قادیانیت سے تائب ہوکر اسلام قبول کرنیوالی بچی کی تصنیف کی تقریب رونمائی اسلام آباد میں ہوئی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہ کتاب ایک ایسی بہن کی روداد ہے جو خانوارہ کفر چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئی، اس بچی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، دین اسلام ہی آخری راستہ ہے جو حق کا راستہ ہے،اس بچی کو جن لوگوں نے سہارا دیا میں انہیں بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا اور بالخصوص برصغیر میں قادیانیت برطانیہ کا خود ساختہ پودا ہے، اس کا اعتراف مرزا غلام احمد نے خود اپنی کتابوں میں کیا ہے، یہ مسلمانوں کو گمرذہ کرنے کی ایک تحریک ہے، ہمارے اکابر نے اس فتنے کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا، تمام مسالک کے علماء نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ یہ مسلمان نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج مسلمانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ تم قادیانیوں کو کافر کیوں قراردیتے ہیں، قادیانیوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر کیوں قرار دیتے ہیں، مصنفہ خنسہ محمد امین نے مشکل سفر کا انتخاب کیا، اسلام میں انسانیت کی آزادی کا پیغام ہے، یہ حق کا راستہ ہے لیکن مشکل راستہ بھی ہے۔

مولانا  فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج بھی ٹرمپ کہتا ہے میں غزہ کو خرید لوں گا، یہ ایک مرتبہ پھر نوآبادیاتی نظام کا آغاز ہے، دنیا کے کسی بھی آزاد ملک کی حریت کیلئے ہم لڑیں گے، ہم نے پاکستان میں اس لابی کی مخالفت کی ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے تھے۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہم نے اس لابی کیخلاف جنگ لڑی ہے جو قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان قرار دلوانا چاہتے تھے، تلواروں کے سائے میں جنت ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہم بھی انسان ہیں ہم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جنرل سیکریٹری جے یو آئی مولانا عبدالغفور حیدری  نے کہا کہ قادیانیت سے تائب ہونیوالی بچی کی تربیت بہت بڑا کام ہے، اگر قادیانیت ترک کرکے اسلام قبول کرنیوالوں کی راہنمائی بہت ضروری ہوتی ہے، مفتی نعیم اور ان کی اہلیہ نے اس بچی کی حفاظت بھی کی اور راہنمائی بھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اکابرین نے پاکستان کو متفقہ آئین دیا، ہمارے اکابرین کی کوششوں سے قذدیانیت کو دائرہ اسلام سے خارج قراردیا گیا، آئین میں ہمارے اکابرین کی کوششوں سے قادیانیوں کو غیر مسلم قراردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام کا کردار پاڑلیمنٹ میں  بڑا اہم رہا ہے، جے یو آئی نے مسلم امہ کے مسائل کو ہر فورم پر اٹھایا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے کہا کہ بچی کی

پڑھیں:

ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ: دوستوں سے شراکت یا قانونی اصولوں کی خلاف ورزی؟

پاکستان میں ایوی ایشن کے شعبے میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ (IIAP) کی مینجمنٹ متحدہ عرب امارات (UAE) کو گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ (G2G) معاہدے کے تحت آؤٹ سورس کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

اب یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کراچی (جناح انٹرنیشنل) اور لاہور (علامہ اقبال انٹرنیشنل) ایئرپورٹس کو بھی اسی ماڈل پر آؤٹ سورس کیا جا سکتا ہے۔

یہ اقدامات ملکی معاشی بحران، عالمی معیار کی سہولیات کی ضرورت، اور بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کی پالیسی کے تحت کیے جا رہے ہیں، لیکن اس پر شفافیت اور قانونی تقاضوں پر سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔

 ایئرپورٹس کی آمدنی: فیصلہ کیوں اہم ہے؟

پاکستان کے 3 بڑے ایئرپورٹس — اسلام آباد، کراچی، اور لاہور — ملک کی ایوی ایشن آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ نے پچھلے 3 مالی سالوں میں تقریباً 46 ارب روپے ریونیو کمایا۔ لاہور ایئرپورٹ کی آمدنی 44 ارب روپے اور کراچی ایئرپورٹ کی آمدنی 40 ارب روپے رہی۔

مجموعی طور پر تینوں ایئرپورٹس نے 130 ارب روپے کی کمائی کی ([National Assembly Data, 2024]).

