قرآن ہمارا عقیدہ پر ایک تبصرہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: زیر نظر کتاب میں کیا ہے، اس پر شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رح) کا ایک فقرہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے، جو تقریظ کا حصہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "اس کتابچہ میں شیعوں پر تحریف قرآن کے بہتان اور تہمت کو رد کرنے کیلئے شیعہ اور غیر شیعہ علماء کے اقوال جمع کیے ہیں۔" کتاب کے آخر میں ان مآخذ کی بھی فہرست دی ہے، جن سے مطالب پر مشتمل حوالے زیر نظر کتاب میں دیئے گئے ہیں۔ گو کہ کتاب مختصر ہے، مگر اپنے دامن میں ایک جہاں لیے ہوئے ہے۔ تبصرہ: سید نثار علی ترمذی
یہ ثاقب اکبر مرحوم کی دوسری کتاب ہے، جو بطور "ثاقب نقوی" ان کی آخری کتاب ہے۔ آپ نے فروری 1995ء میں ثاقب نقوی کے بجائے ثاقب اکبر بطور قلمی نام اپنا لیا تھا۔ کتاب کے مشخصات (کتاب، قرآن ہمارا عقیدہ، مؤلف، ثاقب نقوی، اشاعت اول 1987ء، ناشر، مکتبہ الرضا، لاہور، صفحات- 80، قیمت 15 روپے)۔ اس کتاب کو "ہفتہ نزول قرآن 22 سے 28 رمضان المبارک 1408ھ" کی مناسبت سے شائع کیا گیا۔ اس کتاب میں علامہ عارف حسین الحسینی ؒاور علامہ سید ساجد علی نقوی کی تقاریظ شامل ہیں۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ تقریظ میں یوں رقم طراز ہیں: "برادر محترم ثاقب نقوی خداوند متعال ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے، انہوں نے اپنے اس کتابچہ میں شیعوں پر تحریف قرآن کے بہتان اور تہمت کو رد کرنے کے لیے شیعہ اور غیر شیعہ علماء کے اقوال جمع کیے ہیں۔ یہ ایک مثبت اور مستحسن اقدام ہے۔ عربی اور فارسی زبان میں تو عدم تحریف قرآن پر کافی کتابیں اور مقالے موجود ہیں، لیکن اردو میں نسبتاً کم ہیں۔ صاحبان فکر و قلم کو چاہیئے کہ اس استعماری سازش کو جو شیعہ قوم کے خلاف کھڑی کی گئی ہے اور پورے ملک میں طوفان برپا کر دیا گیا، ناکام بنانے کے لیے وسیع طور پر مدلل انداز میں لوگوں کو حقائق سے روشناس کرائیں۔"
شہید ؒنے جہاں اس کتابچہ کے ماخذ پر بات کی ہے، وہیں اس موضوع پر کام کرنے کے پس منظر پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ شہید ؒ کے دور میں فرقہ واریت کے غلیظ پروپیگنڈا نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ جاہل دشمن جسے شہیدؒ نے استعمار کا عنوان دیا ہے، قرآن مجید کے حوالے سے تحریف کے الزامات لگانا شروع کر دیتا ہے۔ اس سے جہاں وہ عوام کو ورغلانے میں کسی حد تک کامیاب رہتا ہے، وہیں وہ دشمنان اسلام کے ہاتھ میں ایک مضبوط دلیل تھما دیتا ہے اور برملا کہتے ہیں کہ جب اسلام کا بڑا مسلک تحریف قرآن کا قائل ہے تو یہ الہیٰ کتاب کس طرح محفوظ تصور کی جا سکتی ہے۔ اس طرح یہ دشمن کو فائدہ پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ناعاقبت اندیش دشمنوں کو عقل دے، آمین ثم آمین۔ شہید ؒ نے یہ روش اپنائی تھی کہ مخالف کے غلیظ الزامات کے ردعمل کے طور پر اس کے بخیے ادھیڑ دیئے جائیں کی بجائے اپنا موقف مثبت و مدلل انداز میں پیش کیا جائے۔ یہ کتابچہ اس کی ایک مثال ہے۔
