غزہ پر حملہ کیا تو اسرائیل بھی محفوظ نہیں رہے گا؛ یمنی حوثی
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
حوثی رہنما عبد المالک نے کہا کہ اگر اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کیے تو ہم بھی اسرائیل پر حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یمن کے حوثی باغیوں کے رہنما عبدالمالک نے کہا کہ بدلتے ہوئے حالات پر نظریں ہیں اور جوابی ردعمل کے لیے بالکل تیار ہیں۔
حوثی باغی رہنما عبدالمالک نے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ میں حملے دوبارہ شروع کرتا ہے تو ہم بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
حوثی رہنما نے کہا کہ اس صورت میں ہم بھی اسرائیل پر حملے کریں گے جس کے لیے ہم ہر وقت تیار اور مستعد ہیں۔
یاد رہے کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر ہفتے کے روز ہونے والی رہائی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو مؤخر کردیا تھا۔
جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دھمکی دی کہ اگر حماس نے ہفتے کے روز یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا تو جنگ بندی ختم اور تباہی ہوگی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا
پڑھیں:
دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی فضائی حملے نے عالمی سطح پر ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے اور اب اس معاملے پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل آج جنیوا میں ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔
یہ اجلاس پاکستان اور کویت کی مشترکہ درخواست پر بلایا گیا ہے تاکہ اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر بحث کی جا سکے۔ یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلم دنیا اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے مقابلے میں سفارتی محاذ پر متحرک ہے۔
اجلاس میں دوحا پر کیے گئے حملے کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسرائیل کی کارروائیوں اور جنگی جارحیت پر بحث کی جائے گی۔
دوسری جانب اسرائیل نے اس اجلاس کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے فیصلے عالمی انسانی حقوق کے ڈھانچے کو متاثر کریں گے۔۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اسرائیل عالمی اداروں کے فیصلوں کو مسترد کرتا رہا ہے تاکہ اپنی جنگی پالیسیوں کو جاری رکھ سکے۔
یاد رہے کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے دوحا میں ایک خفیہ اجلاس کو نشانہ بنایا تھا، جہاں حماس کی قیادت غزہ میں ممکنہ جنگ بندی اور امریکی صدر کی تجویز پر غور کر رہی تھی۔
حملے کے نتیجے میں 6 افراد شہید ہوئے تاہم حماس کے مرکزی رہنما محفوظ رہے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق اس حملے کا مقصد صرف قیادت کو ختم کرنا نہیں بلکہ قطر جیسے ملک کو بھی دباؤ میں لانا تھا جو مسلسل فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
پاکستان اور کویت کی جانب سے اٹھایا گیا یہ قدم اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم ممالک اب اسرائیلی مظالم کو عالمی پلیٹ فارم پر بے نقاب کرنے کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ عرب دنیا کے کئی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس حملے کی شدید مذمت کر چکی ہیں اور اسے نہ صرف قطر کی خودمختاری پر حملہ بلکہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے خلاف ایک کھلا وار قرار دے رہی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس عالمی ضمیر کا امتحان بھی ہے۔ اگر انسانی حقوق کونسل اسرائیلی جارحیت کے خلاف مؤثر مؤقف اختیار کرتی ہے تو یہ فلسطینی عوام کی حمایت کےلیے ایک بڑی اخلاقی جیت ہوگی۔ بصورت دیگر دنیا پر یہ تاثر مزید گہرا ہو جائے گا کہ بین الاقوامی ادارے طاقتور ریاستوں کے آگے بے بس ہیں۔
اس اجلاس کے فیصلے آئندہ خطے کی سیاسی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