11فروری کو آئی ایم ایف کے وفد نے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی جس کی کچھ تفصیلات چیف جسٹس نے صحافیوں کے ساتھ شیئر بھی کیں اور آج آئی ایم ایف کا وفد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے ایک نجی ہوٹل میں مِلا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف وفد سے کیا گفتگو ہوئی، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بتادیا

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اِس طرح کا وفد اِس طرح سے پاکستان کے ہر طرح کے عہدیداران سے مُلاقات کر سکتا ہے? یہ سوال جب ہم نے دفتر خارجہ ذرائع کے سامنے رکھا تو اُن کا کہنا تھا ’اِس بارے میں قوانین موجود ہیں تاہم وزارتِ خزانہ نے جب چیف جسٹس سے درخواست کی کہ اِس وفد کو مِل لیں تو اِس بارے میں بہتر جواب وہی دے سکتے ہیں اور وہی وجوہات بتا سکتے ہیں۔ حکومت نے اِس وفد کو مختلف اداروں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کرنے کی اجازت دی ہے‘۔

بظاہر یہ مُلاقاتیں بے ضرر سے دکھائی دیتی ہیں پر بطور ایک شہری کہیں نہ کہیں ایسا تاثر ضرور ملتا ہے کہ شاید پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر حرف آ رہا ہو، اِس سوال کے جواب کے لیے ہم نے کچھ قانونی ماہرین سے اُن کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

روایت یہ ہے کہ ججز تو اپنے مُلک کے انتظامی افسران سے بھی نہیں ملتے؛ کامران مُرتضٰی

جمیعت علمائے اِسلام کے سینیٹر اور معروف قانون دان کامران مُرتضیٰ نے وی نیوز سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ قانون تو ایسا کوئی نہیں پر روایت یہ ہے کہ جج صاحبان اپنے مُلک کے انتظامی عہدیداران وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ سے ملاقات نہیں کرتے۔ اِس طرح سے آئی ایم وفد کا چیف جسٹس سے مِلنا انتہائی حیرت انگیز ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف کے وفد نے ججز سے نہیں، چیف جسٹس سے ملاقات کی، اعظم نذیر تارڑ

اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ قرضہ مِلنا ہے تو انتظامی سربراہان اُس کو صرف کریں گے، اُس کا عدالتی نظام سے کیا تعلق۔

فائل فوٹو: سینیٹر کامران مرتضیٰ

کامران مُرتضیٰ کے مطابق آئی ایم ایف وفد کو تو اراکینِ پارلیمان سے بھی ملنے کی ضرورت نہیں تھی، اُن کا تعلق تو صرف انتظامی عہدیداران کے ساتھ ہونا چاہیے۔ لیکن پھر بھی اگر سیاسی حالات کے بارے میں کوئی یقین دہانی چاہیے تو وہ ن لیگ سے مِل سکتے تھے، پی ٹی آئی سے ملنا سمجھ میں آتا ہے، پیپلز پارٹی سے مِل سکتے تھے لیکن چیف جسٹس کے ساتھ مُلاقات کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

آئی ایم ایف وفد کا چیف جسٹس سے مِلنا ایک غیر معمولی بات ہے:اکرام چوہدری ایڈووکیٹ

سپریم کورٹ کے سینیئر ایڈووکیٹ اکرام چوہدری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اِس حوالے سے قانونی طور پر کوئی قدغن نہیں اور نہ ہی آئی ایم وفد کا چیف جسٹس سے ملنا غیر قانونی یا غیر آئینی ہے، پر یہ غیر معمولی ضرور ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ بار سے آئی ایم ایف مشن کی ملاقات، اعلامیہ جاری

 انہوں نے کہا کہ حکومت کی مجبوری تھی اُنہیں قرض کی قسط چاہیے، اِس لیے اُنہوں نے چیف جسٹس سے درخوست کی، یہ ملاقات بہرحال چیف جسٹس کے لیے باعثِ شرمندگی ضرور تھی۔

ایڈووکیٹ اکرم چوہدری

اکرام چوہدری کے مطابق وزارتِ خزانہ کی درخواست پر چیف جسٹس آئی ایم ایف وفد سے ملے۔ بنیادی طور پر اِس طرح کے ادارے مُلک کے سیاسی حالات، مُلک میں انسانی حقوق کی صورتحال سمیت دیگر کئی چیزوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اُنہوں نے نجی طور پر ایسے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہوتی ہیں جو اُن کو اِن چیزوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔

آئی ایم وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات غیر معمولی ہے، بیرسٹر جہانگیر جدون بیرسٹر جہانگیر جدون

