پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور رہنما شیر افضل مروت کو عمران خان کی ہدایت پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے، انہیں پی ٹی آئی کارکن اور رہنما مشکل وقت کا ساتھی قرار دیتے رہے ہیں، تاہم ان کی سابق حکمراں پارٹی سے وابستگی تضادات اور اندرونی اختلافات کا شکار رہی۔

شیر افضل مروت کون؟

شیر افضل مروت خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں دور فتادہ اور پسماندہ علاقے بیگو خیل میں 4 اپریل 1971 کو ایک مذہبی رجحان رکھنے والی سیاسی خاندان میں پیدا ہوئے، قریبی ساتھیوں کے مطابق شیر افضل کا خاندان مذہبی رجحان رکھتے ہوئے جمعیت علما اسلام سے وابستی رہا ہے۔

ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی حاصل کرنے کے بعد شیر افضل مروت نے انٹر جماعت تک ڈی آئی خان سے حاصل کی، بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری اور اسی ضمن میں مزید پڑھائی کے لیے بیرون ملک بھی گئے۔

یہ بھی پڑھیں: پارٹی سے نکالے جانے کے بعد شیر افضل مروت نے ایکس پر پہلی پوسٹ کیا کی؟

قریبی دوستوں کے مطابق شیر افضل مروت بچپن  سے ہی تقریر کرنے کے شوقین تھے اور ضلعی سطح پر تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے تھے جبکہ یونیورسٹی دور میں طلبا سیاست میں بھی سرگرم رہے، صحافت سے دلچسپی رکھتے ہوئے یونیورسٹی دور میں ایک انگریزی اخبار کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔

کا خیال ہے کہ انھوں نے مشکل میں کارکنان کا سرگرم کرنے اور سیاسی سرگرمیوں کو شروع کرنے میں ایک کردار ادا کیا تھا۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف سے برطرفی کا معاملہ، شیر افضل مروت کیا کہتے ہیں؟

تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیر فضل مروت عدالتی نظام کا حصہ بن گئے اور جوڈیشل آفیسر تعینات ہو گئے اور بعدازاں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں ڈیپوٹیشن پر وفاق میں ہاؤسنگ آفیسر بھی تعینات رہے ہیں۔

سیاسی سفر کا آغاز

شیر افضل مروت نے اپنے والد کے نقش قدم پر سیاسی سفر کا آغاز اپنے علاقے لکی مروت سے ہی کیا، ان کے والد مقامی سیاسی رہنما تھے اور مقامی انتخابات میں حصہ لے چکے تھے، شیر افضل مروت نے اپنی سیاسی سفر کا آغاز جمعیت علما اسلام ف سے 2008 میں کیا اور 2017 تک اسی جماعت سے وابستہ رہے، لیکن جے یو آئی ف سے 9 سالہ سیاسی وابستگی کے دوران لکی مروت کی سطح تک محدود رہے کسی خاص مقام تک نہیں پہنچ سکے۔

اس دوران انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا کبھی موقع نہیں ملا اور شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت سے ناراضی کا آغاز ہوا جو 2017 میں علیحدگی پر منتج ہوا، جب انہوں نے جماعت کی قیادت پر کڑی تنقید کے بعد جے یو آئی ف چھوڑنے کا اعلان کیا۔

پی ٹی آئی میں شمولیت

شیر افضل مروت 2017 میں جے یو آئی سے راہیں جدا کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، اس وقت وہ کچھ خاص مقبول نہیں تھے، 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پہلی بار حصہ لیا مگر کامیابی مقدر نہیں بنی۔

شیر افضل مروت 2023 تک پی ٹی آئی میں فرنٹ لائن پر نہیں تھے، سال 2023 میں جب پارٹی مشکلات کا شکار ہوئی تو شیر افضل بھی نمایاں طور پر منظر عام پر نظر آنے لگے اور انہیں پہلی بار پارٹی کی مرکزی سطح پر عہدہ ملا جب بانی چیئرمین عمران خان نے انہیں سینیئر نائب صدر تعنیات کیا، جس کے بعد انہوں نے قومی سطح پر مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔

9 مئی کے واقعات کے بعد جب پی ٹی آئی زیر عتاب آئی اور مزکری رہنما یا تو گرفتار ہوئے یا گرفتاری کے ڈر سے روپوش ہوگئے تو شیر افضل مروت کو موقع ملا اور وہ کھل کر میدان میں آئے اور اپنے متنازع اور مزاحیہ بیانات کی وجہ سے نوجوانوں میں مشہور ہونے لگے اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

مشکل وقت کے ساتھی

9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کارکن جب گھروں تک محدود ہو گئے تھے اس وقت شیر افضل مروت نے کارکنوں کو سرگرم کرنے کا فیصلہ کیا اور کنونشن منعقد کرنا شروع کیے، شیر افضل مروت بڑے شہروں میں بھی گئے جہاں کارکنوں نے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا، انہیں ہجوم راغب کرنے میں کمال حاصل ہوتا گیا۔

پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر جنید اکبر نے انہیں مشکل وقت کا ساتھی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی کوشش ہو گی کہ شیر افضل مروت پارٹی میں رہیں۔

تضادات اور اختلافات

شیر افضل مروت اپنے دوٹوک بیانات اور صاف گوئی کی وجہ سے اکثر تضادات کا شکار رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے پارٹی میں اندرونی اختلافات بھی بڑھتے چلے گئے، کچھ رہنماؤں اور کارکنوں کا ماننا ہے کہ پارٹی کے اندر شیر افضل مروت کے خلاف سازشیں ہوئی ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان تک درست معلومات نہیں دی گئیں اور انہیں بدنام کیا گیا، شیر افضل مروت کی جانب سے امریکا اور سعودی سے متعلق بیانات نے بھی انہیں مشکل سے دوچار کیا اور عمران خان نے بھی ان بیانات سے پارٹی کو لاتعلق کیا۔

مزید پڑھیں: عمران خان نے شیر افضل مروت کو تحریک انصاف سے نکال دیا، نوٹیفیکیشن جاری

شیر افصل مروت اس وقت سخت تنقید کی زد میں آئے جب ایک ٹی وی شو کے دوران ان کا لیگی رہنما کے رہنما کے ساتھ جھگڑا ہوگیا اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، جبکہ میڈیا سے گفتگو کے دوران کا ان کا جملہ ’پروگرام تو وڑ گیا‘ زبان زد عام ہوگیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پروگرام تو وڑ گیا جنید اکبر شیر افضل مروت عمران خان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جنید اکبر شیر افضل مروت شیر افضل مروت نے شیر افضل مروت کو تحریک انصاف پی ٹی آئی جے یو آئی کرنے کے کے بعد کے دور اور ان

پڑھیں:

ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟

اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
 
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
 
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
 
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
 
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
 
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
 
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔

متعلقہ مضامین

  • زحل کے چاند ٹائیٹن کی فضا کیوں جھولتی ہے؟ نیا سائنسی انکشاف
  • لکی مروت: پولیس مقابلے میں فتنہ الخوارج کے 3 دہشتگرد ہلاک، پولیس اہلکار شہید
  • لکی مروت: اہم مقامی دہشت گرد کمانڈر چھوٹا وسیم گنڈی خانخیل سمیت 3 خوارج ہلاک
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لامے کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لیم کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
  • ہمایوں سعید اپنی بیوی کے پاؤں کیوں دباتے ہیں؟ اداکار نے خود انکشاف کردیا
  • کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • بیروزگار نوجوان جعلی نوکری کے لیے کمپنیوں کو یومیہ فیس کیوں دیتے ہیں؟
  • انکار کیوں کیا؟