غزہ پر قبضہ: امریکی سفارت خانے ہدف ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
صدر ٹرمپ تاریخ کے طالب علم نہیں بلکہ کسی اکھاڑے کے پہلوان معلوم ہوتے ہیں۔ شاید اِسی لیے انہیں مسلمانوں کی تاریخ کا علم نہیں۔ بدر سے کربلا تک، یُرموک سے بیت المقدس تک، صلیبیوں کے خلاف جنگ سے جہاد افغانستان تک، سومناتھ سے غزنی تک، ناٹو کی شکست سے سوویت یونین کی تحلیل تک، بابری مسجد سے مسجد اقصیٰ تک اور مقبوضہ کشمیر سے مقبوضہ فلسطین تک کی تاریخ کا اگر امریکی صدر مطالعہ کرچکے ہوتے تو آج ارضِ فلسطین سے اہل ِ غزہ کو نکال دینے کی بہکی بہکی باتیں نہ کرتے۔ البتہ اگر صدر ٹرمپ کا یہ خیال ہے کہ آج کے مسلم حکمران اور جرنیل اُن کی جارحیت، دہشت گردی اور سینہ زوری کا مقابلہ نہیں کرپائیں گے تو ممکن ہے یہ بات درست ہو۔ اُمت بھی یہ سمجھتی ہے کہ مسلم حکمرانوں میں اب شاہ فیصل، امام خمینی، صدام حسین اور ملا عمر جیسا کوئی نہیں رہا جبکہ محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر، سلطان محمود غزنوی، ٹیپو سلطان اور جنرل ضیا الحق جیسا کوئی سپہ سالار بھی باقی نہ بچا۔ تاہم صدر ٹرمپ اپنی اِس غلط فہمی کو دور کرلیں کیونکہ کمانڈ اور قیادت کا وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہنا ایک فطری عمل ہے جس کا تعلق زندگی اور منصب سے ہوتا ہے جو ہمیشہ عارضی رہے ہیں۔ اصل بات قوم کا زندہ رہنا ہے جبکہ الحمدللہ قوم کی کوکھ ابھی ہری بھری ہے، شیخ احمد یاسین، یاسر عرفات، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور حسن نصر اللہ جیسے کتنے ہی عظیم مسلم رہنما اور مجاہدین ہیں کہ جن کے نقش پا جہاد کے راستوں پر مشعلیں جلائے کھڑے ہیں۔ شہدا اسلام کا خون مقبوضہ کشمیر سے مقبوضہ فلسطین تک جہاں بھی گرا وہاں پر چراغ جل اُٹھے کہ جن کی روشنی میں بابری مسجد کا ملبہ اور بیت المقدس کا گنبد خضرا صاف دکھائی دینے لگے۔
اہل ِ غزہ محض عوام نہیں بلکہ ایک مضبوط عقیدے کے حامل مسلمان ہیں، انہیں اپنے آبائی وطن سے بھیڑ بکریوں کی طرح نکالا اور دھکیلا نہیں جاسکتا۔ بیت المقدس اِن کے درمیان عقیدہ توحید کی علامت اور نبی آخر الزماں نبی اکرمؐ کے سفر معراج کی پہلی منزل
اور سجدہ گاہ ہے، اِس کے دروازے پر خلیفہ دوم امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کے دستک کی آواز اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی یلغار کی آوازیں آج بھی اہل فلسطین کو سنائی دے رہی ہیں۔ یہ اُمت کی امانت ہے اور شہدا اسلام کی آرام گاہ، انبیا علیہم السلام کی سرزمین اور آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے جس پر کوئی ڈیل یا سودے بازی نہیں ہوگی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دجالی ریاست ’’اسرائیل‘‘ اِس مقدس سرزمین پر یہود و نصاریٰ کا ایک ناجائز قبضہ اور ناپاک وجود ہے جس کو ہر صورت ختم کرایا جائے گا۔ لہٰذا صدر ٹرمپ اگر اہل غزہ سے زبردستی اُن کا وطن چھین کر بزور طاقت غزہ کی پٹی کو ہانگ کانگ اور بیروت جیسے عیاشی کے مرکز میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو یہ اُن کی خام خیالی ہے، اُن کی شیطانی سوچ ایسا سوچ سکتی ہے مگر عملاً ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ مسلم حکمرانوں اور مسلم جرنیلوں کی بزدلی اور ضمیر فروشی سے امت مسلمہ کا کوئی تعلق نہیں، دنیا میں موجود ڈھائی ارب مسلمان اپنا فیصلہ خود کریں گے جبکہ اس یقینی فیصلے کی ’’ریڈ لائن‘‘ بھی ہم ابھی سے صدر ٹرمپ کو بتائے دیتے ہیں تا کہ کل کلاں وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ مجھے خبر نہیں تھی۔ خبر یہ ہے کہ اگر اہل غزہ کو سرزمین فلسطین سے نکالنے کی کوشش کی گئی تو اُس کے بدلے میں مسلم ممالک میں موجود تمام امریکی سفارت خانے ہدف ہوں گے، تمام عالم اسلام میں کوئی امریکی سفارت خانہ اِس حالت میں نہیں بچے گا کہ اُس پر امریکا کا جھنڈا لہرا سکے۔ بہرحال یہ اختیار اب صدر ٹرمپ کا ہے کہ وہ جو فیصلہ اور راستہ اختیار کریں؟
اے اللہ… مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
امریکی کمپنیاں بھارتی شہریوں کو ملازمت پر نہ رکھیں، ٹرمپ کی ہدایت
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی اے آئی سمٹ کے دوران بڑی ٹیک کمپنیوں جیسے گوگل اور مائیکروسافٹ کو سخت پیغام دیا ہے کہ وہ بیرون ملک، خاص طور پر بھارت سے ملازمین رکھنے کا سلسلہ بند کریں اور صرف امریکی شہریوں کو روزگار دیں۔
ٹرمپ نے سیلیکون ویلی کے عالمی نظریے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمپنیاں امریکی آزادی کا فائدہ اٹھا کر اپنی فیکٹریاں چین میں لگا رہی ہیں، ملازمین بھارت سے بھرتی کر رہی ہیں، اور منافع آئرلینڈ میں چھپا رہی ہیں۔
ٹرمپ نے واضح کیا کہ ’’اب ایسا نہیں چلے گا۔ ہمیں امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں سے وفاداری اور محب الوطنی چاہیے۔‘‘
ٹرمپ نے تین اہم ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے، اس پالیسی کے تحت ریگولیشنز کو کم کیا جائے گا، ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر تیز کی جائے گی، اور امریکہ کو مصنوعی ذہانت میں دنیا کا لیڈر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
جو بھی کمپنی حکومتی فنڈ حاصل کرے گی، اسے ’’غیر جانب دار‘‘ اے آئی بنانا ہوگی۔ ’’ووک‘‘ اور سیاسی رجحانات رکھنے والی اے آئی پر مکمل پابندی لگے گی۔
مکمل امریکی ساختہ اے آئی ٹیکنالوجی کو دنیا بھر میں فروخت کرنے پر زور دیا جائے گا تاکہ امریکا عالمی اے آئی مارکیٹ پر چھا جائے۔
ٹرمپ کے ان بیانات سے واضح اشارہ ملا ہے کہ بھارتی آئی ٹی پروفیشنلز اور آؤٹ سورسنگ کمپنیوں کو سخت چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ مستقبل میں امریکی ٹیک جابز غیر ملکی افراد کے لیے محدود ہو سکتی ہیں، جس سے عالمی آؤٹ سورسنگ ماڈل متاثر ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے مصنوعی ذہانت (AI) کے نام پر بھی اعتراض کیا اور اسے "جینیئس ٹیکنالوجی" کہنے کا مشورہ دیا، تاکہ امریکی اختراع کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