سابق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات غیر معمولی ہے۔ اس طرح کے وفود کے ملنے کے بارے میں کوئی سرکاری ایس او پی تو نہیں ہے اور پھر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کا کام تو جوڈیشل سائیڈ پر ہے اُن کا انتظامیہ سے تو کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پھر ایسا کوئی پبلک انٹرسٹ بھی نہیں تھا اِس ملاقات میں۔ قانونی طور پر کوئی قدغن تو نہیں پر غیر معمولی ضرور ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی ایم ایف اکرام چوہدری ایڈووکیٹ بیرسٹر جہانگیر جدون جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس کامران مرتضیٰ یحییٰ آفریدی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف بیرسٹر جہانگیر جدون جسٹس یحیی ا فریدی چیف جسٹس کامران مرتضی یحیی ا فریدی

پڑھیں:

نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہر سال مختلف کمپنیوں کی جانب سے درجنوں نئے اینڈرائیڈ فونز متعارف کرائے جاتے ہیں جن میں قیمت اور خصوصیات کی بنیاد پر نمایاں فرق موجود ہوتا ہے، تاہم ایک عام صارف جب نیا فون خریدنے جاتا ہے تو اکثر چند بنیادی غلطیاں کر بیٹھتا ہے جو آگے چل کر پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق صارفین کی بڑی تعداد اپنے فون کی اسٹوریج کی ضرورت کا درست اندازہ نہیں لگاتی۔ آج کل ایپس، تصاویر اور ویڈیوز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث زیادہ اسٹوریج کی اہمیت واضح ہے۔ بہت سے افراد کم اسٹوریج والے فون خرید لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد بار بار ڈیٹا اور ایپس کو ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح صارفین سافٹ ویئر سپورٹ کے معاملے کو بھی عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں۔ متعدد اینڈرائیڈ فونز ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپریٹنگ سسٹم کے نئے ورژنز بہت محدود عرصے تک یا پھر بالکل نہیں ملتے۔ اس وجہ سے نہ صرف سیکیورٹی خدشات بڑھ جاتے ہیں بلکہ جدید ایپس کے اہم فیچرز بھی استعمال کرنے میں رکاوٹ آتی ہے۔ مارکیٹ میں موجود چند معروف برانڈز 4 سے 7 سال تک اپ ڈیٹس فراہم کرتی ہیں، جبکہ بعض کمپنیاں صرف ایک سے دو سال تک اپ ڈیٹ دیتی ہیں، اس لیے ماہرین کے مطابق نئے فون کا انتخاب کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کمپنی کی اپ ڈیٹ پالیسی کتنی مضبوط ہے۔

دوسری جانب بہت سے صارفین فون کی خصوصیات کے نمبرز کو دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں اور کمپنی کے بتائے گئے اعداد و شمار پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کر بیٹھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 108 میگا پکسل کیمرا ضروری نہیں کہ 48 میگا پکسل یا 12 میگا پکسل سے بہتر ہو، اسی طرح زیادہ mAh والی بیٹری لازمی نہیں کہ زیادہ دیر تک ہی چلے۔ اصل فرق سافٹ ویئر آپٹمائزیشن اور برانڈ کی انجینئرنگ میں ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ فون خریدنے سے پہلے ریویوز کو دیکھا جائے اور ممکن ہو تو کسی ایسے شخص کی رائے ضرور لی جائے جو وہ فون پہلے سے استعمال کر رہا ہو۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ صارفین اکثر اپنی حقیقی ضرورت اور بجٹ کے بجائے مارکیٹ میں مقبولیت کی بنیاد پر فون منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے کام درمیانی قیمت والے فون بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں، اس لیے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ فون کا بنیادی استعمال کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بہت سے افراد جلد بازی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور فون کے لانچ ہوتے ہی فوراً خریداری کر لیتے ہیں، حالانکہ زیادہ تر اینڈرائیڈ فونز چند ہفتوں بعد ہی رعایتی قیمت پر دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ خریدار کچھ وقت انتظار کرے تاکہ بہتر قیمت میں بہتر فون حاصل کر سکے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دینگے، بیرسٹر گوہر
  • پیپلز پارٹی کے بغیر کوئی بھی آئینی ترمیم نہیں ہوسکتی، طلال چوہدری
  • عمران خان سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، بیرسٹر گوہر
  • سپریم کورٹ بار: نو منتخب اور رخصت ہونے والی کابینہ کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات
  • جن لوگوں نے شاہ محمود سے ملاقات کی وہ بھگوڑے ہیں اس ملاقات کی کوئی اہمیت نہیں، حامد خان
  • بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پابندی کی درخواست، وکیل کو ملاقات کی اجازت مل گئی
  • کوئی محکمہ کیسے اپنے نام پر زمین لے سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • غزہ میں آگ کی روانی
  • 27 ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، اتفاق رائےکے بغیر کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوگی، رانا ثنا اللہ
  • نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا