شیر افضل مروت: جے یو آئی سے پی ٹی آئی تک کا 8 سالہ سیاسی سفرمتنازع کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور رہنما شیر افضل مروت کو عمران خان کی ہدایت پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے، انہیں پی ٹی آئی کارکن اور رہنما مشکل وقت کا ساتھی قرار دیتے رہے ہیں، تاہم ان کی سابق حکمراں پارٹی سے وابستگی تضادات اور اندرونی اختلافات کا شکار رہی۔
شیر افضل مروت کون؟شیر افضل مروت خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں دور فتادہ اور پسماندہ علاقے بیگو خیل میں 4 اپریل 1971 کو ایک مذہبی رجحان رکھنے والی سیاسی خاندان میں پیدا ہوئے، قریبی ساتھیوں کے مطابق شیر افضل کا خاندان مذہبی رجحان رکھتے ہوئے جمعیت علما اسلام سے وابستی رہا ہے۔
ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی حاصل کرنے کے بعد شیر افضل مروت نے انٹر جماعت تک ڈی آئی خان سے حاصل کی، بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری اور اسی ضمن میں مزید پڑھائی کے لیے بیرون ملک بھی گئے۔
یہ بھی پڑھیں: پارٹی سے نکالے جانے کے بعد شیر افضل مروت نے ایکس پر پہلی پوسٹ کیا کی؟
قریبی دوستوں کے مطابق شیر افضل مروت بچپن سے ہی تقریر کرنے کے شوقین تھے اور ضلعی سطح پر تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے تھے جبکہ یونیورسٹی دور میں طلبا سیاست میں بھی سرگرم رہے، صحافت سے دلچسپی رکھتے ہوئے یونیورسٹی دور میں ایک انگریزی اخبار کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔
کا خیال ہے کہ انھوں نے مشکل میں کارکنان کا سرگرم کرنے اور سیاسی سرگرمیوں کو شروع کرنے میں ایک کردار ادا کیا تھا۔
مزید پڑھیں: تحریک انصاف سے برطرفی کا معاملہ، شیر افضل مروت کیا کہتے ہیں؟
تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیر فضل مروت عدالتی نظام کا حصہ بن گئے اور جوڈیشل آفیسر تعینات ہو گئے اور بعدازاں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں ڈیپوٹیشن پر وفاق میں ہاؤسنگ آفیسر بھی تعینات رہے ہیں۔
سیاسی سفر کا آغازشیر افضل مروت نے اپنے والد کے نقش قدم پر سیاسی سفر کا آغاز اپنے علاقے لکی مروت سے ہی کیا، ان کے والد مقامی سیاسی رہنما تھے اور مقامی انتخابات میں حصہ لے چکے تھے، شیر افضل مروت نے اپنی سیاسی سفر کا آغاز جمعیت علما اسلام ف سے 2008 میں کیا اور 2017 تک اسی جماعت سے وابستہ رہے، لیکن جے یو آئی ف سے 9 سالہ سیاسی وابستگی کے دوران لکی مروت کی سطح تک محدود رہے کسی خاص مقام تک نہیں پہنچ سکے۔
اس دوران انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا کبھی موقع نہیں ملا اور شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت سے ناراضی کا آغاز ہوا جو 2017 میں علیحدگی پر منتج ہوا، جب انہوں نے جماعت کی قیادت پر کڑی تنقید کے بعد جے یو آئی ف چھوڑنے کا اعلان کیا۔
پی ٹی آئی میں شمولیتشیر افضل مروت 2017 میں جے یو آئی سے راہیں جدا کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، اس وقت وہ کچھ خاص مقبول نہیں تھے، 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پہلی بار حصہ لیا مگر کامیابی مقدر نہیں بنی۔
شیر افضل مروت 2023 تک پی ٹی آئی میں فرنٹ لائن پر نہیں تھے، سال 2023 میں جب پارٹی مشکلات کا شکار ہوئی تو شیر افضل بھی نمایاں طور پر منظر عام پر نظر آنے لگے اور انہیں پہلی بار پارٹی کی مرکزی سطح پر عہدہ ملا جب بانی چیئرمین عمران خان نے انہیں سینیئر نائب صدر تعنیات کیا، جس کے بعد انہوں نے قومی سطح پر مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔
9 مئی کے واقعات کے بعد جب پی ٹی آئی زیر عتاب آئی اور مزکری رہنما یا تو گرفتار ہوئے یا گرفتاری کے ڈر سے روپوش ہوگئے تو شیر افضل مروت کو موقع ملا اور وہ کھل کر میدان میں آئے اور اپنے متنازع اور مزاحیہ بیانات کی وجہ سے نوجوانوں میں مشہور ہونے لگے اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔
مشکل وقت کے ساتھی9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کارکن جب گھروں تک محدود ہو گئے تھے اس وقت شیر افضل مروت نے کارکنوں کو سرگرم کرنے کا فیصلہ کیا اور کنونشن منعقد کرنا شروع کیے، شیر افضل مروت بڑے شہروں میں بھی گئے جہاں کارکنوں نے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا، انہیں ہجوم راغب کرنے میں کمال حاصل ہوتا گیا۔
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر جنید اکبر نے انہیں مشکل وقت کا ساتھی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی کوشش ہو گی کہ شیر افضل مروت پارٹی میں رہیں۔
تضادات اور اختلافاتشیر افضل مروت اپنے دوٹوک بیانات اور صاف گوئی کی وجہ سے اکثر تضادات کا شکار رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے پارٹی میں اندرونی اختلافات بھی بڑھتے چلے گئے، کچھ رہنماؤں اور کارکنوں کا ماننا ہے کہ پارٹی کے اندر شیر افضل مروت کے خلاف سازشیں ہوئی ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان تک درست معلومات نہیں دی گئیں اور انہیں بدنام کیا گیا، شیر افضل مروت کی جانب سے امریکا اور سعودی سے متعلق بیانات نے بھی انہیں مشکل سے دوچار کیا اور عمران خان نے بھی ان بیانات سے پارٹی کو لاتعلق کیا۔
مزید پڑھیں: عمران خان نے شیر افضل مروت کو تحریک انصاف سے نکال دیا، نوٹیفیکیشن جاری
شیر افصل مروت اس وقت سخت تنقید کی زد میں آئے جب ایک ٹی وی شو کے دوران ان کا لیگی رہنما کے رہنما کے ساتھ جھگڑا ہوگیا اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، جبکہ میڈیا سے گفتگو کے دوران کا ان کا جملہ ’پروگرام تو وڑ گیا‘ زبان زد عام ہوگیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پروگرام تو وڑ گیا جنید اکبر شیر افضل مروت عمران خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جنید اکبر شیر افضل مروت شیر افضل مروت نے شیر افضل مروت کو تحریک انصاف پی ٹی آئی جے یو آئی کرنے کے کے بعد کے دور اور ان
پڑھیں:
یہ بہیمیہ بہیمت اور یہ لجاجتت اور یہ لجاجت
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔
قطر پر سکون ہے۔ پھر ہنگامہ کیا ہے؟
دوحہ سربراہی کانفرنس ، مسلم دنیا کے’ ناجائز’ حکمرانوں کے لیے تصاویر کھنچوانے کا ایک منافقانہ اور عامیانہ موقع تھا۔ اگر یہ اسرائیل کے خلاف کسی منصوبے کے صلاح مشورے کا کوئی ”موقع” تھا تو پھر اس کے ”اعلامیے” سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔ اسرائیل کی روایتی مذمت زیادہ بہتر الفاظ میں کی گئی۔ نیتن یا ہو جس پر طنزیہ قہقہ اُچھالتا رہتا ہے۔ عالمی سیاست کے تھیٹر پر امریکا اور اسرائیل جتنے دھوکے تخلیق کر سکتے ہیںاور جتنے مغالطے پیدا کرسکتے ہیں، وہ سب یہاں ایک تماشے کے ساتھ موجود ہیں۔ دوسری طرف عالم اسلام کے’ ناجائز’ حکمران جتنی خباثت، رکاکت، رِذالت ،دِنایت اور منافقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، وہ دوحہ میں کردکھایا۔
دوحہ کانفرنس دراصل اپنا نوحہ آپ تھی۔ 57اسلامی ممالک کے علاوہ تین مبصر وفود کے ساتھ تقریباً 60ممالک کے قطر اجتماع کا کیا مطلب تھا؟ یہ دنیا کی کل آبادی کی تقریباً 25فیصد (2ارب) کی نمائندگی تھی۔ اگر وسائل کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ دنیا کے ثابت شدہ تیل کے ذخائر کا تقریباً 70فیصد اور گیس کے ذخائر کا 50فیصد رکھتے ہیں۔ان کے پاس دنیا کی بہترین زرعی زمینیں، یورینیئم ، سونا اور معدنی ذخائر ہیں۔ ان ممالک کے پاس مجموعی طور پر گیارہ ملین کی فعال فوج ہے۔ ایک ملک ایٹمی صلاحیت کا حامل ہے۔ او آئی سی کے تمام ممالک مشترکہ طور پردنیا کے دفاعی بجٹ کا تقریباً 18فیصد خرچ کرتے ہیں۔ او آئی سی ممالک کے پاس دنیا کی کل زمین کا تقریباً 22 فیصد یعنی (32ملین مربع کلومیٹر) رقبہ ہے۔ بے پناہ وسائل، انتہائی بڑی آبادی اور حد درجہ اہمیت کے حامل جغرافیے رکھنے والے عالم اسلام کے حکمران قطر کی سرزمین پر دوحہ کانفرنس میں ”رُدالی عورتوں” سے بدتر دکھائی دیے۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ کمزور اور لاچار حکمران اتنے کمزور اور لاچار بھی ہیں۔ اندرون ملک یہ حکمران اپنے شہریوں کے خلاف چنگیزی چہرہ لے کر سامنے آتے ہیں۔
سعودی عرب سے شروع کریں۔ امریکا کے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں خود کو اگلے پچاس برس کا حکمران قرار دینے والے محمد بن سلمان کے ملک میں2600سیاسی قیدیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔ مارچ 2023 میںایک ہی دن میں81افراد کو پھانسیاں دی گئیں۔ 2024ء میں 345لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ جو حالیہ برسوں میں ایک نمایاں اضافہ تھا۔ ولی عہد نے سیاسی اور اقتصادی طاقت کو اپنی ذات کے گرد مرتکز رکھنے کے لیے ‘شہزادوں’ کو گرفتارکیا۔ سوال اُٹھانے والے صحافیوں کو ڈرایا۔ جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے لیے دوسرے اسلامی ملک کی سرزمین کا بھی احترام نہیں کیا۔ خواتین سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کو بے رحمانہ رکھا۔ یہ سب کچھ قومی سلامتی اور سیاست میں بُرا بھلاکہنے کے مبہم قوانین کی آڑ میں ہوا۔ غیر نمائندہ قوتوں کے ناجائز ریاستی قبضوں کے تحفظ کے لیے’ قومی سلامتی’ کی آڑ، ڈھال اور چال ایک سفاکانہ تاریخ بنا چکی ہے۔ سعودی عرب اس کی ایک مثال ہے۔
عالم اسلام کی واحد ایٹمی ریاست پاکستان میں یہ روش دہائیوں پُرانی ہے۔یہاں آزادیٔ صحافت کا خطرہ چھوٹا ہو گیا ہے ، بنیادی طور پر تصورِ آزادی کو ہی یہاں یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے جیسی مثالیں حالیہ تاریخ میں سامنے آئی ہیں ، یہ استعماری عہد کے قابض حکمرانوں کی تاریخ سے ملتی جلتی اور بعض واقعات میں اس سے بھی بدتر ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیاں شاہراؤں کے عمومی نظارے بن گئے ہیں۔ جبری گمشدگیوں کو حب الوطنی اور سالمیت وطن کے ناقابل چیلنج بیانئے میں ملفوف کر دیا گیا ہے۔” کمیشن آف انکوائری آن اینفورسڈ ڈس اپیئرنس ”کے مطابق 9,000سے زائد کیسز درج ہوئے ہیں، شہباز سرکار میں تقریباً 2,600 معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ سخت ترین پہرے موبائل فون پر بٹھا دیے گئے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں عام شہریوں کی نگرانی کا ایک بھیانک نظام رائج ہے جس کے تحت 40لاکھ موبائل فونز کی نگرانی ایک ساتھ کی جا رہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی کے مطابق 2023میں 10,000سے زائد پی ٹی آئی کارکنان کو حراست میں لیا گیا۔یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک جماعت پر کریک ڈاؤن کی واحد مثال ہے۔
ترکیہ کی مثالیں بھی ایک بدترین منظرنامہ رکھتی ہے۔ جہاں اظہارِ رائے کی آزادی اور سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی دباؤمیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکیہ کودنیا کے ان چند ممالک میں شامل سمجھا جاتا ہے جہاں سب سے زیادہ صحافی قیدبھگتتے ہیں۔ یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس نے ترکیہ کو 164 مقدمات میں سے 154میں اظہارِ رائے کی خلاف ورزی پر سزا ئیںدی ہے، یہ شرح ناقابل یقین حد تک 93.9 فیصد ہے۔ رجب طیب اردوگان کا ترکیہ، یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس سے 2024میں ایک جج کو غیر قانونی قید کرنے پر 28,100 یورو ہرجانے کی سزا بھی پاچکا ہے۔ ترکیہ بھی پاکستان کی طرح انٹرنیٹ آزادی کو محدود کرنے کی منظم ریاستی کوششوں میں بدتر ممالک میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ ترکیہ نے مارچ 2025میں گوگل کی الگورڈم تبدیلیوں سے مخصوص ویب سائٹس کے ٹریفک کو بھی متاثر کیا۔مخالف سیاسی کارکنوں کو دبانے اور ابھرتے سیاست دانوں کو حوالہ زنداں کرنے میں طیب اردوگان پاکستانی حکمرانوں کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔
ایک مثال مصر کی بھی لے لیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی ماضی کے فرعونوں کی بے رحمی کی ایک مثال بن چکے ہیں۔ وہ ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے۔ سزائیں ، گرفتاریاں اور بدترین تشدد کا سہارا لے کر الاخوان المسلمین کا قلع قمع کرنے میں مسلسل سفاکی دکھا رہے ہیں۔ مصر کے بے رحم قابض حکمرانوں نے2013کے بعد سے ، اخوان المسلمین کے تقریباً 40,000ارکان اور حامیوں کو گرفتار کیا ، جن میں سے متعدد کو موت کی سزا یا عمر قید سنائی گئی۔ اسی طرح جابر حکومت نے اخوان المسلمین کی 1,225فلاحی تنظیموں، 105 اسکولوں، 83کمپنیوں، 43اسپتالوں اور 2میڈیکل سینٹرز کو بھی ضبط کیا۔مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق مصر میں اس وقت بھی تقریباً60,000 سیاسی قیدی ہیں، جن میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور حکومت مخالفین شامل ہیں۔ سیاسی قیدیوں کی بڑی تعداد مقدمے یا ٹرائل کے بغیر زیرِ حراست ہے ۔
عالم اسلام کے تمام ممالک کے شہری اندرون ملک اپنے حکمرانوں سے اسی نوع کی بے رحمی کے شکار ہیں۔ یہاںمحض بطور مثال چار ممالک سعودی عرب، پاکستان ،ترکیہ اور مصر کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو ظلم کی ایک منظم چکی میں اپنے عوام کو نظریاتی، سیاسی، علمی اور اخلاقی سطح پر پیس رہے ہیں۔اور فطری آزادیوں سے فروغ پزیر انسانی صلاحیتوں کی راہ میں قومی سلامتی کے نام پر رکاؤٹیں پیدا کرنے پر تُلے ہیں۔ یہ ممالک دفاعی صلاحیتوں میں بھی ایسے امتیازات رکھتے ہیں جو ایک دوسرے مسلم ملک ایران سے کہیں بہتر بھی ہیں۔ ایران کا ذکر یہاں اس لیے کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ ہفتوں میں ایران نے اسرائیل کا مقابلہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وسائل، عزم کی راہ میں رکاؤٹ نہیں بنتے اور اسرائیل ناقابل شکست نہیں۔ذرا چار ممالک کی دفاعی صلاحیتوں کو چند جملوں میں دیکھ لیں!سعودی عرب 80 سے 90 ارب ڈالر ، ترکیہ20 سے 25ارب ڈالر، پاکستان11 سے 12 ارب ڈالر اور مصر 5 سے 6ارب ڈالر سالانہ دفاعی اخراجات کرتا ہے۔ ان ممالک کے پاس بالترتیب دولاکھ پچاس ہزار،تین لاکھ پچپن ہزار، چھ لاکھ پچاس ہزار اورچار لاکھ پچاس ہزار فعال فوجی ہیں جبکہ ریزرو افواج کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ سعودی عرب کے پاس جدید ٹینک (Abrams)، جنگی طیارے اور ایڈوانسڈ دفاعی نظام ہے۔ ترکیہ ڈرون (Bayraktar TB2)، ٹینک (Altay)، کمرشل اور فوجی UAVمیں مضبوط ہے۔ پاکستان جے ایف ۔ 17 طیارے ، میزائل نظام اور سب میرینز میں مضبوط سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایٹمی ہتھیار کے طور پر عالم اسلام کی واحد قوت سمجھا جاتا ہے۔ مصر کے پاس ٹی ۔90 ٹینک، ایف سولہ اور مضبوط بحری طاقت ہے۔
دوحہ کانفرنس اس حجم ، طاقت اور صلاحیت کے ساتھ اسرائیلی حملے کے خلاف ہوئی تھی۔ مگر اس کانفرنس سے ایک بھی اسرائیل کے خلاف اقدام طے نہ ہو سکا۔ بس ایک چھٹانک سے بھی کم وزن کے الفاظ کی مذمت ہو سکی۔ جو دنیا کے نزدیک لکھے ہوئے مذمتی کاغذ کے وزن سے بھی کم قدر وقیمت رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عالم اسلام کے حکمران جو اپنے اپنے ممالک میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف کسی بھی درندگی کے مظاہرے سے نہیں ہچکچاتے، وہ اسرائیل کے آگے اتنے بے بس کیوں ہیں؟ سوال موجود ہے، مگر کالم کا ورق نبڑ چکا۔جواب باقی!
٭٭٭