیہونی اخبار معاریو (Ma'ariv) میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں، گذشتہ ہفتے، کرپشن کے مقدمات کی سماعت کے دوران پولش نژاد غاصب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ایک اور جھوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کے لاتعداد جھوٹ پر عملدرآمد ایک تھکا دینے والا مشن ہے جس کے لئے حکومتی وسائل بھی کافی نہیں اور حتی طیارہ بردار بحری بیڑے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بن کیسپت کا لکھنا تھا کہ یہ آدمی دن میں 24 گھنٹے، کسی بھی وقت، کسی بھی موسم اور کسی بھی زبان میں جھوٹ بولتا ہے جیسا کہ اسی ہفتے ہم نے ربی ہرش کے ساتھ انگریزی زبان میں گفتگو میں اس کے جھوٹ کو بے نقاب کیا تھا۔
بن کیسپت نے لکھا کہ نیتن یاہو نے ججوں سے بھی جھوٹ بولا ہے جب اس نے اعلان کیا تھا کہ 1999 کے انتخابات کے بعد اور ان انتخابات میں اپنی شکست پر وہ سیاسی میدان چھوڑ کر ایک "سابق سیاستدان" بن گیا تھا اور سیاست میں واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ صیہونی صحافی نے مزید لکھا کہ نیتن یاہو نے دعوی کر رکھا ہے کہ با اثر لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات "مکمل طور پر مجاز اور قانونی تھے"۔ اسرائیلی صحافی نے بیان کیا کہ جیسے ہی نیتن یاہو نے اس وقت استعفی دیا، اس نے عملی طور پر سیاست میں واپسی کے لئے اپنی مہم کا آغاز کر دیا تھا اور اس کے کارندوں نے بھی ہمارے لئے اس بات کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی صحافی نے لکھا کہ نیتن یاہو نے ان تمام صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ مفاہمت کی ایک مہم بھی شروع کی تھی کہ جن کے ساتھ وہ اپنے اقتدار کی مدت کے دوران تنازعات میں گھرا رہا تھا۔ بن کیسپت نے لکھا کہ نیتن یاہو نے براہ راست مجھ پر بھی زور دیا تھا کہ وہ سیاست میں واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ہمارے درمیان انجام پانے والی کوئی بھی بات چیت اسی محور کے گرد گھومتی تھی۔ معروف اسرائیلی صحافی نے اپنی تحریر کے آخر میں تاکید کی کہ نیتن یاہو نے بات چیت کے اختتام پر مجھ سے التجا کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ "مجھ پر ایک احسان کرو اور سارہ (نیتن یاہو کی اہلیہ) کو اپنے حال پر چھوڑ دو!" جس کے جواب میں مَیں نے اسے کہا کہ "جب تک وہ (سارہ) حکومتی معاملات میں مداخلت نہ کرے، میں اس کے معاملات میں مداخلت کی کوئی خواہش نہیں رکھتا!"