Express News:
2025-09-18@11:51:41 GMT

تین دہشت گرد وزرائے اعظم (حصہ اول)

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

فلسطین میں ’’دہشت گردی کے جدِ امجد‘‘ کے گزشتہ تین سلسلے وار مضامین میں یہ بتانا مقصود تھا کہ فلسطین میں منظم ہتھیار بند سیاست کا آغاز عربوں نے نہیں صیہونیوں نے کیا تھا۔

ہم نے گزشتہ مضامین میں ہگانہ ، ارگون اور لیخی نامی تین دہشت گرد تنظیموں کا تذکرہ کیا۔جنھیں بعد ازاں اسرائیلی فوج کی باضابطہ شکل میں ڈھال دیا گیا۔آج یہ فوج اگر اپنے عسکری اجداد کے ڈی این اے کا حق ادا کر رہی تو حیرت کیوں۔آپ تو جانتے ہیں کہ اولاد ہی والدین کی وراثت آگے بڑھاتی ہے۔

بن گوریان سے بنجمن نیتن یاہو تک اسرائیل میں اب تک چودہ وزراِ اعظم آئے ہیں۔ان میں سے تین وزرائے اعظم بذاتِ خود دہشت گرد تھے۔ تینوں کا نظریاتی شجرہ صیہونی ترمیم پسند رہنما زیو جیوبٹنسکی سے جا ملتا ہے جو عربوں کی نسل کشی کے ایک بڑے وکیل تھے۔

پہلے سکہ بند دہشت گرد وزیرِ اعظم مینہم بیگن ہیں۔اسرائیل کی تشکیل سے قبل انیس سو تینتالیس تا اڑتالیس تک وہ مسلح ملیشیا ارگون کے سربراہ رہے۔ وارسا یونیورسٹی سے انیس سو تیس کی دہائی میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔دوسری عالمی جنگ کے دوران بیگن پولینڈ اور لتھوینیا میں جرمنوں کے خلاف مزاحتمی تحریک میں سرگرم رہے۔

ستمبر انیس سو چالیس میں وہ اسٹالن کی خفیہ این کے وی ڈی کے ہتھے چڑھ گئے اور انھیں برطانوی ایجنٹ ہونے کے الزام میں آٹھ برس قید کی سزا سنا کے سائبیریا کے ایک لیبر کیمپ میں بھیج دیا گیا۔جب جون انیس سو اکتالیس میں نازی جرمنی نے سوویت یونین پر چڑھائی کی تو سوویت یونین نے پولش مزاحتمی تحریک کی سرپرستی شروع کر دی اور مینہم بیگن سمیت پولش قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

بیگن فری پولش آرمی میں شامل ہو گئے اور مئی انیس سو بیالیس میں ان کا فوجی یونٹ براستہ ایران و عراق فلسطین پہنچا۔یہاں انھوں نے آرمی سے طویل رخصت لے لی اور ارگون ملیشیا میں شمولیت اختیار کی۔بیگن نے بہت تیزی سے ارگون کی بالائی قیادت تک کا سفر طے کیا۔ان کے والد ، والدہ اور بھائی کی موت نازی کنسنٹریشن کیمپوں میں ہوئی۔اس پس منظر کے ساتھ مینہم بیگن کی شخصی سخت گیری سمجھ میں آ سکتی ہے۔

جب انیس سو چھتیس تا انتالیس برطانیہ کی کھلی یہود نواز پالیسی کے خلاف عام عربوں نے بغاوت کی تو برطانیہ نے مسلح صیہونی آبادکاروں کی مدد سے مزاحمت کو کچل ضرور دیا مگر آیندہ ایسے کسی شدید عرب ردِ عمل سے بچنے کے لیے برطانیہ نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی اور یہودیوں کی آمد کا کوٹہ انتہائی محدود کر دیا۔اس کے ردِ عمل میں مسلح صیہونیوں نے برطانیہ کو نشانے پر رکھ لیا۔

مینہم بیگن کا نظریہ یہ تھا کہ یہودیوں کو آئرلینڈ کی مزاحمتی تحریک کی طرح ایک ہتھیار بند چھاپہ مار جنگ شروع کرنی چاہیے۔جب برطانیہ تنگ آ کر یہودی مزاحمت سے سختی برتے گا تو ان یہودیوں کے حق میں ہمدردی کی عالمی لہر ابھرے گی جو یورپ میں موت و حیات کی کشمکش میں ہیں اور جان بچانے کے لیے فلسطین آنا چاہ رہے ہیں۔

ایک دن برطانیہ زچ ہوکر بوریا بستر لپیٹے گا تو اس کے بعد عربوں سے نمٹنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔لہٰذا جو صیہونی اس وقت مسلح جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد کے زریعے کسی حل کی امید رکھتے ہیں وہ دراصل احمق ہیں۔اور پھر سب نے دیکھا کہ مینہم بیگن کا تجزیہ حالات و واقعات نے درست ثابت کیا۔

ارگون ملیشیا کی مینہم بیگن کی سربراہی کے دور میں یروشلم میں امیگریشن اور انکم ٹیکس دفاتر پر حملے ، قاہرہ میں برطانوی نائب سفیر لارڈ میون کا قتل ، ایکر کی جیل پر حملہ کر کے چھبیس دہشت گردوں کو چھڑوانا ، برطانوی انتظامیہ کے مرکز کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو جولائی انیس سو چھیالیس میں بارود سے اڑانا نمایاں وارداتیں ہیں۔کنگ ڈیوڈ ہوٹل کی تباہی سے نہ صرف تب تک کی صیہونی دہشت گردی اور دہشت گردوں کا ریکارڈ تلف ہو گیا بلکہ اکیانوے ہلاکتیں بھی ہوئیں۔بیگن کا ایک اور بڑا کارنامہ ارگون سے بھی زیادہ متشدد گروہ لیخی کے اشتراک اور سوشلسٹ صیہونی رہنما بن گوریان کی خاموش حمایت سے نو اپریل انیس سو اڑتالیس کے دن دیر یاسین گاؤں کے ڈھائی سو کے لگ بھگ عرب زن و مرد کا قتلِ عام تھا۔( اس کا تذکرہ گزشتہ مضامین میں تفصیلاً ہو چکا ہے )۔

مفرور مینہم بیگن کے سر پر برطانوی انتظامیہ نے دس ہزار پاؤنڈ کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔انھوں نے انیس سو چوالیس کے بعد اگلے چار برس نام ، مقام اور بھیس بدل بدل کے کام کیا۔اسرائیل کی تشکیل کے بعد بھی ارگون نے اپنا مسلح تشخص برقرار رکھنے کی کوشش کی اور بن گوریان کی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔مگر بدلے حالات نے ارگون کو اسرائیلی فوج میں ضم ہونے پر مجبور کر دیا۔

بیگن نے چھاپہ مار زندگی ترک کر کے ہیروت (آزادی ) کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی۔اس جماعت کا منشور اردن سے بحیرہ روم کے ساحل تک عظیم تر اسرائیل کا قیام تھا۔ ان کے دہشت گرد ماضی کے سبب برطانیہ میں داخلے پر انیس سو بہتر تک پابندی رہی۔انیس سو تہتر میں ہیروت پارٹی نے دائیں بازو کے لیخود اتحاد کا روپ دھارا۔

بن گوریان اور بیگن ایک دوسرے کو سخت ناپسند کرتے تھے۔جب بن گوریان نے انیس سو پچپن میں ہالوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کے لیے بطور زرِ تلافی پانچ ارب جرمن مارک کی رقم قبول کرنے کا معاہدہ کیا تو مینہم بیگن نے کہا کہ بن گوریان نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کی لاشوں کا سودا کر کے جرمنی کے گناہ دھو ڈالے۔اس معاہدے کے خلاف بیگن نے یروشلم میں ایک بہت بڑے پرتشدد جلوس کی قیادت کی۔

 جب انیس سو اناسی میں بیگن نے بطور وزیرِ اعظم جمی کارٹر کی ثالثی میں مصر کے صدر انور سادات کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ سجھوتے پر دستخط کے بعد جزیرہ نما سینا مصر کو واپس کر دیا اور اس کے عوض سادات کے ہمراہ نوبیل امن انعام وصول کیا تو مخالفین نے طعنہ دیا کہ اردن سے بحیرہ روم تک عظیم تر اسرائیل کے وکیل نے اپنا نظریہ اپنے ہی ہاتھوں قتل کر دیا۔مگر بیگن حکومت نے مقبوضہ غربِ اردن میں یہودی آبادکار بستیوں کی تعداد دوگنی کر کے اور روس سے مزید دس لاکھ یہودیوں کو اسرائیل منتقل کر کے اور انیس سو سڑسٹھ میں شام سے چھینی گئی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل میں ضم کر کے سینائی کی مصر کو واپسی کی تلافی کر لی۔

لیخود پارٹی نے عہد کیا کہ سینائی کے بعد کوئی علاقہ بشمول غربِ اردن واپس نہیں کیا جائے گا۔اس پالیسی پر بیگن کے بعد آنے والے تمام وزرائے اعظم نے عمل کیا۔

امریکی دباؤ پر انیس سو بانوے میں دو ریاستی حل بظاہر تسلیم کر لیا گیا مگر جب پی ایل او نے اس معاہدے کی قیمت کے طور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر کے ہتھیار رکھ دیے تو دو ریاستی حل بھی عملاً دفن ہوتا چلا گیا۔

 بیگن نے وزیرِ دفاع ایریل شیرون کے ساتھ مل کر ستمبر انیس سو بیاسی میں بیروت کے صابرہ و شتیلا کیمپوں میں تین ہزار فلسطینی پناہ گزینوں کا قتلِ عام بھی کیا۔ایک عدالتی کمیشن نے بیگن کو بلاواسطہ اور شیرون کو براہ راست ذمے دار ٹھہرایا۔دونوں نے استعفی دے دیا۔بیگن نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اسی حالت میں نو مارچ انیس سو بانوے کو انتقال ہوا۔

بیگن کو ان کی وصیت کے مطابق ماؤنٹ ہرزل کے بجائے کوہِ زیتون کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔وہیں پر ارگون کے دہشت گرد مائر فینسٹائین اور موشے برزانی بھی دفن ہیں جنھیں اسرائیل کے قیام سے قبل ایک برطانوی عدالت نے دہشت گردی کی پاداش میں سزاِ موت سنائی تھی۔ دونوں نے تختہ دار پر جھولنے کے بجائے خود کو دستی بموں سے اڑا لیا۔

بیگن انیس سو انچاس کی پہلی کنیسٹ سے لے کر انیس سو تراسی تک مسلسل پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔دس اکتوبر انیس سو تراسی کو وزارتِ عظمی سے بیگن کے استعفی کے بعد ایک اور اشتہاری دہشت گرد نے کرسی سنبھالی۔اگلے مضمون میں اس کا احوال پیش ہو گا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مینہم بیگن بن گوریان کے خلاف بیگن نے کے لیے کر دیا کے بعد

پڑھیں:

’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس

اسلام ٹائمز: اس اجتماع میں ملک بھر سے مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین، علمائے کرام و مشائخ عظام اور مرکزی رہنماوں نے خطاب کیا، کانفرنس سے میزبان سربراہ مجلس وحدت مسلمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بشریت ظلم و استبداد کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے اور  ویسٹ کی برہنہ تہذیب کے ظلم و جبر کا شکار ہے، اس ظلم کی جڑیں مغربی تہذیب میں ہیں، لوگ سمجھتے تھے کہ مغرب نے اپنی ترقی سے دنیا کو جنت بنا دیا ہے، لیکن مغرب نے اپنا مکروہ چہرہ میڈیا کے لبادے میں چھپایا ہوا ہے۔ ترتیب و تدوین: سید عدیل عباس

ہفتہ وحدت کی مناسبت سے گذشتہ چند سالوں سے پاکستان میں قائم مختلف مذہبی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کی جانب سے اور مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام ہر سال اسلام آباد میں ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس سال بھی ولادت باسعادت سرور کونین، سید الانبیاء، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے موقع پر اسلام آباد میں سالانہ کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی شخصیات اور علماء کرام نے شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان کے مخصوص حالات اور خاص طور پر غزہ اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے تناظر میں امت مسلمہ کو امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف متحد ہو کر جواب دینے اور باہمی اتحاد کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ کانفرنس کی خاص بات اتحاد بین المسلمین کا وہ عملی مظاہرہ تھا کہ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل جیسا پلیٹ فارم قائم کیا گیا، کانفرنس میں تمام مقررین حضرات نے سب سے زیادہ امت مسلمہ کے مابین اتحاد اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔

اس اجتماع میں ملک بھر سے مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین، علمائے کرام و مشائخ عظام اور مرکزی رہنماوں نے خطاب کیا، کانفرنس سے میزبان سربراہ مجلس وحدت مسلمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بشریت ظلم و استبداد کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے اور ویسٹ کی برہنہ تہذیب کے ظلم وجبر کا شکار ہے، اس ظلم کی جڑیں مغربی تہذیب میں ہیں، لوگ سمجھتے تھے کہ مغرب نے اپنی ترقی سے دنیا کو جنت بنا دیا ہے، لیکن مغرب نے اپنا مکروہ چہرہ میڈیا کے لبادے میں چھپایا ہوا ہے، جب یہ ہمارے نبی ختمی المرتب (ص) کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو اپنی مغربی تہذیب کے برہنہ پن کو واضح کرتے ہیں، ان کی حقیقت آپ غزہ میں دیکھ لیں، جب تک تم ان جیسے نہ ہو جاؤ، وہ راضی ہو ہی نہیں سکتے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ امریکہ اسرائیل کے قطر پر حملے میں ملوث نہ ہو، قطر نے چار سو ملین ڈالر کا جہاز دیا ہے، ٹرمپ کو، پھر بھی حملہ ہوا اور مزاحمت کے رہنما شہید ہوئے۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ امریکہ قابل اعتماد نہیں ہے، اپنے وطن کے خزانے ان کے حوالے کر رہے ہو، اس کے ساتھ سی آئی اے آئے گی اور حرام ہے یہود و نصاریٰ کو دوست بنانا، یہ قرآن کہہ رہا ہے، وہ انہیں میں سے ہو جائے گا، یہ دین اور انسانیت سے دور ہیں، ان کی تہذیب میں انسانیت کی تحقیر اور بزدلی، بے وفائی اور بے حرمتی ہے، تحقیر ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری قیادت کو غور کرنا ہوگا کہ امت اور قوم منتشر کیوں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نفسا نفسی کی دوڑ ہے، ہر کوئی اپنی انا میں ڈوبا ہوا ہے، استعمار ہماری ملت کو ملین ڈالرز خرچ کرکے تقسیم در تقسیم کر رہا ہے، ایران میں جب انقلاب آیا تو پوری مسلم دنیا سمیت پاکستان میں بہت خوشی کا اظہار کیا گیا، لیکن امریکہ نے عظیم الشان اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب بنا کر پیش کیا کہ یہ اب عربوں کے تخت بہا لے جائے گا، ملی یکجہتی کونسل نے اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے یہ پلیٹ فارم بنایا، تاکہ آپس کے اختلافات ختم ہوں اور امت میں وحدت پیدا ہوسکے، لیکن ہم معیشت پر اکٹھے نہیں۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ سود کے نظام پر کھلم کھلا عمل ہو رہا ہے، پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے خلاف قوانین بن رہے ہیں، لیکن عالمی پریشر کی وجہ سے یہ سب رک نہیں رہا، فلسطین اور غزہ کی بربادی پر سب مجرمانہ طور پر دیکھ رہے ہیں، عرب کہتے رہے کہ حماس اور حزب اللہ ختم ہو جائے، ہم معاملات سنبھال لیں گے، لیکن پھر قطر بھی محفوظ نہ رہا، یہ درندہ صفت اسرائیل کا حملہ اب انقرہ و اسلام آباد تک بھی ہوسکتا ہے، سری لنکا، بنگلہ دیش اور اب نیپال کی صورتحال سب کے سامنے ہے، مودی بھی وطن عزیز میں یہ سب دوہرانا چاہتا تھا، لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی، حکومت سے کہنا چاہتا ہوں، لوگ اس غیر آئینی اور ناانصافی کے اقدامات سے تنگ ہیں، لوگ تمہارے کشکول سے بھی تنگ ہیں، لیکن رسول اکرم (ص) کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہونے دیں گے اور قادیانیوں کی بھی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس کانفرنس کا پیغام یہ ہے کہ قرآن و سنت بالا دست ہے، حکومت کو پیغام دیتا ہوں کہ عوام معاشی حوالے سے تنگ ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ناموس مصطفیٰ کے قانون میں تبدیلی نہیں ہونے دیں گے، ملی یکجہتی کونسل تحفظ ناموس رسالت کا ہراول دستہ ہے، اقلیتوں کی آڑ میں گستاخوں کو قانونی تحفظ نہیں لینے دیں گے۔ کانفرنس سے سربراہ جماعت اہل حرم مفتی گلزار نعیمی، وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین علامہ سید احمد اقبال رضوی، پیر غلام رسول اویسی، ڈاکٹر ضمیر اختر، مولانا طیب شاہ بخاری، مرکزی رہنماء ایم ڈبلیو ایم سید ناصر عباس شیرازی، رکن قومی اسمبلی انجینئر حمید حسین طوری، علامہ اختر عباس، سید فدا احمد شاہ، علامہ سید اکبر کاظمی، خواجہ مدثر محمود تونسوی، سید عبدالوحید شاہ و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ تمام مقررین نے جناب رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس کو مرکز وحدت مسلمین قرار دیتے ہوئے امت مسلمہ کو امت واحدہ بننے کی ضرورت پر زور دیا۔ مقررین نے مجلس وحدت مسلمین کی میزبانی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے انعقاد کو بھی خوش آئند قرار دیا۔

متعلقہ مضامین

  • گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملے کا خطرہ، پاکستان سمیت 16 ممالک کا اسرائیل کو سخت انتباہ
  • ترک و مصری وزرائے خارجہ کا رابطہ، غزہ کی صورتحال پر تشویش اور فوری جنگ بندی پر زور
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ڈیجیٹلائزیشن کو وقت کی ضرورت قرار دیدیا
  • وزیر اعظم شہباز شریف کی امیر قطر سے ملاقات، خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال
  • ’دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کی کوئی خودمختاری نہیں‘ نیتن یاہو کی پاکستان اور افغانستان پر تنقید
  • قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، اسرائیل دوبارہ اس پر حملہ نہیں کریگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
  • اسرائیل کے انسانیت کیخلاف جرائم کو روکنے کیلیے عرب ٹاسک فورس تشکیل دی جائے
  • اسرائیل کوکٹہرے میںلانااور صہیونی جارحیت روکنے کے اقدامات نہ کئے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی: وزیر اعظم شہبازشریف
  • وزیرِاعظم کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ، اسرائیل کی جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال