Express News:
2025-11-05@02:46:38 GMT

ملک کیخلاف آئی ایم ایف کو خط لکھنا شرمناک ،افنان اللہ خان

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

اسلام آباد:

رہنما مسلم لیگ (ن) افنان اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ افسوس ناک ہے کہ جب یہ حکومت میں تھے تو کہتے تھے کہ اتنا اچھا ملک کوئی نہیں ہے اس سے اچھی ہیومن رائٹس کوئی نہیں ہے اس سے اچھی جمہوریت کوئی نہیں ہے، اب جب حکومت سے گئے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس سے برا ملک کوئی نہیں ہے، نہ جمہوریت ہے اور نہ انسانی حقوق ہیں.

 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مجھے آپ بتائیں کہ یہ شرم ناک نہیں ہے کہ آپ آئی ایم ایف کو لیٹر لکھ رہے ہیں پاکستان کے خلاف، یہ شرمناک ہے، آپ کو اس بات کا لحاظ نہیں ہے کہ آپ اپنی سیاست کے اندر کن انتہاؤں پر پہنچ گئے ہیں. 

تحریک انصاف کے رہنم شوکت یوسفزئی نے کہا کہ چیف جسٹس سے ملنے پر اعتراض نہیں ہے ،یہ پہلی دفعہ ایسا ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے وفد کو ضرورت پڑ رہی ہے کہ وہ چیف جسٹس سے ملاقات کریں اور جو قانون انصاف ہے اس ملک کا اس پر بحث کرے، یہ آپ کے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی بڑے تعجب کی بات تو ہے.

کیونکہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے اس کا جو تعلق بن رہا ہے پہلی دفعہ ہم دیکھ رہے ہیں،جہاں تک آئی ایم ایف کے قرضوں کا سوال ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے عام آدمی متاثر ہو رہا ہے، پاکستان کی سب سے مقبول جماعت پی ٹی آئی ہے، اگر کسی کو شک ہے تو 8 فروری کا الیکشن دیکھ لے. 

پیپلزپارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ یہ کسی بھی ایشو پر ایک پالیسی اختیار نہیں کرتے، ان کا ہر ایشو پر کوئی ایک موقف نہیں ہوتا، انھوں نے بہت سارے محکوموں پر وزارتوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ وہاں کرپشن ہے، ہم نے ریکارڈ پیش کرنا شروع کیا جناب ایسا نہیں ہے، یہ اپنی طاقت اور فتح کے لیے غیر ملکی اداروں کو، غیرملکی طاقتوں کو پاکستانی معاملات میں ملوث کرتے ہیں یہ اچھی بات نہیں ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کوئی نہیں ہے ا ئی ایم ایف ہے کہ ا

پڑھیں:

اسد زبیر شہید کو سلام!

کے پی پولیس کے ایک اور بہادر افسر ایس پی اسد زبیر نے اپنے بہادر باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وطنِ عزیز پر اپنی جان نچھاور کردی۔ اسد زبیر کو پوری قوم کا سلام ہو، اُس سے یہی امید تھی، وہ ایک جرات مند باپ کا بہادر بیٹا تھا، جو شجاعت کی لوریاں اور شہادت کی کہانیاں سن کر جوان ہوا تھا، شہادت ہی اس کی آرزو تھی اور شہادت ہی منزل۔ اس کی آرزو قبول ہوئی اور خالقِ کائنات نے اسے اپنے پسندیدہ ترین (Most favourite) افراد یعنی قافلۂ شہداء میں شامل کرلیا۔

دہشت گردی کی آگ نے پھر خیبر پختونخواہ کے پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب ہماری سیکیوریٹی فورسز کے گبھرو جوان اور خوبرو افسران وطنِ عزیز پر قربان نہ ہوتے ہوں۔ کہنا اور لکھنا آسان ہے مگر جب جوان بیوہ چھوٹی سی بچی کو اٹھاتے ہوئے اپنے شہید شوہر کی وردی وصول کرتی ہے یا جب بوڑھی ماں اپنے قابلِ فخر بیٹے کی میّت دیکھتی ہے تو وہ کس قیامت سے گذرتی ہیں، ان کا دُکھ اور کرب کوئی نہیں جان سکتا۔ کوئی بھی نہیں۔

دہشت گردی کی موجودہ لہر دیکھ کر مجھے وہ دور یاد آتا ہے جب میں بھی خیبرپختونخواہ میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ سب سے پہلے ڈیرہ بازار میں پولیس کی پک اپ دہشت گردی کا نشانہ بنی جس سے پولیس کے تین جوان شہید ہوگئے، اس کے بعد ٹانک میں کئی پولیس افسران ملک پر قربان ہوئے۔

مجھے یاد ہے کہ جس روز میں کوہاٹ پہنچا، اسی رات کو کنٹونمنٹ کی مسجد میں خودکش دھماکا ہوگیا، جب ہم مسجد میں داخل ہوئے تو صحن میں انسانی اعضاء بکھرے پڑے تھے اور مسجد کی دیواروں پر نمازیوں کی چربی لتھڑی ہوئی تھی۔ ورثاء آہ وزاری کررہے تھے اور ہر باشعور شخص سوال کررہا تھا کہ کیا ایسی درندگی کا مظاہرہ اسلام سے معمولی سی بھی عقیدت رکھنے والے لوگ کرسکتے ہیں؟ سب کا جواب ناں میں تھا اور سب دہشت گرد قاتلوں پر لعنت بھیج رہے تھے۔ چند روز بعد ھنگو کے پولیس ٹریننگ کالج کے گیٹ پر دھماکا ہوگیا۔

یہ 2006-8کی بات ہے جب ہم ہر روز کسی نہ کسی ساتھی کا جنازہ اٹھاتے تھے، جنازہ گاہ سے نکلتے تو اسپتال پہنچ جاتے جہاں زخمیوں کی عیادت کی جاتی۔ مگر پورا ملک یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ خیبر پختونخواہ کی پولیس نے اس وقت بھی جس مردانگی، جرأت اور شجاعت سے دہشت گردی کا سامنا کیا تھا اور آج بھی جس بہادری سے اس درندگی کا مقابلہ کررہی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کے پی پولیس کا کوئی جوان اور کوئی افسر خطرناک ترین چوکی پر تعیناتی سے کبھی نہیں گبھرایا، نہ کبھی کسی نے ناں کی ہے اور نہ کبھی کسی نے کوئی عذر پیش کیا ہے۔ نیچے سے لے کر اوپر تک تمام افسروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر مادرِ وطن کا دفاع کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ اُس وقت کے کور کمانڈر پشاور جنرل مسعود اسلم (جو کیڈٹ کالج حسن ابدال میں ہمارے ساتھ لیاقت ونگ میں ہی ہوتے تھے) سے وہاں سیکیوریٹی امور کے سلسلے میں اکثر ملاقات رہتی تھی۔ 2009 میں پریڈ لین راولپنڈی میں جمعہ کی نماز پر مسجد میں دھماکا میں جب ان کا 26 سالہ اکلوتا بیٹا شہید ہوگیا تو میں ان کے ہاں تعزیّت کے لیے گیا۔ وہ اُس صدمے کی حالت میں بھی پوری طرح حوصلے میں تھے اور اُس حالت میں بھی مجھ سے ملتے وقت پشاور پولیس کی تعریف کرتے رہے۔ وہ بار بار کہتے رہے،

"I Salute Peshawar police" جب بھی کوئی خودکش سامنے آیا ہے تو پولیس کا جوان نہ کبھی بھاگا ہے نہ پیچھے ہٹا ہے۔ اُس نے خودکش کو جپھّا ضرور مارا ہے جس کا مطلب ہے وہ موت کو گلے لگانے سے بھی نہیں گبھراتے، I Salute KP Police"۔ بلاشبہ خیبرپختونخواہ پولیس کے جوانوں اور افسروں نے ایسی غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے جو صرف فلموں میں ہی نظر آتی ہے۔ بے شمار واقعات یاد آتے ہیں،

ایک بار ایک خود کش ضلع کچہری کے قریب پہنچ گیا، اس کا ٹارگٹ تھا کچہری کے اندر جاکر سیکڑوں لوگوں کے درمیان جاکر جیکٹ پھاڑے تاکہ بہت زیادہ جانی نقصان ہو مگر اسے مشکوک سمجھ کر سیکیوریٹی پر معمور حوالدار دلاور خان نے اسے للکارا۔ خودکش بمبار نے اسے بار بار وارننگ دی کہ ’’دیکھو میری تمھارے ساتھ کوئی دشمنی نہیں، میں تمہیں موقع دیتا ہوں کہ تم اپنی جان بچاؤ اور پیچھے ہٹ جاؤ میں موت ہوں میرے قریب مت آنا‘‘ یہ سن کر دلاور خان کہ آواز گونجی ’’پیچھے کیسے ہٹ جاؤں، میں ہی ان سیکڑوں لوگوں کا محافظ ہوں، میں تمہاری موت بن کر تمہیں جہنّم واصل کردوں گا‘‘ یہ کہہ کر دلاور خان نے خودکش بمبار کو جپھّا مارا، ساتھ ہی دھماکا ہوا، دلاور خان نے اپنی جان دے دی مگر سیکڑوں شہریوں کی جانیں بچالیں۔ بے شک فوج کے ساتھ کے پی پولیس کے افسروں اور جوانوں نے اپنے خون سے جرأت اور سرفروشی کی حیرت انگیز داستانیں رقم کی ہیں۔پورے خیبرپختونخواہ کی سرزمین شہیدوں کے خون سے لالہ رنگ ہے۔ انھوں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ بے شک پوری قوم ان کی مقروض ہے۔

