ٹرمپ اور گریٹر اسرائیل منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھانے کے بعد جس قسم کے رعونت آمیز اعلانات اور آمرانہ فیصلے کرنے پر تلے ہوئے ہیں، وہ پوری دنیا کو قبل از وقت کسی بڑی تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ واشنگٹن میں انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالنے اور اس پٹی کے مکینوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنے کی تجویز دی ہے۔
اس تجویز کے مطابق اسرائیل جنگ ختم کرنے کے بعد غزہ کی پٹی کو امریکا کے حوالے کرے گا اور غزہ کی پٹی کے مکینوں کو خطے کے دوسرے ممالک میں آباد کیا جائے گا۔ پشتو زبان میں ایک ضرب المثل ہے کہ ’’اوور لہ راغلے نو د کور میرمن شوے‘‘ آگ مانگنے آئی تھی اور گھر کی مالکن بن گئی۔
(پرانے اور غربت کے زمانے میں دیہاتوں میں لوگ آگ جلانے کے لیے آگ بھی آسودہ حال ہمسایوں سے مانگتے تھے) یعنی ارض مقدس پر ناجائز قابضین اب ارض مقدس کے مکینوں کو دوسرے اسلامی ممالک میں آباد کر یںگے اور خود انڈرکور غزہ کی پٹی پر بھی قابض ہوجائیں گے۔ گزشتہ اتوار کو امریکی صدر ٹرمپ نے ایک بار پر اپنے منصوبے کا اعادہ کیا اور کہا کہ وہ غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت کے لیے پر عزم ہیں۔
اسرائیل کے وزیر دفاع نے امریکی صدر کے متنازع بیان کے بعد غزہ کی پٹی پر مکمل قبضے کے لیے صیہونی افواج کو تیار رہنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
امریکی صدر کے اس متنازع اعلان کے بعد جہاں صیہونی حکومت اسرائیل اور یہودی شادیانے بجا رہے ہیں وہاں فلسطین سمیت پورے عالم اسلام میں کہرام مچا ہوا ہے۔ بیشک اسلامی ممالک کے حکمران ہمیشہ امریکا کے اتحادی رہے ہیں لیکن اس بار انھوں نے بھی عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کھل کر اس متنازع تجویز کی ناصرف مخالفت کی بلکہ اسے ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کردیا ہے کیونکہ اب عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے اور کوئی مسلمان حکمران عوامی جذبات کے مخالف جانے اور عوامی رد عمل برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
ستائیس فروری کو اسی مسئلے پر مصر میں عرب ممالک کا اجلاس ٹھوس اور متفقہ موقف اختیار کرنے کے لیے طلب کرلیا گیا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی پٹی میں مقیم بیس لاکھ سے زائد غزہ کے اصل مکینوں اور وارثوں کو وہاں سے نکالنے اور اسے امریکی ملکیت میں لینے کی تجویز پر اسلامی دنیا ہی نہیں، روئے زمین پر بسنے والے تمام انصاف پسند غم و غصے میں ہیں۔
ہر آزاد ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ غزہ کی پٹی کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ وہاں کے باشندوں کو ملک بدر کرنا ہے، مگر آخر کیوں؟
یہ سازش اس وقت نا صرف اہل فلسطین بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اسرائیلی اور امریکی جرائم کی فہرست بڑی طویل اور مسلمان حکمرانوں کی خاموشی مجرمانہ رہی ہے، مگر جس اسلامی ملک کی حکومت نے اس بار بھی مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی تو اسے اپنے ہی عوام کے غیض و غضب کا سامنا ہوگا، اس لیے یہ بات بڑی واضح ہے کہ اگر ٹرمپ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہیں تو دنیا بھر سے امن کی فاختہ اڑ جائیں گی اور خوفناک عالمی جنگ چھڑنے کے امکانات ابھر کر سامنے آئیں گے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ’’ٹرمپ اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد ایک فاشسٹ حکمران کی طرح سامنے آئے ہیں، ان کا یہ فاشزم دنیا میں نئے بحرانوں کو بھڑکانے کا سبب بن رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے صیہونیت گریٹر اسرائیل کے قیام کا جو خواب و خیال اپنی سازشی ذہنوں میں ایک عرصے سے پال رہے ہیں اسے تعبیر دینے کے لیے ایسا ہی فاشزم درکار ہیں ۔
گریٹر اسرائیل کے قیام سے متعلق اسرائیل کی جانب سے ایک عرصے سے بات کی جارہی ہے، ہمارے بہت سے قارئین نے اس منصوبے کا نام تو سن رکھا ہے لیکن اس کے خدوخال سے آگاہ نہیں، گریٹر اسرائیل کا صیہونی تصور یہ ہے کہ یہودیوں کی مقدس کتب میں جس سرزمین کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں اردن، مصر، فلسطین، عراق، شام اور لبنان کے علاقے گریٹر اسرائیل میں شامل ہوں گے۔
گزشتہ سال جنوری میں ایک اسرائیلی مصنف ایوی لیکن کا ایک انٹرویو وائرل ہوا تھا جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’ہماری (گریٹر اسرائیل ) سرحدات موجودہ سعودی عرب سے نہر فرات یعنی عراق تک پھیلی ہوئی ہوں گی‘‘۔ تھیوڈور ہرتزل کو صیہونیت کا بانی سمجھا جاتا ہے، اسی نے بیسویں صدی کے دوران یہودی ریاست یا گریٹر اسرائیل کی بنیاد کا تصور دیا تھا۔