علامہ سید ساجد علی نقوی، جو اس وقت تحریک جعفریہ کے مرکزی سینیئر نائب صدر تھے، وہ تقریظ میں لکھتے ہیں: "ہمارے عزیز اور نہایت محنتی نوجوان ثاقب نقوی کی اس سلسلے میں مساعی بہت قابل قدر ہیں۔ انھوں نے بڑی عرق ریزی سے مفید حوالہ جات کے ساتھ ایک کتاب مرتب کی ہے اور عقلی دلائل میں ان کا اپنا خاص انداز بیان اور زور کلام بھی اس میں موجود ہے۔ امید ہے کہ اس کوشش کا اتحاد اسلامی کی راہ میں ایک مفید قدم کے طور پر استقبال کیا جائے گا اور بالخصوص نوجوان اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس کے مقاصد و مطالب کے فروغ کے لیے جدوجہد کریں گے۔" آپ مزید لکھتے ہیں کہ "موجودہ دور میں تحریف قرآن کے الزام کو اچھالنے کا ایک بھیانک پس منظر ہے، جس کی طرف اس کتاب میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ تعصب کی بنا پر کسی کو الزام دینا بھی برا ہے، لیکن اسلام دشمنوں اور سامراجی طاقتوں کی اشارے پر ایسا کرنا بدترین اور قبیح ترین جرم ہے۔"
مؤلف کتاب ثاقب نقوی نے" آغاز سخن" میں اس کتاب کی تالیف کی غرض و غایت بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مدیر اعلیٰ ہفت روزہ رضاکار نے اس کا تقاضا کیا تھا کہ قرآن مجید کے حوالے سے کچھ لکھوں۔ ہفت روزہ رضا کار 1938ء سے 2004ء تک مسلسل لاہور سے شائع ہوتا رہا ہے۔ اس اخبار نے قومیات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کاش یہ قوم اپنے اثاثوں کو بچانے کی فکر کرتی۔ آپ نے اس حوالے سے مزید لکھا کہ: "اس سلسلے میں جب سوچنے لگا تو بار بار ذہن اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوا کہ ایک طبقہ آج کل قرآن جیسی اسلام کی بنیادی دستاویز کو مسلمانوں میں اختلافی ثابت کرنے پر تلا بیٹھا ہے اور اس منحوس غرض کی تکمیل کے لیے وہ بے پناہ دولت صرف کرکے منفی تبلیغات میں مصروف ہے۔ اس کا زور بیان و قلم خاص طور پر اس نکتے پر صرف ہو رہا ہے کہ بقول اس کے" اہل تشیع قرآن میں تحریف کے قائل ہیں، وہ تمام مسلمانوں کے پاس موجودہ قرآن پر یقین نہیں رکھتے۔"
آپ نے غلیظ پروپیگنڈا کے بھیانک نتائج کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "غور کیا جائے تو اس سارے پراپگنڈا کا فائدہ اسلام دشمنوں کو پہنچتا ہے۔ اس مبنی بر دروغ پروپگنڈا سے اسلام کی تبلیغ کو نقصان پہنچتا ہے۔ آخر سوچنے کی بات ہے کہ جب اسلام کی بنیادی کتاب ہی مسلمانوں کے ہاں مشکوک اور اختلافی ہو جائے تو وہ غیر مسلموں کے سامنے کس اعتماد اور برتے پر اسلام کو پیش کرسکتے ہیں۔ کیا دشمن نہ کہیں گے کہ تم کس اسلام کی بات کرتے ہو، جبکہ اسلام کی بنیادی اور اساسی کتاب تو خود تمہارے ہاں اختلافی ہے۔؟" برادر گرامی سید ثاقب اکبر نے شیعوں پر تحریف قرآن کے الزام کا رد زندہ مثالوں سے بھی دیا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں: "لاریب شیعوں کے گھروں، مسجدوں اور امام بارگاہوں میں تو وہی قرآن ہے، جو ان کے سنی بھائیوں کے پاس ہے۔ شیعہ تو نماز میں اور نماز کے علاوہ اسی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، جس کی سنی حضرات کرتے ہیں۔ شیعوں کی محفلوں کا آغاز اسی قرآن کی تلاوت پاک سے ہوتا ہے، جو اہل تسنن کے ہاں پڑھا جاتا ہے۔
شیعوں کے گھروں اور مراکز میں اہل سنت کے اشاعتی اداروں کے چھپے ہوئے قرآن حکیم کے نسخے ہوتے ہیں اور انہی سے تلاوت کی جاتی ہے۔ شیعہ حفاظ کرام وہی قرآن پاک حفظ کرتے ہیں، جو اہل سنت کے محترم حفاظ حفظ کرتے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی اور محافل میں شیعہ قاریان کرام اسی قرآن کی قرات کرتے ہیں، جس کی اہل سنت کرتے ہیں۔ شیعہ اشاعتی اداروں سے وہی قرآن چھپتا ہے، جو سنی اداروں سے چھپتا ہے۔ شیعہ اسی قرآن کو منزل من اللہ مانتے ہیں، جسے اہل سنت مانتے ہیں۔ شیعہ اپنے سنی بھائیوں کی طرح اس موجودہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ پھر یہ پراپیگنڈا کیوں کیا جاتا ہے کہ شیعہ قرآن پاک میں تحریف کے قائل ہیں۔" ثاقب بھائی "نئی سازشیں" کے تحت موجودہ غلیظ پروپیگنڈا کے اسباب سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں: "اگر ان زہریلی کتابوں کو، جو شیعوں کے خلاف اس الزام سے آلودہ ہیں اور غور سے دیکھا جائے، ان جملوں اور الفاظ پر غور کیا جائے۔ اس سے اخذ کئے جانے والے نتائج پر نظر کی جائے تو بات صاف ہو جاتی ہے اور مسئلہ واضح طور پر دکھائی دینے لگتا ہے۔ ایسے ہر راگ کی تان ایران کے اسلامی انقلاب اور رہبر عالم امام خمینی کے خلاف ہرزہ سرائی پر آکر ٹوٹتی ہے۔ ایسے تمام الزامات اور دریدہ دہنوں کا ہدف یہی انقلاب ہی ہے۔"
یہ ابھی تک جو مسلمانوں کو لڑانے اور نفرتوں کی فصل کاشت کرنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں، اس کا بڑا ہدف انقلاب اسلامی ایران ہے۔ شیعہ سنی مسالک کے درمیان اختلاف کوئی آج کا تو مسئلہ ہے نہیں اور ان طرفین کی طرف سے جواب در جواب پر لائبریریاں بھری پڑی ہیں۔ اب جبکہ اسلام کی نشاط ثانیہ کے لیے دنیا بھر میں جدوجہد ہو رہی ہے اور مسلمان متحد ہو رہے ہیں تو اس موقع پر گڑھے مردے اکھاڑنے کا کیا مطلب ہے۔؟ اہل فکر و نظر کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ ثاقب بھائی نے ایک دعا سے "آغاز سخن" کا اختتام کیا ہے۔ دعا یہ ہے: "پروردگار کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ اس ناچیز کوشش کو اتحاد اسلامی کے فروغ کا ذریعہ قرار دے اور ہم سب مسلمانوں کو توفیق دے کہ ہم مل کر طاغوتی نظاموں سے نجات اور قرآن پاک کے پاکیزہ نظام حیات کے احیاء کے لیے جدوجہد کرسکیں، تاکہ صفحہ ارض سے ہر قسم کے ظلم و جور کا خاتمہ ہو اور عدل الہیٰ کی حکمرانی ہو۔"
ہم گواہ ہیں کہ ثاقب بھائی نے اپنی مذکورہ دعا کا پوری زندگی پاس رکھا۔ اسّی کی دہائی کی ابتدا کی بات ہے کہ آپ سی ڈی اے، اسلام آباد میں گریڈ سترہ کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ اسی دوران علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم نے تفسیر نمونہ کا ترجمہ شروع کیا تو ان کی نظر انتخاب مؤلف موصوف پر پڑی۔ آپ نے بھی قرآن مجید کی محبت میں یہ سرکاری ملازمت چھوڑ دی اور تفسیر نمونہ کے ترجمے کی اصلاح و نوک پلک درست کرنے میں لگ گئے۔ ستائیس جلدوں میں سے بیس جلدیں آپ کے قلم کی روشنائی سے منظر ظہور پر آئیں۔ 1995ء میں جب آپ قم المقدس سے وطن تشریف لائے تو "اخوت اکیڈمی" کی بنیاد رکھی۔ اس کا بنیادی مقصد اتحاد و وحدت امت کے لیے علمی و عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ آغاز ہی میں یہ طے پایا کہ تمام اراکین اخوت اکیڈمی، پاکستانی یونیورسٹیوں سے اسلامی علوم میں پی ایچ ڈی کریں گے۔
اس فیصلے کی روشنی میں مؤلف موصوف نے اپنے لیے مسئلہ تحریف قرآن برائے پی ایچ ڈی کے پسند کیا۔ اس کے لیے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور بہاولپور یونیورسٹی سے رابطے کیے گئے۔ بہاول پور میں یہ موضوع برائے تحقیق منظور ہوگیا۔ اس کے لیے ابتدائی اسناپسز (synapsis) تیار ہوگئے۔ راقم سے خواہش کی گئی کہ پنجاب یونیورسٹی سے مقالہ جات مہیا کیے جائیں، جس کی تعمیل کی گئی۔ اس کے لیے ملتان میں بھی آفس قائم کیا گیا۔ دیگر وجوہات کے علاؤہ یونیورسٹی کے پروفیسرز کی دن بدن بڑھتی فرمائشوں سے عاجز آکر اس "بھاری پتھر" کو چوم کر چھوڑ دیا۔ دوسری اہم بات یہ کہ اخوت اکیڈمی کے دانشوروں نے یہ فیصلہ کیا کہ قرآن مجید کی ترویج کے لیے شعوری کوششیں کی جائیں۔ علوم و تفسیر قرآن کے فروغ کے لیے سہ ماہی مجلہ "المیزان" جاری کیا گیا، جسے حکومت پنجاب نے یونیورسٹیوں، کالجوں، اسکولوں و پبلک لائبریریوں کے منظور کیا۔ اس کے نو شمارے شائع ہوئے۔ پھر کیا ہوا یہ کہانی پھر سہی۔
اس کے علاؤہ ایک تفسیر قرآن مجید لکھنے کا پروگرام بنایا گیا، جس کے لیے ضروری مواد کی جمع آوری کی گئی۔ ایک ٹیم مقرر کی گئی، جو گہرے مطالعے کے بعد ہر آیت کی تفسیر لکھے۔ مزید برآں یہ بھی طے کیا گیا کہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے نام سے اسے شائع کیا جائے۔ ٹیم اپنی نشست میں تفسیر کو حوالہ جات کے ساتھ لکھتی اور آخر میں علامہ موصوف سے جا کر بحث و مباحثہ کے بعد فائنل کی جاتی۔ یہ کام بااحسن جاری تھا کہ ۔۔۔۔۔ پھر کیا ہوا کہ بات نہیں بتانے کی۔ یوں یہ کام پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ ثاقب نقوی مرحوم نے قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھا۔ ایک مرتبہ بتایا کہ کہ اسّی فیصد کے قریب وہ قرآن مجید کی تفسیر لکھ چکے ہیں۔ اس کے علاؤہ آپ نے قرآن مجید کے حوالے سے شاعری کی اور دیگر شعراء کرام کو ترغیب دی۔ مزید برآں ان کتب کے تراجم و تصانیف بھی مؤلف کتاب ہذا کے نامہ اعمال میں درج ہے۔
1۔ پیام قرآن، تین جلدیں، ترجمہ
2۔ ولایت در قرآن، ترجمہ
3۔ حج در قرآن، اصلاح
4۔ ذلیخا عشقِ مجازی سے عشق حقیقی تک، تصنیف
5۔ حروف مقطعات، تصنیف
6- مقدمات معرفت قرآن، زیر طباعت
7۔ مطالب قرآن، زیر طباعت
