لاڑکانہ، فائرنگ سے تاجر زخمی، کراچی لانے کیلیے آنیوالی ائیرایمبولینس خراب
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
لاڑکانہ(نمائندہ جسارت)لاڑکانہ میں نامعلوم نقاب پوش نے تاجر کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا۔لاڑکانہ شہر میں 2 تاجروں کو گولیاں مارنے کا واقعہ پیش آیا جہاں نامعلوم نقاب پوش نے تاجر سنجے کمار سے لوٹ مار کیے بغیر فائرنگ کردی جس سے تاجر زخمی ہوگیا۔واقعے کی سی سی ٹی وی میں بھی لوٹ مار کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ذرائع کے مطابق زخمی تاجر کو کراچی منتقل کرنے کے لیے ائیرایمبولینس لاڑکانہ بھیجی گئی تھی جس پر سنجے کما رکو اسپتال سے موہن جوداڑو ائیرپورٹ پر منتقل کیاگیا۔ایوی ایشن ذرائع کے مطابق زخمی تاجر کو ائیر ایمبولینس میں منتقل کرکے وینٹی لیٹر لگادیا گیا تھا کہ روانگی کے وقت ائیرایمبولینس طیارہ فنی خرابی کا شکار ہوگیا جس کے بعد تاجر کو ائیر ایمبولینس سے نکال کر دوبارہ اسپتال منتقل کیا گیا۔ذرائع کے مطابق دوسری ائیرایمبولینس رات لاڑکانہ پہنچی جس میں زخمی کو کراچی منتقل کردیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تاجر کو
پڑھیں:
کراچی؛ تاجر برادری نے بجٹ کو مبہم قرار دے دیا، شرح نمو، ٹیکس اہداف پر سوالات اٹھا دیے
کراچی:کراچی کی تاجر اور صنعت کار برادری نے وفاقی بجٹ کو مبہم قرار دیتے ہوئے معاشی ترقی کی شرح نمو اور ٹیکس وصولیوں کے بلند اہداف پر سوال اٹھا دیے۔
کراچی چیمبرآف کامرس میں وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے بی ایم جی گروپ کے سربراہ زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ کیموفلاج ہے، گزشتہ سال کے معاشی ترقی اور شرح نمو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے، زراعت نے پست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر آئندہ مالی سال کے بلند اہداف کی بنیاد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو مزید سختی کرنے کا اختیار دے دیا گیا یہ نہیں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کا ہدف کیوں پورا نہیں ہوسکا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں وفاقی حکومت کوئی معاشی منصوبہ نہیں دے سکی کہ کس طرح معاشی نمو بڑھے گی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ میں محصولات کا ہدف پورا کرنے کے لیے سختیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، بجٹ میں اصلاحات کی بات نہیں کی گئی، ریونیو بڑھانے کے لیے معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے اقدامات کا ذکر نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تجارت سرمایہ کاری اور صنعتوں کے فروع پر کوئی بات نہیں کی گئی، پاکستان کی مسابقت کو آسان بنا کر برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، صنعتیں نہ لگیں تو بڑھتی آبادی کو کیسے روزگا دیں گے اور بجلی مہنگی کرکے ایکسپورٹ نہیں بڑھائی جاسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ دستاویزات میں معاشی اہداف حاصل کرنے کے اقدامات کا ذکر نہیں ہے، سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔
وفاقی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے کی کارکردگی بہت پست رہی اس کی کیا وجوہات ہیں، بڑی فصلوں میں نقصانات کو امپورٹ کرکے پورا کرنا پڑے گا ۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے اندر بڑی کٹوتیاں کی گئیں، ایک ہزار ارب روپے کا وفاقی پی ایس ڈی پی ناکافی ہے، پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے، ماحولیاتی آلودگی سے اس کے لیے بھی 5 ارب روپے کا بجٹ ناکافی ہے۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ ایس آئی ایف سی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، میں سمجھتا ہوں کہ پروگریسو بجٹ ہے، نئے اقدامات کیے گئے ٹیکنالوجی اور اصلاحات کے لحاظ سے معیشت کیسے ترقی کرے گی، عام طبقے تک اس کے ثمرات کیسے پہنچیں گے بجٹ میں ان سوالات کا جواب نہیں ہے۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس جاوید بلوانی نے کہا کہ بجٹ میں صنعتوں کی ترقی اور ایکسپورٹ کے لیے کچھ نہیں کہا گیا، لوگ اپنی بجلی کے کنکشن کروا رہے ہیں، 50 فیصد تنخواہیں بجلی اور ٹرانسپورٹ میں خرچ ہو رہا ہے، مہنگائی کم کرنے کے لیے کیا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ زراعت صوبوں کی ذمہ داری ہے، اب وفاق کے کنٹرول میں تو پہلے بھی نہیں تھا، کپاس کی پیداوار 90 کی دہائی سے بھی کم ہے، توانائی اور ٹیکس کی لاگت، شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہو تو ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔
جاوید بلوانی نے کہا کہ ای ایف ایس اسکیم کی وجہ سے برآمدات میں کچھ اضافہ ہوا، اس کو بھی اب خراب کیا جا رہا ہے جب ایکسپورٹ بڑھتی ہے، حکومت کوئی نہ کوئی اقدام کرکے ایکسپورٹ گرائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے مسائل کو وفاقی بجٹ میں نظر انداز کیا گیا، کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.2 ارب روپے رکھے گئے جو ناکافی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے 50 فیصد کم آبادی والے شہروں کے لیے، کراچی سے زیادہ بجٹ رکھا گیا، ہم نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے بہت سی تجاویز دیں لیکن نہیں مانی گئیں۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس نے کہا کہ بجٹ میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوئی بات نہیں کی گئی، برین ڈرین روکنے کے لیے کچھ نہیں۔
حکومتی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی میں اضافہ روکا گیا، اسے مائنس میں لانا ضروری ہے، بجٹ کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں، 38 ارب ڈالر کی ترسیلات شامل کیے بغیر بجٹ بنا کر دکھائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ خوش آئند ہے اس کے ثمرات عوام تک کیسے منتقل ہوں گے۔
سابق صدر انجم نثار نے کہا کہ بجٹ میں روزگار بڑھانے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے، نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کیسے ہوگی، چھوٹے چھوٹے ملکوں کی ایکسپورٹ ہم سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کا پہیہ چلنے دیں، کئی سال سے کے فور کا منصوبہ نہیں بن سکا، ماحولیاتی تبدیلیوں کے لیے اربوں ڈالر کا قرضہ لیا جا رہا ہے، اس پر سود کیسے ادا کریں گے، کسٹم تین روز میں کلیرینس نہ ہونے پر پینلٹی کی تجویز غلط ہے۔
سابق بیوروکریٹ محمد یونس ڈھاگا نے کہا کہ بجٹ توقعات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے، محصولات میں ایک ہزار ارب روپے کی کمی آئی، 3.6 فیصد جی ڈی پی کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو 4 فیصد سے زائد کیسے ہوگا، نمو کے ہدف کے لیے کوئی صنعتی پلان نہیں۔
یونس ڈھاگا نے کہا کہ زراعت اور آئی ٹی کی ترقی کا بھی پلان نہیں دیا گیا، ٹیکس اہداف اور جی ڈی پی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
انہوں نےکہا کہ رئیل اسٹیٹ سے ٹرانزیکشن ٹیکس میں کمی کی گئی، تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا، بجٹ میں ایکسپورٹ کی مد میں ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