Express News:
2025-11-05@01:00:44 GMT

تین دہشت گرد وزرائے اعظم (حصہ اول)

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

فلسطین میں ’’دہشت گردی کے جدِ امجد‘‘ کے گزشتہ تین سلسلے وار مضامین میں یہ بتانا مقصود تھا کہ فلسطین میں منظم ہتھیار بند سیاست کا آغاز عربوں نے نہیں صیہونیوں نے کیا تھا۔

ہم نے گزشتہ مضامین میں ہگانہ ، ارگون اور لیخی نامی تین دہشت گرد تنظیموں کا تذکرہ کیا۔جنھیں بعد ازاں اسرائیلی فوج کی باضابطہ شکل میں ڈھال دیا گیا۔آج یہ فوج اگر اپنے عسکری اجداد کے ڈی این اے کا حق ادا کر رہی تو حیرت کیوں۔آپ تو جانتے ہیں کہ اولاد ہی والدین کی وراثت آگے بڑھاتی ہے۔

بن گوریان سے بنجمن نیتن یاہو تک اسرائیل میں اب تک چودہ وزراِ اعظم آئے ہیں۔ان میں سے تین وزرائے اعظم بذاتِ خود دہشت گرد تھے۔ تینوں کا نظریاتی شجرہ صیہونی ترمیم پسند رہنما زیو جیوبٹنسکی سے جا ملتا ہے جو عربوں کی نسل کشی کے ایک بڑے وکیل تھے۔

پہلے سکہ بند دہشت گرد وزیرِ اعظم مینہم بیگن ہیں۔اسرائیل کی تشکیل سے قبل انیس سو تینتالیس تا اڑتالیس تک وہ مسلح ملیشیا ارگون کے سربراہ رہے۔ وارسا یونیورسٹی سے انیس سو تیس کی دہائی میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔دوسری عالمی جنگ کے دوران بیگن پولینڈ اور لتھوینیا میں جرمنوں کے خلاف مزاحتمی تحریک میں سرگرم رہے۔

ستمبر انیس سو چالیس میں وہ اسٹالن کی خفیہ این کے وی ڈی کے ہتھے چڑھ گئے اور انھیں برطانوی ایجنٹ ہونے کے الزام میں آٹھ برس قید کی سزا سنا کے سائبیریا کے ایک لیبر کیمپ میں بھیج دیا گیا۔جب جون انیس سو اکتالیس میں نازی جرمنی نے سوویت یونین پر چڑھائی کی تو سوویت یونین نے پولش مزاحتمی تحریک کی سرپرستی شروع کر دی اور مینہم بیگن سمیت پولش قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

بیگن فری پولش آرمی میں شامل ہو گئے اور مئی انیس سو بیالیس میں ان کا فوجی یونٹ براستہ ایران و عراق فلسطین پہنچا۔یہاں انھوں نے آرمی سے طویل رخصت لے لی اور ارگون ملیشیا میں شمولیت اختیار کی۔بیگن نے بہت تیزی سے ارگون کی بالائی قیادت تک کا سفر طے کیا۔ان کے والد ، والدہ اور بھائی کی موت نازی کنسنٹریشن کیمپوں میں ہوئی۔اس پس منظر کے ساتھ مینہم بیگن کی شخصی سخت گیری سمجھ میں آ سکتی ہے۔

جب انیس سو چھتیس تا انتالیس برطانیہ کی کھلی یہود نواز پالیسی کے خلاف عام عربوں نے بغاوت کی تو برطانیہ نے مسلح صیہونی آبادکاروں کی مدد سے مزاحمت کو کچل ضرور دیا مگر آیندہ ایسے کسی شدید عرب ردِ عمل سے بچنے کے لیے برطانیہ نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی اور یہودیوں کی آمد کا کوٹہ انتہائی محدود کر دیا۔اس کے ردِ عمل میں مسلح صیہونیوں نے برطانیہ کو نشانے پر رکھ لیا۔

مینہم بیگن کا نظریہ یہ تھا کہ یہودیوں کو آئرلینڈ کی مزاحمتی تحریک کی طرح ایک ہتھیار بند چھاپہ مار جنگ شروع کرنی چاہیے۔جب برطانیہ تنگ آ کر یہودی مزاحمت سے سختی برتے گا تو ان یہودیوں کے حق میں ہمدردی کی عالمی لہر ابھرے گی جو یورپ میں موت و حیات کی کشمکش میں ہیں اور جان بچانے کے لیے فلسطین آنا چاہ رہے ہیں۔

ایک دن برطانیہ زچ ہوکر بوریا بستر لپیٹے گا تو اس کے بعد عربوں سے نمٹنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔لہٰذا جو صیہونی اس وقت مسلح جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد کے زریعے کسی حل کی امید رکھتے ہیں وہ دراصل احمق ہیں۔اور پھر سب نے دیکھا کہ مینہم بیگن کا تجزیہ حالات و واقعات نے درست ثابت کیا۔

ارگون ملیشیا کی مینہم بیگن کی سربراہی کے دور میں یروشلم میں امیگریشن اور انکم ٹیکس دفاتر پر حملے ، قاہرہ میں برطانوی نائب سفیر لارڈ میون کا قتل ، ایکر کی جیل پر حملہ کر کے چھبیس دہشت گردوں کو چھڑوانا ، برطانوی انتظامیہ کے مرکز کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو جولائی انیس سو چھیالیس میں بارود سے اڑانا نمایاں وارداتیں ہیں۔کنگ ڈیوڈ ہوٹل کی تباہی سے نہ صرف تب تک کی صیہونی دہشت گردی اور دہشت گردوں کا ریکارڈ تلف ہو گیا بلکہ اکیانوے ہلاکتیں بھی ہوئیں۔بیگن کا ایک اور بڑا کارنامہ ارگون سے بھی زیادہ متشدد گروہ لیخی کے اشتراک اور سوشلسٹ صیہونی رہنما بن گوریان کی خاموش حمایت سے نو اپریل انیس سو اڑتالیس کے دن دیر یاسین گاؤں کے ڈھائی سو کے لگ بھگ عرب زن و مرد کا قتلِ عام تھا۔( اس کا تذکرہ گزشتہ مضامین میں تفصیلاً ہو چکا ہے )۔

مفرور مینہم بیگن کے سر پر برطانوی انتظامیہ نے دس ہزار پاؤنڈ کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔انھوں نے انیس سو چوالیس کے بعد اگلے چار برس نام ، مقام اور بھیس بدل بدل کے کام کیا۔اسرائیل کی تشکیل کے بعد بھی ارگون نے اپنا مسلح تشخص برقرار رکھنے کی کوشش کی اور بن گوریان کی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔مگر بدلے حالات نے ارگون کو اسرائیلی فوج میں ضم ہونے پر مجبور کر دیا۔

بیگن نے چھاپہ مار زندگی ترک کر کے ہیروت (آزادی ) کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی۔اس جماعت کا منشور اردن سے بحیرہ روم کے ساحل تک عظیم تر اسرائیل کا قیام تھا۔ ان کے دہشت گرد ماضی کے سبب برطانیہ میں داخلے پر انیس سو بہتر تک پابندی رہی۔انیس سو تہتر میں ہیروت پارٹی نے دائیں بازو کے لیخود اتحاد کا روپ دھارا۔

بن گوریان اور بیگن ایک دوسرے کو سخت ناپسند کرتے تھے۔جب بن گوریان نے انیس سو پچپن میں ہالوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کے لیے بطور زرِ تلافی پانچ ارب جرمن مارک کی رقم قبول کرنے کا معاہدہ کیا تو مینہم بیگن نے کہا کہ بن گوریان نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کی لاشوں کا سودا کر کے جرمنی کے گناہ دھو ڈالے۔اس معاہدے کے خلاف بیگن نے یروشلم میں ایک بہت بڑے پرتشدد جلوس کی قیادت کی۔

 جب انیس سو اناسی میں بیگن نے بطور وزیرِ اعظم جمی کارٹر کی ثالثی میں مصر کے صدر انور سادات کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ سجھوتے پر دستخط کے بعد جزیرہ نما سینا مصر کو واپس کر دیا اور اس کے عوض سادات کے ہمراہ نوبیل امن انعام وصول کیا تو مخالفین نے طعنہ دیا کہ اردن سے بحیرہ روم تک عظیم تر اسرائیل کے وکیل نے اپنا نظریہ اپنے ہی ہاتھوں قتل کر دیا۔مگر بیگن حکومت نے مقبوضہ غربِ اردن میں یہودی آبادکار بستیوں کی تعداد دوگنی کر کے اور روس سے مزید دس لاکھ یہودیوں کو اسرائیل منتقل کر کے اور انیس سو سڑسٹھ میں شام سے چھینی گئی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل میں ضم کر کے سینائی کی مصر کو واپسی کی تلافی کر لی۔

