سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید شیخ انتقال کر گئے
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
لاہور: سپریم کورٹ کے سابق جج عظمت سعید شیخ انتقال کر گئے،اہل خانہ کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کچھ عرصے سے علیل تھے اور لاہور میں اسپتال میں زیر علاج تھے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق جسٹس عظمت سعید شیخ 2012 سے 2019 تک سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات رہے سپریم کورٹ میں تعیناتی سے قبل وہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے، جسٹس (ر) عظمت سعید پانامہ لیکس کیس سننے والے بینچ کا حصہ بھی تھے۔
عظمت سعید شیخ نے ایل ایل بی کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد 1978 میں راولپنڈی سے اپنے قانونی کیریئر کا آغاز کیا، 1980 میں لاہور میں پریکٹس شروع کرنے سے پہلے انھوں نے مختلف لا چیمبرز میں کام کر کے تجربہ حاصل کیا۔
اس کے بعد 1981 میں وہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈووکیٹ کے طور پر شامل ہوئے۔
جسٹس (ر) عظمت سعید نے یکم جون 2012 کو سپریم کورٹ کے مستقل جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا، اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تقریب حلف برداری کی صدارت کی تھی۔
جولائی 2019 میں جسٹس (ر) عظمت سعید نے قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ بھی سنبھالا تھا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کورٹ کے
پڑھیں:
امریکا؛ سابق نائب صدر ڈک چینی 84 سال کی عمر میں انتقال کرگئے
امریکی سیاست کے ایک اہم اور متنازع رہنما 84 سالہ ڈِک چینی نمونیا میں مبتلا ہونے کے باعث زیر علاج تھے۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈِک چینی کا ماہر ڈاکٹر کی ٹیم گھر پر ہی علاج کر رہے تھے لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔
ڈک چینی امراض قلب سمیت عمر رسیدگی سے جڑی دیگر بیماریوں کا شکار بھی تھے اور کافی کمزور ہوگئے تھے۔
وہ 2001 سے 2009 تک جارج ڈبلیو بش کے دونوں ادوارِ صدارت میں نائب صدر کی خدمات انجام دیں۔ علاوہ ازیں صدر جیرالڈ فورڈ کے وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف بھی رہے۔
نائب صدارت کے دوران انھوں نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد امریکی خارجہ پالیسی اور انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات میں نمایاں کردار ادا کیا۔
30 جنوری 1941 کو نیبراسکا میں پیدا ہونے والے ڈک چینی وائیومنگ سے امریکی کانگریس کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔
وہ 1989 سے 1993 تک وزیر دفاع بھی رہے اور اس دور میں خلیجی جنگ کے فیصلے شامل تھے۔
انھوں نے انتظامیہ کے اہم فیصلوں میں براہِ راست مداخلت کی اور روایتی نائب صدور سے آگے کا کردار ادا کیا۔
تاہم ان پر امریکا کے عراق پر حملے کی وکالت، جاسوسی اور غیر روایتی جنگی حکمتِ عملیوں کی حمایت کرنے پر شدید تنقید بھی ہوئی تھی۔