اس کا کہنا تھا کہ ’’یہودیوں کی ارض موعود (گریٹر اسرائیل ) میں لبنان، شام، عراق، سعودی عرب، مصر اور اردن کے علاوہ ایران اور ترکی کے علاقے بھی شامل ہوں گے‘‘۔ یہودیوں نے تھیوڈور ہرتزل کے اس تصور پر عمل کرتے ہوئے ہر دور میں گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے سازشیں کیں۔ یہودی تنظیمیں پوری دنیا میں گریٹر اسرائیل کے لیے رائے عامہ بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر اس بار اس جدوجہد میں تیزی محسوس ہو رہی ہے۔
امسال جنوری کے آخر میں اسرائیل کی صیہونی حکومت نے ایک بار پھر گریٹر اسرائیل کا نقشہ جاری کیا، اس نقشے میں مقبوضہ فلسطین کے علاقوں کے علاؤہ اردن، شام لبنان اور دیگر عرب ممالک کو صیہونی ریاست کا حصہ دکھایا گیا۔
پاکستان فلسطین، سعودی عرب، ترکی، قطر، ایران، اردن، متحدہ عرب امارات سمیت تمام اسلامی دنیا نے اس نقشے کی مذمت کی، اس نقشے کو جاری کرنے کے کچھ ہی دن بعد امریکی صدر کا غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے اسے خریدنے کی بات سامنے آگئی، اور اس اعلان کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا ایک اور متنازع بیان آیا جس میں انھوں نے سعودی عرب سے کہا کہ وہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین میں لے جاکر آباد کرلیں۔ ان اعلانات اور اقدامات کو الگ الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، یہ ایک ہی گھناؤنی سازش اور زنجیر کی کڑیاں ہیں۔
کئی دہائیوں سے جس گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے جو سازشیں ہورہی تھیں، لمحہ موجود میں وہ سازشیں اژدھا بن کر پوری امت مسلمہ کے سامنے کھڑی ہیں، اس بار امت مسلمہ کے حکمرانوں کو اپنا جائزہ خود لینا چاہیے کہ کیا وہ اس کا مقابلہ کرنے کی استطاعت اور ہمت رکھتے ہیں؟ یا غلامی کی زنجیریں آج بھی انھیں خاموش رہنے پر مجبور کررہی ہیں؟
بلا تفریق تقریباً تمام مسلمان حکمرانوں نے فلسطینیوں کے ساتھ ہمیشہ بیوفائی کی اور اپنے عوام کے اعتماد کو ہمیشہ ٹھیس پہنچائی لیکن اس کے باوجود اگر وہ آج اس گریٹر اسرائیل منصوبے کے آگے کھڑے ہونے کا ارادہ کرتے ہیں تو انشاء اللہ مسلم امہ کا بچہ بچہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔
اس سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے استقامت و پائیداری کی اشد ضرورت ہے اور استقامت و پائیداری کے ستون، ایک طرف فلسطین کے اندر اور باہر مجاہد فلسطینی تنظیمیں اور فلسطین کے مومن و مجاہد عوام ہیں تو دوسری جانب پوری دنیا کی مسلم قومیں اور حکومتیں بالخصوص علما و دانشور، سیاسی شخصیات اور یونیورسٹیوں سے وابستہ افراد ہیں۔
اگر یہ دونوں مستحکم ستون اپنی جگہ پر قائم رہیں تو بلا شبہ بیدار ضمیر، ذہن اور فکریں جو سامراج و صیہونی میڈیا کے مسحورکن پراپیگنڈوں سے مسخ نہیں ہوئے ہیں تو دنیا کے ہر گوشے سے صاحبان حق اور مظلوموں کی مدد کے لیے آگے آئیں گے اور جنھیں سازش کے بھیانک کرداروں کو ان کے افکار و نظریات، جذبات و احساسات اور عمل و اقدامات کے ایک طوفان کا سامنا کرنا ہوگا۔ پھر امت مسلمہ کا بچہ بچہ دنیا کو اپنے عمل سے بتائے گا کہ فلسطین، صرف فلسطینیوں کا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکی صدر غزہ کی پٹی کے لیے ا رہے ہیں کرنے کے کرنے کی کے بعد اور اس ہیں تو
پڑھیں:
امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
واشنگٹن :صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بارپھر خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکہ کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔
جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکہ کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اٹھایا۔عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکہ، ریڈیو فری ایشیا اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔
جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔
وائس آف امریکہ VOA کی وائٹ ہاوس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم وائس آف امریکہ کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔
امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکہ سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔وائٹ ہاوس نے ان اداروں پر ” ٹرمپ مخالف” اور “انتہا پسند” ہونے کا الزام لگایا تھا۔وائس آف امریکہ نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لئے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