حوثی رہنما عبد المالک نے کہا کہ اگر اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کیے تو ہم بھی اسرائیل پر حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یمن کے حوثی باغیوں کے رہنما عبدالمالک نے کہا کہ بدلتے ہوئے حالات پر نظریں ہیں اور جوابی ردعمل کے لیے بالکل تیار ہیں۔

حوثی باغی رہنما عبدالمالک نے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ میں حملے دوبارہ شروع کرتا ہے تو ہم بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

حوثی رہنما نے کہا کہ اس صورت میں ہم بھی اسرائیل پر حملے کریں گے جس کے لیے ہم ہر وقت تیار اور مستعد ہیں۔

یاد رہے کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر ہفتے کے روز ہونے والی رہائی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو مؤخر کردیا تھا۔

جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دھمکی دی کہ اگر حماس نے ہفتے کے روز یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا تو جنگ بندی ختم اور تباہی ہوگی۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے کہا

پڑھیں:

غزہ حملے ’ناقابل فہم‘: اسرائیل سے متعلق جرمن لہجے میں تبدیلی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2025ء) جرمن دارالحکومت برلن اور فن لینڈ کے شہر تُرکُو سے منگل 27 مئی کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق غزہ کی جنگ کے پس منظر میں وفاقی چانسلر فریڈرش میرس نے اس فلسطینی ساحلی پٹی میں اسرائیلی دفاعی افواج کی طرف سے وسیع تر زمینی اور فضائی حملوں کے باعث اسرائیل پر جو کڑی تنقید کی، وہ جرمن سربراہ حکومت کی طرف سے آج تک اختیار کیا جانے والا سخت ترین موقف تھا۔

غزہ: اسرائیلی فضائی حملوں میں پیر کے روز کم از کم 52 ہلاکتیں

چانسلر میرس نے کہا کہ اسرئیل غزہ پٹی میں جو وسیع تر فضائی حملے کر رہا ہے، وہ حماس کے خلاف جنگ کی ضرورت کے نام پر اب قابل توجیہہ بھی نہیں اور 'قابل فہم بھی نہیں رہے‘۔

خبر رساں ا دارے روئٹرز نے لکھا ہے کہ چانسلر فریڈرش میرس نے جو کچھ کہا ہے، وہ غزہ کی جنگ سے متعلق اسرائیل کے بارے میں جرمنی کے بدل چکے لہجے کا عکاس ہے۔

(جاری ہے)

فن لینڈ میں پریس کانفرنس میں دیا جانے والا بیان

جرمن چانسلر میرس نے اسرائیلی عسکری اقدامات سے متعلق اپنا یہ تنقیدی بیان فن لینڈ میں ایک پریس کانفرنس میں دیا۔ روئٹرز کے مطابق یہ بیان رائے عامہ کی سطح پر ایک بڑی تبدیلی کا مظہر بھی ہے اور اس بات کا عکاس بھی کہ جرمنی کے اعلیٰ سیاست دان سات اکتوبر 2023ء کے روز حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل کی طرف سے اپنائی گئی عسکری پالیسی پر تنقید کرنے کے لیے اب کہیں زیادہ آمادہ نظر آتے ہیں۔

حماس کے خلاف جنگ میں غزہ پٹی میں اسرائیلی عسکری اقدامات کے بارے میں ایسا کوئی بیان اب تک صرف جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے ہی نہیں دیا۔ ان سے قبل اسرائیل پر ایسی تنقید میرس حکومت کے وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول بھی کر چکے ہیں۔

غزہ میں ’مظالم‘: ملائیشیا کے وزیر خارجہ کی طرف سے ’دوہرے معیارات‘ کی مذمت

ان دونوں رہنماؤں کے علاوہ موجودہ مخلوط وفاقی حکومت میں جونیئر پارٹنر کے طور پر شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی طرف سے بھی یہ مطالبات سامنے آ چکے ہیں کہ جرمنی اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد بند کر دے، ورنہ اسے جنگی جرئم میں ملوث ہونے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسرائیل کے بارے میں جرمنی کی خصوصی ذمے داری اپنی جگہ برقرار

نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ جرمنی کی اسرائیل کے بارے میں سوچ ماضی سے قطعی مختلف ہو گئی ہے۔ ایسے کسی تاثر کے بالکل برعکس جرمن سیاسی رہنماؤں کے تازہ بیانات ان کے لہجے میں ایک واضح تبدیلی کا پتہ دیتے ہیں۔

تاہم لہجے کی یہ تبدیلی اس وجہ سے بہت اہم ہے کہ جرمنی کی قیادت ایک مستقل پالیسی کے طور پر آج بھی یہی سمجھتی ہے کہ اسرائیل کے بارے میں جرمنی پر خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

اس ریاستی ذمے داری کے لیے جرمن زبان میں 'اشٹاٹس ریزوں‘ (Staatsraeson) یا 'ریاستی فریضے‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اور اس 'فریضے‘ کا تعلق نازی دور میں یہودیوں کے اس قتل عام یا ہولوکاسٹ کی میراث سے ہے، جس میں کئی ملین یہودیوں کو ہولناک طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا۔

غزہ کی صورت حال: یورپی یونین کی اسرائیل سے تجارتی تعلقات پر نظرثانی

یورپی یونین کی اسرائیل پالیسی کا از سر نو جائزہ

جرمنی اور امریکہ دنیا بھر میں اسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

