بانی پی ٹی آئی کے خطوط نے ممکنہ مصالحت کو مشکل بنا دیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
سیاسی مبصرین نے کہا ہے کہ پانی پی ٹی آئی کے خطوط آرمی چیف کو مزید ناراض اور ممکنہ مصالحت کو مزید مشکل بنا دینگے۔
ایکسپریس ٹربیون کے رپورٹ کے مطابق موجودہ ڈیجیٹل دور میںگزشتہ ہفتے سابق وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو لگاتار خط لکھ کر ایک پرانی روایت زندہ کی، جن میں مبینہ انتخابی دھاندلی، کرپٹ سیاستدانوں کو اقتدار میں لانے پر تشویش کا اظہار جبکہ ادارے کے خلاف بڑھتی عوامی بے چینی سے خبردار کیا۔
انہوں نے جیل کے سخت حالات کا احوال بھی بیان کیا تاہم ان خطوط پر ردعمل اہانت آمیز تھا۔
آرمی چیف نے اپنے بیان میں کہا کہ نہ انہیں خط ملا، نہ وہ پڑھیں گے، بلکہ وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔
وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنااللہ نے الزام لگایا کہ بانی پی ٹی آئی خطوط کو فوج مخالف پروپیگنڈے کیلئے استعمال اورتشہیر کرکے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں ہیں۔
مبصرین خطوط کو بانی پی ٹی آئی کی جیل میں بیٹھ کر اپنا سیاسی بیانیہ زندہ رکھنے کی ایک سٹریٹجک چال قرار دیتے ہیں، جس میں آرمی چیف کو براہ راست مخاطب کرکے انہوں نے سیاست میں اثرورسوخ کا نمایاں کرنے کی کوشش کی۔
خطوط پر اہانت آمیز ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عمران خان سے بات کیلئے تیار نہیں بلکہ خطوط آرمی چیف کو مزید ناراض کر سکتے ہیں۔
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ یہ خطوط سیاسی کھیل میں قابل توجہ رہنے کی سٹریٹجی کے علاوہ کچھ نہیں، خطوط کا مواد آرمی چیف کو مزید ناراض کرنے کے علاوہ ممکنہ مصالحت کو زیادہ مشکل بنا دے گا۔
خطوط پر آرمی چیف کے ردعمل پر انہوں نے کہا کہ ان پر’’نوکمنٹس‘‘ کے الفاظ کافی تھے۔
نمل یونیورسٹی کے پروفیسر طاہر نعیم ملک نے کہا کہ خطوط عمران خان کے اس موقف کے عکاس ہیں کہ وہ صرف اصل طاقتور فریق کیساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔
آرمی چیف کے نام کھلا خط لکھ کر عمران خان نے طاقتور سٹیک ہولڈر پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کے علاوہ عوام کے سامنے اپنا کیس بھی پیش کیا تاہم اس کوشش میں انہوں آرمی چیف کو مزید ناراض ہی کیا ہے۔
کچھ مبصرین کے مطابق عمران خان کے خطوط بڑھتی مایوسی کی علامت اور اسٹیبلشمنٹ کیساتھ روابط بہتر بنانے کی ایک کوشش ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا رمی چیف کو مزید ناراض پی ٹی ا ئی کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
لاہور:سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ سویلینز پر جو حملہ ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے، میں شہریوں کہ مرنے پر ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں لیکن اس کو دیکھنا یہ پڑے گا کہ پاکستان میں شہریوں پر حملے ہو رہے ہیں تو کیا اسی طرح انڈین فارن آفس نے مذمت کی ہے؟، پاکستان کی وزارت خارجہ نے تو مذمت کی ہے تو ایک فرق ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں جب ٹرین سے اتارے گئے تھے لوگ، ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کو مارا گیا تھا تو دنیا سے تعزیت کے پیغامات آئے، میرا خیال تھا کہ بھارت سے بھی آئیں گے مجھے یا د نہیں آپ کو یاد ہے تو مجھے یاد کرا دیں،
تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ کئی لحاظ سے بڑا سادہ اور کئی لحاظ سے بڑا پیچیدہ موضوع ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان صاحب جو ہیں ان کی مقبولیت جو ہے اس کی بنیاد کیا ہے، اس کی بنیاد یہ تو نہیں ہے کہ جس پر ہم سارے کم و بیش متفق ہیں کہ عمران خان سیاسی طور پر پاکستان کے انتہائی مقبول رہنما ہیں تو کیا انھوں نے کشمری فتح کیا تھا؟،کشمیر تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے دے دیا تھا 5 اگست 2019 کو، عمران خان کے پاس سمجھ بوجھ کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ نے بہت صلاحیتیں دی ہیں لیکن سیاسی داؤ پیچ، سیاسی حکمت عملی میں وہ صفر بٹا صفر ہیں۔
تجزیہ کار محسن بیگ مرزا نے کہا کہ بیسیکلی آپ نے جو کرائم کیا ایکٹ کیا وہ سب کے سامنے ہے اس میں یہ کہناکہ پروف لائیں وڈیو لائیں تو نیچرلی جب کیس چلیں گے تو پروف بھی آجائیں گے اور جو ایویڈنس ہے وہ بھی مل جائے گی لیکن بیسک چیز یہ ہے کہ اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے اس لیول پر جو اپنے آپ کو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پاکستان کے بڑے ہی پاپولر لیڈر ہیں تو آپ کو ایڈمٹ کرنا چاہیے کہ آپ نے اداروں کیخلاف ایسا ماحول یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جا کر بنایا نوجوان نسل کو اتنا ورغلایا کہ شاید کوئی دشمن بھی یہ کام نہ کر سکے تو اس پر آپ کو ریلائز کرنا چاہیے یہ ملک آپ کو ملا پونے چار سال، آپ اس کو نہیں چلا سکے۔
تجزیہ کار نصر اللہ ملک نے کہا کہ میں پہلے دن سے سمجھتا ہوں میری یہ رائے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے براہ راست مذاکرات کا آغاز کبھی نہیں ہوا، کبھی کبھی کچھ باتیں سامنے آ جاتی ہیں علی امین گنڈاپور پیغام لیکر گئے اعظم سواتی پیغام لیکر گئے اس میں حقیقت ایسی نہیں ہے خواہشات کا اظہار ضرور ہوتا رہا ہے، پیغامات بھجوائے جاتے رہے ہیں ابھی بھی جو ڈیلیگیشن ملا، اس نے جا کر جو بات چیت کی، یہی کہا کہ عمران خان صاحب کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہییں پھر جو پیغامات بجھوائے گئے عمران خان صاحب نے بھی پیغامات بجھوائے ہیں۔