مارچ 2025 میں اسلام آباد ایئرپورٹ نے صرف کارگو آپریشنز سے 72 کروڑ روپے کمائے، جو کہ ایک ماہ میں سب سے بڑی وصولی تھی۔ ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ اربوں روپے کے مالی مفاد سے جڑا ہوا ہے۔

اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ: کیا ہوا؟

حکومت نے پہلے IFC (International Finance Corporation) کی مشاورت سے اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ ایک ترک کنسورشیم (TERG) نے 47.25 فیصد ریونیو شیئر کی پیشکش کی، لیکن حکومت کا مطالبہ 56 فیصد تھا۔ ناکامی کے بعد یہ ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا۔

اب حکومت براہ راست UAE کے ساتھ G2G معاہدے کی طرف جا رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کی موجودگی میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں، جو ایک اہم سیاسی اور معاشی سگنل ہے۔

کراچی اور لاہور ایئرپورٹس: اگلا مرحلہ؟

اسلام آباد کے بعد حکومت نے واضح کیا ہے کہ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس بھی آؤٹ سورسنگ کے عمل میں شامل ہوں گے۔

کراچی ایئرپورٹ، جو کارگو اور بزنس ٹریفک کے لیے سب سے اہم سمجھا جاتا ہے، کا سالانہ ریونیو 13 ارب روپے کے قریب ہے۔

لاہور ایئرپورٹ، جو سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی پروازوں کا بڑا مرکز ہے، اس کی آمدنی بھی اسلام آباد کے قریب قریب ہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک مشترکہ آپریشنل ماڈل بنایا جا رہا ہے، جس کے تحت تینوں بڑے ایئرپورٹس کو ایک ہی غیر ملکی ادارے کو 15 سالہ آؤٹ سورسنگ کنٹریکٹ پر دیا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے میں ریونیو شیئرنگ، کارگو آپریشنز، ڈیوٹی فری زونز، اور پارکنگ سروسز شامل ہوں گی، جبکہ ایئر ٹریفک کنٹرول اور رن وے آپریشنز CAA کے پاس رہیں گے۔

ممکنہ فوائد (Merits) 1. عالمی معیار کی سروسز

دبئی اور ابو ظہبی جیسے ایئرپورٹس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، UAE کا انتظام جدید سہولیات، جدید ٹیکنالوجی اور کسٹمر کیئر کے معیار کو بلند کرے گا۔

2. سرمایہ کاری میں اضافہ

آؤٹ سورسنگ معاہدوں سے حکومت کو فوری ایڈوانس فیس اور ریونیو شیئرنگ کی صورت میں سالانہ اربوں روپے کی آمدنی متوقع ہے۔

3. کمرشل ترقی

ریٹیل، ہوٹل، ڈیوٹی فری زونز اور پارکنگ سہولیات کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے، جس سے ایئرپورٹ کی مجموعی کمائی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔

4. بوجھ میں کمی

CAA کے لیے روزمرہ آپریشنز کی بجائے ریگولیٹری اور سیکیورٹی کردار پر توجہ دینا آسان ہو جائے گا۔

 ممکنہ نقصانات (Demerits) 1. قانونی شفافیت کے خدشات

اگر PPRA قوانین کو نظر انداز کیا گیا تو یہ اقدام متنازع ہو سکتا ہے اور شفافیت پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔

2. قومی خودمختاری پر اثر

ایئرپورٹس اہم اسٹریٹجک تنصیبات ہیں؛ ان کی مینجمنٹ کسی غیر ملکی حکومت کو دینا طویل مدتی خطرات رکھتا ہے۔یاد رھے کہ UAE کے تقریبا تمام ائر پورٹ برطانیہ امریکہ اور دوسرے ممالک کے لوگ چلا رھے ھین