لیخود پارٹی نے عہد کیا کہ سینائی کے بعد کوئی علاقہ بشمول غربِ اردن واپس نہیں کیا جائے گا۔اس پالیسی پر بیگن کے بعد آنے والے تمام وزرائے اعظم نے عمل کیا۔

امریکی دباؤ پر انیس سو بانوے میں دو ریاستی حل بظاہر تسلیم کر لیا گیا مگر جب پی ایل او نے اس معاہدے کی قیمت کے طور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر کے ہتھیار رکھ دیے تو دو ریاستی حل بھی عملاً دفن ہوتا چلا گیا۔

 بیگن نے وزیرِ دفاع ایریل شیرون کے ساتھ مل کر ستمبر انیس سو بیاسی میں بیروت کے صابرہ و شتیلا کیمپوں میں تین ہزار فلسطینی پناہ گزینوں کا قتلِ عام بھی کیا۔ایک عدالتی کمیشن نے بیگن کو بلاواسطہ اور شیرون کو براہ راست ذمے دار ٹھہرایا۔دونوں نے استعفی دے دیا۔بیگن نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اسی حالت میں نو مارچ انیس سو بانوے کو انتقال ہوا۔

بیگن کو ان کی وصیت کے مطابق ماؤنٹ ہرزل کے بجائے کوہِ زیتون کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔وہیں پر ارگون کے دہشت گرد مائر فینسٹائین اور موشے برزانی بھی دفن ہیں جنھیں اسرائیل کے قیام سے قبل ایک برطانوی عدالت نے دہشت گردی کی پاداش میں سزاِ موت سنائی تھی۔ دونوں نے تختہ دار پر جھولنے کے بجائے خود کو دستی بموں سے اڑا لیا۔

بیگن انیس سو انچاس کی پہلی کنیسٹ سے لے کر انیس سو تراسی تک مسلسل پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔دس اکتوبر انیس سو تراسی کو وزارتِ عظمی سے بیگن کے استعفی کے بعد ایک اور اشتہاری دہشت گرد نے کرسی سنبھالی۔اگلے مضمون میں اس کا احوال پیش ہو گا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مینہم بیگن بن گوریان کے خلاف بیگن نے کے لیے کر دیا کے بعد

پڑھیں:

طوفانِ الاقصیٰ، تاریخ کا نقطۂ عطف

اسلام ٹائمز: اسرائیلی حکومت جنگ کے اختتام کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان کم ہے کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک جب تک ٹرمپ امریکی سیاست میں فعال رہیں، تل ابیب مغربِ ایشیا میں توازنِ طاقت کو بگاڑنے کی کوششوں سے باز آئے۔ طوفان الاقصیٰ ایک آپریشن نہیں بلکہ تاریخ کا نقطۂ عطف ہے۔ اس نے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بیانیے کو روکا، عرب دنیا کی بے حسی کو چیلنج کیا، اور محورِ مقاومت کو نئی زندگی دی۔ یہ واقعہ اسلامی دنیا کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو 1979 کے انقلابِ اسلامی ایران یا 2006 کی جنگِ لبنان کو جدید اسلامی و عالمی تاریخ میں حاصل ہے۔ اب مغربِ ایشیا کی سیاست اب مابعد طوفان الاقصیٰ دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں بندوق اور بیانیہ دونوں طاقت کے توازن کو ازسرِنو متعین کر رہے ہیں۔ خصوصی رپورٹ: 

واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام سے الہام لیکر طوفان الاقصیٰ آپریشن کو منظم اور کامیاب کرنیوالے یحییٰ سنوار کی روح کو لاکھوں سلام۔ طوفانِ الاقصیٰ کا اثر یہ ہوا کہ عرب اور اسلامی ممالک اور تل ابیب کے تعلقات کی معمول پر واپسی میں رخنہ پڑا اور گریٹر اسرائیل کے علاوہ مسجد اقصیٰ کی تباہی کا منصوبہ بھی ناکام ہوا۔ اس بارے میں مغربِ ایشیا کے امور کے ماہر وحید مردانہ کا کہنا ہے کہ طوفان الاقصیٰ ایک ناگزیر آپریشن تھا، آنے والے برسوں میں ہم مغربی ایشیا اور کسی حد تک پوری دنیا میں نمایاں تبدیلیاں دیکھیں گے۔

کیا یہ ضروری تھا؟: تسنیم نیوز سے گفتگو میں وحید مردانہ نے طوفان الاقصیٰ کے متعلق کہا کہ سب سے پہلا سوال جو وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ آیا طوفان الاقصیٰ آپریشن سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے تھا؟ کیا ان تمام قربانیوں کا کوئی حقیقی جواز تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب اس آپریشن سے پہلے کے حالات میں تلاش کرنا چاہیے، یعنی یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت خطے میں حالات مزاحمتی محور کے حق میں تھے یا اس کے خلاف، اور عمومی رجحان کیا دکھائی دے رہا تھا۔

صہیونی رجحانات کا بڑھنا اور صدی کی ڈیل: انہوں نے وضاحت کی کہ طوفان الاقصیٰ سے پہلے خطے کی سیاسی سمت واضح طور پر اسرائیل کے مفاد میں تبدیل ہو رہی تھی، 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی طاقت کے عروج پر تھے، وہ پرانی روایات توڑتے ہوئے صدی کی ڈیل منصوبے پر عمل پیرا تھے، ایک ایسا جامع منصوبہ جس میں مغربی کنارے کا اسرائیل یا اردن سے الحاق، غزہ کو نیوم پروجیکٹ کے تحت صحرائے سینا میں ضم کرنا، اور اسلامی ممالک کے ساتھ تل ابیب کے تعلقات کو معمول پر لانا شامل تھا۔ اسی دوران واشنگٹن نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔

اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا: وحید مردانہ کے مطابق اگر یہ عمل جاری رہتا، تو انجام کار اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کی بحالی مسجد الاقصیٰ کی تباہی پر منتج ہوتی، وہی خطرہ جس سے شہید یحییٰ سنوار نے خبردار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ فلسطین کے مکمل زوال اور سقوط پر ختم ہونا تھا۔ انتفاضہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی، کیونکہ مغربی کنارے کے عوام کے ذہنوں پر اسرائیلی اثر بڑھ چکا تھا، اور خود مختار فلسطینی انتظامیہ (PA) نے بھی مزاحمت کو دبا رکھا تھا۔

حماس کے لیے فیصلہ کن لمحہ: انہوں نے کہا کہ حماس کے سامنے دو ہی راستے تھے، یا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فلسطین کو ختم ہوتے دیکھتی، یا پھر اقدام کرتی۔ اگر طوفان الاقصیٰ اس وقت نہ ہوتا تو چند ماہ یا سال بعد بہرحال یہ ناگزیر ہو جاتا، کیونکہ بائیڈن کے آنے کے باوجود صدی کی ڈیل ختم نہیں ہوا تھا اور ٹرمپ کی ممکنہ واپسی کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔

اسرائیلی حکمتِ عملی: وحید مردانہ کے مطابق اگر حماس انتظار کرتی، تو اسرائیل کی چمن زنی (mowing the grass) یعنی سبز دکھانے کی پالیسی کے تحت ہر دو سال بعد غزہ پر جنگ مسلط ہوتی رہتی۔ اس صورت میں حماس کے لیے کسی اچانک اور چونکا دینے والے ردعمل کا عنصر ختم ہو جاتا۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پیشگی اقدام کریں تاکہ امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ سے پہل کا موقع چھین سکیں۔

سوریہ، لبنان اور یمن کی تبدیلیاں: جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شام اور لبنان کے حالات کو طوفان الاقصیٰ کا نتیجہ سمجھا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ شام اور غزہ کے معاملات کو براہِ راست جوڑنا درست نہیں، اگرچہ ان میں اثرات ضرور تھے۔ حزب اللہ کے لیے لبنان کی سلامتی اور محورِ مقاومت کی بقا سب سے اہم تھی۔ اسی تناظر میں سید حسن نصراللہ کی شہادت نے مغربِ ایشیا کو گہرے تغیر سے دوچار کیا۔ مگر مجموعی تصویر کو ایک ساتھ دیکھنا چاہیے۔

یمن، مزاحمت کی نئی قوت: انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا تغیر یمن کے ابھرنے کی صورت میں سامنے آیا۔ انصاراللہ کی قیادت میں یہ غریب اور تنہا ملک چند سالوں میں ایک فیصلہ کن اور اثر انگیز قوت بن گیا، حتیٰ کہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے سامنے ڈٹ گیا اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہ وہ بات تھی جو کچھ سال پہلے تک محض خواب سمجھی جاتی تھی۔

ایران کا کردار اور استحکام: انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنا علاقائی مقام خود کی طاقت سے حاصل کیا، جبکہ اسرائیل نے یہ حیثیت امریکہ، مغرب اور عرب اتحادیوں کی مدد سے پائی۔ فرق یہ ہے کہ ایران کی بنیادیں کہیں زیادہ مضبوط اور دیرپا ہیں۔

مستقبل کا نقشہ، مزاحمت اور علاقائی سیاست: وحید مردانہ کے بقول تاریخ میں ہمیشہ اقوام اور نظریات کی بلندی و زوال جنگوں کے نتیجے میں طے ہوئی ہے۔ مستقبل قریب میں مغربِ ایشیا اور کسی حد تک دنیا میں بڑی تبدیلیاں یقینی ہیں۔ اس جنگ کے نتائج دونوں فریقوں کے لیے جیت اور ہار کا تعین کریں گے۔ غزہ کی جنگ اس تمام عمل کی کنجی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر غزہ اور حماس برقرار رہتی ہیں، تو محورِ مقاومت نئی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے بحالی کا کام کرے گا۔ بصورتِ دیگر علاقائی کھیل مزید پیچیدہ ہو جائے گا، کیونکہ اسرائیل اور مزاحمتی قوتوں کو اپنے نئے سیاسی جغرافیے کو مستحکم کرنا ہوگا اور یہ آسان کام نہیں۔ اسرائیل، اگر غالب آتا ہے، تو مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے حتیٰ کہ ترکی جیسے ممالک میں بھی شخصیات کے قتل (targeted assassinations) تک کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

طوفانِ الاقصیٰ، تاریخ کا نقطۂ عطف: انہوں نے اختتام پر کہا کہ چونکہ صہیونی حکومت خطے میں جنگوں کے خاتمے کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، اس لیے امکان نہیں کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک یعنی ٹرمپ کی موجودگی کے دوران وہ مغربی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی پالیسی سے پیچھے ہٹے گی۔ طوفانِ الاقصیٰ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں تھی، یہ ایک فکری و تزویراتی دھماکہ تھا جس نے مغربی ایشیا کے سیاسی، مذہبی اور سفارتی توازن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وحید مردانہ کے مطابق یہ ایک ناگزیر اقدام تھا، ایسا لمحہ جو اگر مؤخر کیا جاتا، تو فلسطین مکمل طور پر ختم ہو جاتا اور اسرائیل کے ساتھ عرب دنیا کے تعلقات کی معمول پر واپسی ایک ناقابلِ تلافی حقیقت بن جاتی۔

اسرائیلی حکومت جنگ کے اختتام کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان کم ہے کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک جب تک ٹرمپ امریکی سیاست میں فعال رہیں، تل ابیب مغربِ ایشیا میں توازنِ طاقت کو بگاڑنے کی کوششوں سے باز آئے۔ طوفان الاقصیٰ ایک آپریشن نہیں بلکہ تاریخ کا نقطۂ عطف ہے۔ اس نے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بیانیے کو روکا، عرب دنیا کی بے حسی کو چیلنج کیا، اور محورِ مقاومت کو نئی زندگی دی۔ یہ واقعہ اسلامی دنیا کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو 1979 کے انقلابِ اسلامی ایران یا 2006 کی جنگِ لبنان کو جدید اسلامی و عالمی تاریخ میں حاصل ہے۔ اب مغربِ ایشیا کی سیاست اب مابعد طوفان الاقصیٰ دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں بندوق اور بیانیہ دونوں طاقت کے توازن کو ازسرِنو متعین کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • طوفانِ الاقصیٰ، تاریخ کا نقطۂ عطف
  • اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی حمایت
  • اسحاق ڈار کی ترک وزیرخارجہ سے ملاقات، علاقائی و بین الاقوامی امور پر قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق
  • استنبول: وزیرخارجہ اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب سے ملاقات، دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • غزہ معاہدہ: اسحاق ڈار اسلامی وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کیلئے آج استنبول جائینگے
  • عرب اسلامک وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت، نائب وزیراعظم کل استبول روانہ ہوں گے
  • غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • غزہ کیلیے امریکی منصوبے کی حمایت میں مسلم ممالک کا اجلاس کل ہوگا
  • ترک وزیر خارجہ سے حماس کے سربراہ کی استنبول میں ملاقات