ان کے علاؤہ ماہنامہ پیام کے قرآن نمبر، قرآنی موضوعات پر مضامین اور خطابات بھی ذخیرہ ثاقب میں موجود ہیں۔ ان کے فرزند ڈاکٹر علی عباس، جو اس وقت البصیرہ کے چیئرمین بھی ہیں، قرآنیات میں تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں۔ وہ دو دہائیوں سے قرآنیات کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر علی عباس ادارہ "التنزیل" کے مؤسس ہیں، جن کی کتب مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں، حاضر و آن لائن کلاسز کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے، نیز وفاق المدارس شیعہ سمیت متعدد دیگر تعلیمی اداروں کے سلیبس میں التنزیل کی کتب شامل ہیں۔ زیر نظر کتاب میں کیا ہے، اس پر شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رح) کا ایک فقرہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے، جو تقریظ کا حصہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "اس کتابچہ میں شیعوں پر تحریف قرآن کے بہتان اور تہمت کو رد کرنے کے لیے شیعہ اور غیر شیعہ علماء کے اقوال جمع کیے ہیں۔" کتاب کے آخر میں ان مآخذ کی بھی فہرست دی ہے، جن سے مطالب پر مشتمل حوالے زیر نظر کتاب میں دیئے گئے ہیں۔ گو کہ کتاب مختصر ہے، مگر اپنے دامن میں ایک جہاں لیے ہوئے ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ عارف حسین الحسینی شیعوں پر تحریف قرآن کے زیر نظر کتاب میں قرآن مجید کے ثاقب نقوی کرتے ہیں اسلام کی کیا جائے تحریف کے حوالے سے کے علاؤہ اہل سنت کیا گیا اس کتاب میں ایک کرنے کے کیا ہے کے لیے کی گئی ہے اور ہیں کہ کی طرف کی بات
پڑھیں:
کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
اسلام ٹائمز: محفل کے اختتام پر شرکائے تقریب کے تاثرات ایک جیسے تھے۔ یہ صرف ایک کتاب کی رونمائی نہیں بلکہ پیغامِ غدیر کی نئی بیداری تھی۔ علمائے کرام، ادبا، دانشور، صحافی، سماجی و تعلیمی شخصیات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس تقریب کو نہایت کامیاب، فکرساز، تعمیری اور منفرد قرار دیا۔ آخر میں مقررین نے جامعۃ النجف کی انتظامیہ کو اس عظیم علمی اجتماع کے انعقاد پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ محفل ختم ہوئی مگر اس کی روحانی بازگشت ابھی تک حاضرین کے دلوں میں تھی۔ جیسے غدیر کا پیغام ایک بار پھر ایمان کی سرزمین پر اتر آیا ہو۔ واقعہ نگار: آغا زمانی
سکردو کی روح پرور فضا میں اس دن ایک علمی و روحانی کہکشاں سجی ہوئی تھی۔ جامعۃ النجف کے وسیع و پرنور ہال میں اہلِ علم و دانش، طلاب، اساتذہ، ادبا اور محققین کا ایک خوبصورت اجتماع برپا تھا۔ ہر چہرے پر تجسس اور خوشی کی جھلک تھی، کیونکہ آج یہاں اس کتاب کی رونمائی ہونی تھی، جس نے دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں اپنا پیغام پھیلایا۔ اس کتاب کا نام ہے ''غدیر کا قرآنی تصور، تفاسیر اہلسنت کی روشنی میں۔'' یہ کتاب جو حجۃ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی کی فکری و قرآنی جستجو کا نچوڑ ہے، اپنی معنویت اور عالمگیر پیغام کی بدولت ایک تاریخی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اس کا سلیس اردو ترجمہ حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ محمد علی توحیدی نے انجام دیا ہے، جس نے اسے اردو داں طبقے کے لیے ایک فکری ضیافت بنا دیا ہے۔
تقریب کا آغاز جامعۃ النجف کے گروہِ تلاوت نے نہایت خوش الحانی سے کلامِ ربانی کی تلاوت سے کیا۔ تلاوت کے بعد مشہور نعت خواں، فرزندِ قائد بلتستان (علامہ شیخ غلام محمد غروی رح) مولوی غلام رضا نے اپنی پراثر آواز میں بارگاہِ رسالت میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے تو فضا درود و صلوات سے گونج اٹھی۔ پھر بلتستان یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صابر نے کتاب پر اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔ ان کے لہجے میں ایک محقق کا شعور اور مومن کا یقین جھلک رہا تھا۔ کہنے لگے: یہ کتاب محض ایک علمی تصنیف نہیں بلکہ انسانِ مومن کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ غدیر سے دوری دراصل نظامِ حیات سے دوری ہے اور پاکیزہ زندگی کا راز غدیر سے تمسک میں پوشیدہ ہے۔
اس کے بعد حجۃ الاسلام سید سجاد اطہر موسوی نے نہایت خوبصورت منظوم کلام کے ذریعے کتاب کے موضوع پر اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ ان کے اشعار نے فضا کو وجد و کیف سے بھر دیا۔ سابق سینیئر وزیر حاجی محمد اکبر تابان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ ڈاکٹر یعقوب بشوی کی علمی کاوش قوم کے فکری سرمایہ میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ان کے بعد معروف ادیب اور تاریخ دان محمد حسن حسرت نے کتاب کے فکری پہلوؤں پر مدلل تبصرہ کیا اور اس کی تحقیقی گہرائی کو سراہا۔
اسی سلسلے میں معروف محقق محمد یوسف حسین آبادی نے واقعۂ غدیر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: غدیر کسی مخصوص دور کا پیغام نہیں بلکہ ہر زمانے کے انسان کے لیے ہدایت کا منشور ہے۔ تقریب کے روحانی اوج پر حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید محمد علی شاہ الموسوی فلسفی نے کتاب پر عالمانہ اور فلسفیانہ نقد پیش کیا۔ ان کی گفتگو علم و عرفان کی گہرائیوں میں اترتی محسوس ہوئی۔
جامعۃ النجف کے استاد، برجستہ محقق اور معروف عالم دین شیخ سجاد حسین مفتی نے کتاب پر نہایت دقیق، عمیق اور فکری تجزیہ پیش کیا۔ ان کی گفتگو نے سامعین کو مسحور کر دیا اور ہال درود سے گونج اٹھا۔ یہ تقریب نہ صرف ایک کتاب کی رونمائی تھی بلکہ غدیر کے ابدی پیغام کی تجدیدِ عہد بھی تھی۔ علم و عشق کے سنگم پر سجی یہ محفل اس بات کا اعلان تھی کہ غدیر کی روشنی آج بھی انسانیت کو راستہ دکھا رہی ہے۔
جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے نمائندے محمد کاظم سلیم نے نہایت جامع اور مدلل انداز میں مختصر مگر پراثر خطاب کیا۔ ان کے چند الفاظ نے گویا محفل کے فکری رنگ کو اور بھی گہرا کر دیا۔ اس کے بعد محفل کے صدر، نائب امام جمعہ مرکزی جامع مسجد سکردو اور صدر انجمنِ امامیہ بلتستان، حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید باقر الحسینی نے خطبۂ صدارت پیش کیا۔ ان کا لہجہ محبت، علم اور تقدیس سے لبریز تھا۔ انہوں نے فرمایا: علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی کی یہ تصنیف ایک علمی معجزہ ہے، جو قرآن اور ولایت کے رشتے کو واضح کرتی ہے۔ مترجم علامہ شیخ محمد علی توحیدی نے اسے جس فصاحت اور وضاحت سے پیش کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ آغا باقر الحسینی نے مؤلف، مترجم، تمام مبصرین اور شرکائے محفل کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ ان کی دعا کے ساتھ فضا میں سکون اور نورانیت کی کیفیت پیدا ہوگئی۔
پھر اس علمی جشن کے مرکزی کردار، کتاب کے مصنف علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی ڈائس پر آئے۔ ان کے چہرے پر عاجزی اور شکر گزاری کی جھلک نمایاں تھی۔ مدبرانہ اور پرعزم لہجے میں فرمایا: اس کتاب کا مقصد صرف ایک علمی خدمت نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی ذمہ داری کا اعلان ہے۔ آٹھ ارب انسانوں تک پیغامِ غدیر پہنچانا ہم سب کا فریضہ ہے۔ یہ کتاب اسی مشن کا ایک چھوٹا سا قدم ہے۔ انہوں نے تمام حاضرینِ محفل، علماء، دانشوروں اور منتظمین کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ یہ پیغام جلد پوری دنیا میں عام ہوگا۔
اس کے بعد مترجمِ کتاب حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ محمد علی توحیدی نے اپنے پرشوق اور بصیرت افروز انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ ان کی گفتگو میں علم کا وقار اور ایمان کا جوش ایک ساتھ جھلک رہا تھا۔ انہوں نے فرمایا: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن اعلانِ ولایت کے فوراً بعد فرمایا کہ جو یہاں موجود ہیں، وہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچائیں۔ افسوس کہ ہم اس ذمہ داری میں کوتاہی کرتے آئے ہیں۔ اگر ہر غدیری فرد صرف تین افراد تک یہ پیغام پہنچاتا تو آج پوری دنیا غدیری ہوتی۔ ان کا یہ جملہ ہال میں گونجتا رہا۔ حاضرین نے تائید میں سر ہلائے۔ انہوں نے مزید کہا: آج میڈیا کے دور میں پیغامِ غدیر کی ترویج نہ صرف ممکن بلکہ آسان ہے۔ اس کتاب کو کروڑوں کی تعداد میں شائع ہونا چاہیئے، تاکہ دنیا کے ہر کونے تک یہ نور پہنچے۔
تقریب کی نظامت کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے شیخ محمد اشرف مظہر نے انجام دیئے۔ ان کی سنجیدہ آواز اور متوازن گفتگو نے پورے پروگرام کو حسنِ ترتیب بخشا۔ محفل کے اختتام پر شرکائے تقریب کے تاثرات ایک جیسے تھے۔ یہ صرف ایک کتاب کی رونمائی نہیں بلکہ پیغامِ غدیر کی نئی بیداری تھی۔ علمائے کرام، ادبا، دانشور، صحافی، سماجی و تعلیمی شخصیات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس تقریب کو نہایت کامیاب، فکرساز، تعمیری اور منفرد قرار دیا۔ آخر میں مقررین نے جامعۃ النجف کی انتظامیہ کو اس عظیم علمی اجتماع کے انعقاد پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ محفل ختم ہوئی مگر اس کی روحانی بازگشت ابھی تک حاضرین کے دلوں میں تھی۔ جیسے غدیر کا پیغام ایک بار پھر ایمان کی سرزمین پر اتر آیا ہو۔