شہید ایس پی اسد زبیر غیر معمولی جرات مند محافظوں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے دادا شہاب الدّین آفریدی بھی قیامِ پاکستان سے پہلے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس رہ چکے تھے اور اعلیٰ خدمات کے باعث کئی میڈل حاصل کرچکے تھے۔ اسد کے والد اورنگ زیب آفریدی 1962میں پولیس سروس میں شامل ہوئے۔ وہ ایک اسپورٹس مین تھے اور پاکستان کی فٹ بال ٹیم میں بھی کھیل چکے تھے۔ 22 مارچ 1978کو تجوڑی (ضلع بنوں) میں وہ بڑی جوانمردی کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے ہوگئے۔ شہید کے پوسٹ مارٹم کے مطابق انھیں سینے میں تین گولیاں لگی تھیں جو جان لیوا ثابت ہوئیں۔ اورنگ زیب آفریدی شہید کو ان کی شہادت کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرنے پر قائداعظم پولیس میڈل دیا گیا۔

اسد زبیر اپنے شہید والد کی شہادت کے چند ماہ بعد پیدا ہوا۔ وہ بیس سال کی عمر میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے طور پر پولیس سروس میں شامل ہوا۔ جرأت اور شجاعت اس کے خون میں تھی اور جذبۂ شہادت اس کے خاندان کا ورثہ تھا۔ اس لیے وہ ایک نڈر اور بے خوف افسر تھا۔ اس کے علاوہ انتہائی خوش اخلاق تھا اور اپنی فورس میں بے حد مقبول اور ہر دلعزیز بھی تھا۔ 24 اکتوبر 2025کو جب دہشت گردوں نے سیکیوریٹی چیک پوسٹ غلمینہ کو نشانہ بنایا تو اسد زبیر (جو ہنگو میں ایس پی آپریشنز تھے) فوری طور پر اپنے ساتھ دو گن مین لے کر موقع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوئے۔ دہشت گرد اسی تاک میں تھے جب وہ دربند پہنچے تو دہشت گردوں کی نصب کردہ (Improvised Explosive Device) IED پھٹ گئی جس سے ایس پی اسد زبیر اور ان کے گن مین شہید ہوگئے۔

ہنگو پولیس کا ہر جوان دکھی دل سے کہتا ہے کہ اگر ان کی گاڑی بلٹ پروف ہوتی تو ہم اتنے اعلیٰ کمانڈر سے محروم نہ ہوتے۔ ہمارے محافظوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں، ان کے خون کا ایک ایک قطرہ قیمتی اور مقدّس ہے، بڑی سے بڑی رقم اور بڑے سے بڑا میڈل ان کی قربانی کا کفارہ ادا نہیں کرسکتا۔ صوبائی حکومت کے علاوہ وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سیکیوریٹی فورسز کی اپنی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائے اور اس کے لیے جتنا بھی پیسہ خرچ کرنا پڑے خرچ کر ڈالے۔ فوری طور پر کے پی اور بلوچستان پولیس کو بلٹ پروف گاڑیاں مہیا کی جائیں تاکہ سینئر رینک کے افسر جب پٹرولنگ کے لیے نکلیں تو دہشت گردوں کی جانب سے نصب کردہ IED سے محفوظ رہ سکیں۔ بلٹ پروف گاڑیوں کے علاوہ انھیں ہیوی ویپن، ڈرون اور ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیے جائیں تاکہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ وفاق کے حکمران بھی صوبے کے شہداء کے گھروں پر تعزیّت اور یکجہتی کے اظہار کے لیے ضرور جایا کریں۔

یہ بات بہت خوش آیند ہے کہ خیبرپخونخواہ میں دہشت گردوں کے لیے عوامی سطح پر سپورٹ یا ہمدردی میں بہت کمی آئی ہے۔ عوام اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ دہشت گرد مذہبی لوگ نہیں بلکہ کرائے کے قاتل ہیں جو دشمن ملک سے پیسے لے کر وطنِ عزیز میں شیطانیت اور درندگی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں۔

فوج اور پولیس کے افسران اور جوان اپنے لہو سے امن اور سلامتی کے جو چراغ روشن کررہے ہیں، ان کی روشنی بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور جہالت اور درندگی کے اندھیرے کم ہورہے ہیں، انشاء اللہ بہت جلد سحر طلوع ہوگی، دیرپا امن، سکون اور خوشحالی کی سحر۔ خیبرپختونخواہ پولیس کے شہیدوں کو سلام۔ اور شہریوں کی حفاظت کرنے والے جری اور بہادر جوانوں اور افسروں کے لیے دعائیں۔ اللہ تعالیٰ عوام کے محافظوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھیں۔

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام، تحریک
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ
  • اسد زبیر شہید کو سلام!
  • 27 ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، اتفاق رائےکے بغیر کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوگی، رانا ثنا اللہ
  • بھارت ابھی تک پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے، عطا اللہ تارڑ
  • بھارت پاکستان سے ہونے والی شرمناک شکست کو آج تک ہضم نہیں کر پایا، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • بی سی سی آئی کا ورلڈ کپ فاتح ویمنز ٹیم سے شرمناک صنفی امتیاز سامنے آگیا
  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
  • تجدید وتجدّْ
  • جو کام حکومت نہ کر سکی