یوکرین چرنوبل نیوکلیئر پاورپلانٹ پر روسی ڈرون حملہ، پلانٹ کو جزوی نقصان
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
یوکرینی صدر کا دعویٰ ہے کہ روس نے چرنوبل نیوکلیئرپاورپلانٹ پر ڈرون حملہ کیا ہے اور حفاظتی خول سے ٹکرانے پر پلانٹ کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی نے مطابق یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ شب ایک روسی ڈرون چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ کے حفاظتی خول سے ٹکرایا۔
یہ حفاظتی خول چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ سے نکلنے والی تابکاری کو روکنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
یوکرینی صدر نے کہا کہ حملے کے بعد پلانٹ کے اطراف تابکاری کی سطح معمول پر ہی ہے۔
یوکرینی فضائیہ کے مطابق گزشتہ شب روس نے 133 ڈرونز سے یوکرین کے شمالی علاقوں پر حملہ کیا جہاں چرنوبل نیوکلیئر پلانٹ واقع ہے۔
یوکرینی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ ایک روسی ڈرون نے چرنوبل نیوکلیئر پلانٹ پر قائم اس حفاظتی خول کو نشانہ بنایا جو دنیا کو تباہ شدہ پاور یونٹ سے نکلنے والی تابکاری سے محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
یوکرینی صدر نے حملے کی ویڈیو بھی شیئر کی جس میں حفاظتی خول سے ڈرون ٹکراتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
یوکرینی صدر نے مزید کہا کہ ڈرون صرف 85 میٹر کی بلندی پر اڑ رہا تھا، اس بلندی پر ریڈار سے ڈرون کا پتا لگانا مشکل ہوتا ہے۔
دوسری جانب روس نے چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ پر روسی حملے کا یوکرینی صدر کا الزام مسترد کردیا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ کسی ایٹمی تنصیب پر حملے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خیال رہے کہ 1986 میں چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ کے ری ایکٹر میں ہونے والے دھماکے کو تاریخ کے بدترین ایٹمی حادثے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: یوکرینی صدر نے حفاظتی خول
پڑھیں:
غزہ سے یوکرین تک تنازعات کے پرامن حل میں سفارتکاری کو موقع دیں، گوتیرش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کو قائم رکھیں، تقسیم کے بجائے سفارت کاری کی راہ پر چلیں اور تنازعات کا پرامن حل نکالنے کے عزم کی تجدید کریں۔
پاکستان کی صدارت میں سلامتی کونسل کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سفیروں سے کہا کہ جب کشیدگی بڑھتی ہے اور ممالک کے باہمی اعتماد کو گزند پہنچتی ہے تو بات چیت، ثالثی اور مفاہمت ہی مسائل کے حل کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
آج ان ذرائع کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جب غزہ سے یوکرین تک دنیا میں بہت سی جگہوں پر مسلح تنازعات جاری ہیں اور بین الاقوامی قانون کو بلاخوف و خطر پامال کیا جا رہا ہے۔سلامتی کونسل کے اس اہم اجلاس کی صدارت پاکستان کے وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے کی۔
(جاری ہے)
اس کا مقصد تنازعات کے تصفیے کے لیے موجودہ طریقہ ہائے کار کی افادیت کا اندازہ لگانا، اس حوالے سے بہترین اقدامات کا جائزہ لینا اور طویل جنگوں کو روکنے کے لیے نئی حکمت عملی کو کھوجنا تھا۔
اجلاس میں علاقائی تنظیموں کے ساتھ تعاون کو بڑھانے، قیام امن کے لیے رکن ممالک کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے، وسائل جمع کرنے اور مستقبل میں تنازعات کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو میثاقِ مستقبل میں بیان کردہ حکمت عملی سے ہم آہنگ کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔
عالمی قانون کے احترام کا مطالبہسیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں مسلح تنازعات جاری ہیں جن میں بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا جا رہا ہے جبکہ بھوک اور نقل مکانی ریکارڈ سطح کو چھو رہی ہے۔
دہشت گردی، متشدد انتہاپسندی اور بین الاقوامی جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث سلامتی ناقابل رسائی ہوتی جا رہی ہے۔اس صورتحال کی قیمت انسانی زندگیوں، تباہ حال معاشروں اور گمشدہ مستقبل کی صورت میں چکانا پڑتی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے غزہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جتنی موت اور تباہی دیکھنے کو ملی ہے اس کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نظر نہیں آتی۔
غزہ میں قحط پھیلنے کا خطرہ ہے جہاں محفوظ طور سے امدادی کارروائیوں کی گنجائش نہیں رہی۔ اقوام متحدہ کے مراکز پر حملے ہو رہے ہیں اور متحارب فریقین کو ان جگہوں کے بارے میں پیشگی مطلع کرنے کے باوجود انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔یہ جگہیں قابل احترام ہیں اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت انہیں تحفظ دینا ضروری ہے۔
انتونیو گوتیرش نے کہا کہ امن کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اور دنیا سلامتی کونسل سے توقع رکھتی ہے کہ وہ رکن ممالک کو اس انتخاب میں مدد فراہم کرے گی۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 2.3 کے مطابق تمام ممالک اپنے بین الاقوامی تنازعات پرامن طریقوں سے حل کریں گے۔ علاوہ ازیں، چارٹر کے چھٹے باب میں سلامتی کونسل کو رکن ممالک کے مابین بات چیت، تحقیقات، ثالثی، مفاہمتی اور عدالتی تصفیے کا اختیار دیا گیا ہے۔
گزشتہ سال منظور کیے جانے والے میثاقِ مستقبل کے 16ویں نکتے میں رکن ممالک سے تنازعات کو شروع ہونے سے پہلے ہی سلجھانے کے لیے سفارت کاری کے عزم کی تجدید کے لیے کہا گیا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے رواں ماہ سلامتی کونسل کے صدر پاکستان کو سراہا جس نے ان ذرائع سے بھرپور کام لینے کی قرارداد پیش کی جسے اس اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
ثالثی کی دائمی افادیتانتونیو گوتیرش نے کہا کہ سلامتی کونسل کے ارکان، بالخصوص مستقل ارکان کو اپنے اختلافات دور کرنا ہوں گے۔ سرد جنگ کے دوران بھی کونسل نے امن کاری اور انسانی امداد کی رسائی کے حوالے سے غیرمعمولی فیصلے کیے اور تیسری عالمی جنگ کو روکنے میں مدد دی۔
انہوں نے رکن ممالک سے کہا کہ وہ بات چیت کے ذرائع کھلے رکھیں، اتفاق رائے پیدا کریں اور کونسل کو ایسا ادارہ بنائیں جو دور حاضر کے جغرافیائی سیاسی حقائق سے مطابقت رکھتا ہو۔ علاقائی اور ذیلی علاقائی تنظیموں کے مابین مضبوط تعاون بھی وقت کا تقاضا ہے۔ ثالثی دوران جنگ بھی کارآمد ہوتی ہے اور دو سال قبل روس، یوکرین اور ترکیہ کے مابین بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کا معاہدہ اس کی نمایاں مثال ہے جس میں اقوام متحدہ بھی ثالث تھا۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ رکن ممالک کو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی انسانی حقوق، پناہ گزینوں کے قانون اور خودمختاری، علاقائی سالمیت اور سیاسی آزادی کے اصولوں کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہو گا۔