طالبان سے لڑنے والے دو ہزار افغان کمانڈوز کو برطانیہ کا پناہ دینے سے انکار
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
یہ خصوصی افغان یونٹس SAS اور SBS کے ساتھ مل کر خطرناک مشنز میں حصہ لیتے تھے۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کمانڈوز کو انتقامی کارروائیوں کا شدید خطرہ تھا۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی وزارتِ دفاع نے تصدیق کی ہے کہ برطانیہ کی خصوصی افواج نے 2,000 سے زائد افغان کمانڈوز کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں، حالانکہ ان کمانڈوز نے افغانستان میں برطانوی فوج کے ساتھ مل کر جنگ لڑی تھی۔ یہ خصوصی افغان یونٹس SAS اور SBS کے ساتھ مل کر خطرناک مشنز میں حصہ لیتے تھے۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کمانڈوز کو انتقامی کارروائیوں کا شدید خطرہ تھا۔ برطانیہ کی جانب سے انہیں دوبارہ بسانے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن تمام درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ عدالت میں یہ بات سامنے آئی کہ وزارت دفاع کو معلوم تھا کہ انکار کی پالیسی میں خامیاں ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی آزادانہ جائزہ نہیں لیا گیا۔ کئی افغان کمانڈوز ابھی تک فیصلے کے انتظار میں ہیں، اور کچھ کو طالبان کے ہاتھوں قتل یا تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
برطانوی خصوصی افواج اس وقت افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کی زد میں ہیں۔ "ٹرپلز" یونٹ کے ارکان کے پاس ممکنہ طور پر ایسے ثبوت موجود ہیں جو اس تحقیقات میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کچھ برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ اور سابق افسران کا کہنا ہے کہ UKSF نے جان بوجھ کر درخواستیں روکی ہیں تاکہ یہ کمانڈوز جنگی جرائم کی گواہی نہ دے سکیں۔ افغان کمانڈوز کے وکلا نے برطانوی وزارتِ دفاع کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وزارت دفاع اپنے فیصلے کی شفافیت کو واضح کرے اور نظرثانی کے عمل کو تیز کرے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: افغان کمانڈوز
پڑھیں:
پاکستان نے افغان طالبان کو تسلیم کرنے کی خبروں کو قیاس آرائی قرار دے کر مسترد کر دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2025ء) جمعرات کے روز ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جب سوالات کیے گئے تو انہوں نے کہا، ’’اس وقت یہ سب قیاس آرائی ہے۔ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔‘‘
جب پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور وزیر داخلہ محسن نقوی کے افغانستان دورے سے متعلق سوال کیا گیا تو شفقت علی خان کا کہنا تھا کی سکیورٹی کے معاملات، خاص طور پر افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا معاملہ، ان مذاکرات میں سرفہرست تھے۔
انہوں نے کہا، ’’جب وزیر داخلہ کسی ملک کا دورہ کرتے ہیں تو سکیورٹی معاملات ان کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
ان دوروں کے دوران نہ صرف وزیر داخلہ کی سطح پر بلکہ سیاسی سطح پر بھی افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا مسئلہ بنیادی موضوع رہا۔ اس پر بات چیت جاری ہے اور یہ دونوں ممالک کے درمیان جاری باقاعدہ مکالمے کا حصہ ہے۔
‘‘ قیاس آرائیاں کیوں؟افغانستان کی عبوری حکومت کو اسلام آباد کی جانب سے تسلیم کرنے کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ پاکستانی وزیر داخلہ وزیر محسن نقوی کے اتوار کے روز کابل کا دورہ کے بعد شروع ہوا۔ جہاں انہوں نے اپنے افغان ہم منصب سراج الدین حقانی سے ملاقات کی۔
پاکستانی وزیر داخلہ کا کابل کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے، مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کی بحالی اور سفارت کاروں کو چارج ڈی افیئرز کے عہدے سے سفیر تک اپ گریڈ کرنے جیسے اقدامات کے اعلان بعد ہوا۔
رواں ماہ کے اوائل میں دونوں ممالک نے ایڈیشنل سیکرٹری سطح کے میکنزم مذاکرات کا آغاز بھی کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ہی پاکستان، ازبکستان اور افغانستان نے کابل میں ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے پروجیکٹ کے لیے مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈی کے فریم ورک کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
’دہشت گردی کے خلاف طالبان حکومت کا ردعمل مثبت‘پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے دہشت گردی کے حوالے سے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ افغان طالبان افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پناہ گاہوں کے بارے میں پاکستان کے تحفظات پر مثبت ردعمل دکھا رہے ہیں، جو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات میں بہتری کی امید کی ایک محتاط جھلک ہے۔
بریفنگ کے دوران ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ’’دہشت گردوں کو حاصل پناہ گاہیں ایک بڑی رکاوٹ ہے، دونوں ممالک کے درمیان اس بارے میں فعال بات چیت جاری ہے اور افغان فریق ہمارے تحفظات کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی مبینہ موجودگی اسلام آباد اور طالبان حکومت کے درمیان طویل عرصے سے تنازع کا باعث بنی ہوئی ہے، 2021 میں طالبان کے کابل میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان ان پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو پناہ دے رہے ہیں۔
تاہم طالبان رہنما اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ برسوں میں تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں، اور پاکستان خبردار کرتا رہا ہے کہ سرحد پار سے جاری عسکریت پسندی تعلقات کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے، تاہم نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کے اپریل میں کابل کے دورے کے بعد تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی۔
پاک، افغانستان تجارتپاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے حوالے سے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی بڑی اہمیت ہے، تاہم لاجسٹکس اور کسٹمز سے متعلق مسائل نے تجارت کو متاثر کیا ہے۔
شفقت علی خان کا کہنا تھا، ’’متعدد مسائل جیسے لاجسٹکس، کسٹمز اور طریقہ کار وغیرہ نے تجارت پر اثر ڈالا ہے۔ ان سب پر کام ہو رہا ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس سے تجارت میں پیش رفت ہو رہی ہے۔‘‘
اس دوران پاکستان اور افغانستان نے ابتدائی ہارویسٹ پروگرام کے تحت آٹھ زرعی اشیاء پر 35 فیصد تک ٹیرف میں رعایت دینے پر اتفاق کیا ہے، اور جامع ترجیحی تجارتی معاہدہ (پی ٹی اے) کے لیے مذاکرات شروع کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔
ج ا ⁄ ص ز نیوز ایجنسیوں کے ساتھ