لیکن جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے اب اسرائیل کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ ایک ایسے وقت پر کہا گیا ہے، جب یورپی یونین بھی اسرائیل سے متعلق اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے۔

یہی نہیں بلکہ برطانیہ، فرانس اور کینیدا تک نے بھی دھمکی دے دی ہے کہ وہ غزہ کی جنگ اور وہاں پائی جانے والی عام شہریوں کی موجودہ بحرانی صورت حال کے باعث 'ٹھوس اقدامات‘ بھی کر سکتے ہیں۔

فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پرعزم، وزیر خارجہ

فریڈرش میرس نے فن لینڈ میں جو کچھ کہا، وہ اس وجہ سے بھی خاص طور پر حیران کن ہے کہ اسی سال فروری میں جرمنی میں جو قومی انتخابات ہوئے، ان میں میرس کی پارٹی کامیاب ہوئی اور میرس نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ جرمن سرزمین پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی میزبانی کریں گے۔

ان کا یہ بیان اس تناظر میں تھا کہ غزہ کی جنگ کی وجہ سے ہی بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی سی) نے نیتن یاہو کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں اور میرس اسی حقیقت کے باوجود جرمنی میں نیتن یاہو کی میزبانی کرنا چاہتے تھے۔

میرس نے فن لینڈ میں کہا کیا؟

جرمن چانسلر میرس نے فن لینڈ کے شہر تُرکُو میں کہا، ''غزہ پٹی میں اسرائیل کے شدید اور وسیع تر فضائی حملوں کی مجھ پر تو کوئی منطق ظاہر نہیں ہو سکی۔

یہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا مقصد کس طرح پورا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے، میں انہیں بہت زیادہ تنقیدی نظروں سے دیکھتا ہوں۔‘‘

ساتھ ہی چانسلر میرس نے مزید کہا، ''میں ان لوگوں میں سے ایک بھی نہیں ہوں، جنہوں نے یہ بات پہلی مرتبہ کی۔ لیکن مجھے ایسا لگا اور اب بھی ایسا لگتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں عوامی سطح پر بھی لازمی طور پر کہوں کہ اس وقت جو کچھ (غزہ میں) ہو رہا ہے، وہ قابل فہم نہیں رہا۔

‘‘

غزہ کے بچوں کے سامنے ہر طرف سے فقط موت، یونیسیف

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چانسلر میرس کے دفتر میں اسرائیل کے ذیکیم ساحل کی ایک تصویر بھی لٹکی ہوئی ہے، جہاں سات اکتوبر 2023ء کے دہشت گردانہ حملے کے لیے حماس کے عسکریت پسند کشتیوں کے ذریعے پہنچے تھے اور پھر وہاں سے اسرائیل میں داخل ہو کر انہوں نے تقریباﹰ 1,200 افراد کو قتل کیا تھا۔

جرمنی میں اسرائیلی سفیر کا ردعمل

جرمن چانسلر کے آج کے بیانات کے بعد جرمنی میں تعینات اسرائیلی سفیر رون پروسور نے کوئی تبصرہ کیے بغیر کہا کہ وہ جرمنی کے خدشات اور تشویش کو تسلیم کرتے ہیں۔

رون پروسور نے جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا، ''جب فریڈرش میرس اسرائیل پر اس طرح کی تنقیدی آوز بلند کرتے ہیں، تو ہم بڑی توجہ سے سنتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے دوست ہیں۔

‘‘

ٹرمپ کے خلیجی ممالک کے دورے کے موقع پر غزہ میں اسرائیلی بمباری میں اضافہ

دیگر خبر رساں اداروں کے مطابق فریڈرش میرس نے جو کچھ کہا ہے، اس کی وجہ جرمنی میں اسرائیلی اقدامات کی وسیع تر عوامی مخالفت بھی ہے اور اس وجہ سے سیاسی دباؤ بھی۔

جرمن اخبار 'ٹاگیس اشپیگل‘ کی طرف سے اسی ہفتے کرائے گئے ایک عوامی جائزے کے مطابق 51 فیصد جرمن رائے دہندگان نے اسرائیل کو جرمن ہتھیاروں کی برآمد کی مخالفت کی۔

ادارت: افسر اعوان، کشور مصطفیٰ

متعلقہ مضامین

  • تہاڑ جیل میں قید حریت رہنما شبیر احمد شاہ کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ
  • اسرائیلی حملے میں یمن کے آخری ہوائی جہاز کو تباہ کر دیا گیا، حج پر جانے والے زائرین متاثر
  • فضائی حملے میں حماس کے اہم رہنما کی شہادت کا اسرائیلی دعویٰ
  • اسرائیل کیخلاف ہمارے حملوں میں اضافہ ہوگا، یمنی عہدیدار
  • اسرائیل کا صنعا ایئر پورٹ پر حملہ، یمنی ایئر لائن کا آخری طیارہ تباہ، حج پروازیں متاثر ہونے کا خدشہ
  • جنوبی وزیرستان میں مبینہ کواڈ کاپٹر حملہ، 22 افراد زخمی
  • غزہ حملے ’ناقابل فہم‘: اسرائیل سے متعلق جرمن لہجے میں تبدیلی
  • خضدار، اے پی ایس حملے کے مبینہ حملہ آور کے اعضاء فارنزک کیلئے روانہ
  • ضرورت پڑی تو اسرائیل پر نیا حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں، ایران
  • پہلگام حملہ انتخابی ڈرامہ، سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا نے مودی سازش بے نقاب کردی