3. ریونیو شیئرنگ کے مسائل

اگر معاہدے کی شرائط غیر واضح یا غیر متوازن ہوئیں تو طویل مدت میں قومی خزانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

4. ملازمین کا مستقبل

اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ کسی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا، لیکن نجی یا غیر ملکی انتظامات سخت پرفارمنس پالیسیز نافذ کرتے ہیں۔

5. سیکیورٹی خطرات

حساس اداروں کی نگرانی اور انفارمیشن سیکیورٹی پر غیر ملکی اثرات ایک نازک معاملہ ہیں۔

 بین الاقوامی مثالیں

قطر نے Hamad International Airport کو اپنی سرکاری کمپنی QACC کے ذریعے جدید بنایا، لیکن تمام فیصلے پارلیمانی منظوری کے بعد کیے۔

سعودی عرب نے ریاض اور جدہ کے ایئرپورٹس کے لیے بین الاقوامی کنسورشیمز کو شامل کیا، لیکن معاہدے شفاف ٹینڈرنگ کے ذریعے طے پائے۔

ترکی میں Istanbul Airport کی آؤٹ سورسنگ ایک بڑے عالمی آپریٹر کو دی گئی، لیکن مکمل مسابقتی بولی کے بعد۔

امریکہ میں DP World کا بندرگاہ معاہدہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا — یہ ایک سبق ہے کہ عوامی اعتماد کے بغیر G2G معاہدے کامیاب نہیں ہوتے۔

 کیا یہ قدم درست ہے؟

اسلام آباد، لاہور اور کراچی ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ بظاہر ایک اسٹریٹجک مالی اقدام ہے۔ دوست ملک UAE کے ساتھ شراکت عالمی معیار، سرمایہ کاری، اور بہتر مینجمنٹ کی جانب ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔

تاہم، حکومت کو چاہیے کہ:

معاہدے کی شفاف تفصیلات پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے رکھے۔

ریونیو شیئرنگ کے واضح اور متوازن اصول بنائے۔

ملازمین کے حقوق اور قومی سیکیورٹی کے تقاضے قانونی دستاویزات میں محفوظ کرے۔

کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ سے پہلے اسلام آباد کے ماڈل کے نتائج کا جائزہ لے۔

نتیجہ

یہ فیصلہ پاکستان کے ایوی ایشن سیکٹر کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس کی کامیابی مکمل طور پر شفافیت، قانونی فریم ورک، اور عوامی اعتماد پر منحصر ہے۔ اگر حکومت نے صحیح حکمت عملی اختیار کی تو یہ ماڈل نہ صرف اسلام آباد بلکہ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کو بھی عالمی معیار تک لے جا سکتا ہے۔ تاھم قومی ماہرین نے یہ  خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہم اپنے بندرگاہوں کے ہوائی اڈے اور دیگر ادارے نہیں چلا سکتے اور بیرونی دنیا سے ان قیمتی اشیاء منافع بخش تنظیموں کو چلانے کے لیے کہتے ہیں جو کہ ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔آنے والے وقتوں میں شاید  ارباب اختیار کو  جواب دینا پڑے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

آؤٹ سورسنگ ایئرپورٹس سول ایوی ایشن

متعلقہ مضامین

  • زمان پارک کے باہر اسلام آباد پولیس پر حملے کا کیس، عمران خان کو سمن جاری
  • ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ: دوستوں سے شراکت یا قانونی اصولوں کی خلاف ورزی؟
  • اسلام آباد میں ڈیجیٹل پارکنگ اور ایم ٹیگ سسٹم نافذ کرنے کا فیصلہ
  • اپوزیشن اتحاد کی اے پی سی 31 جولائی کو اسلام آباد میں ہوگی
  • سی ڈی اے کا اسلام آباد میں الیکٹرک ٹرام بسیں چلانے کا فیصلہ
  • اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی
  • اسلام آباد ایئرپورٹ پر لاوارث سامان 560 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے؟
  • اسلام آباد میں گاڑیوں کے لیے ایم ٹیگ لازمی قرار
  • ’اسلام کا دفاع‘
  • مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی