Jasarat News:
2025-11-03@18:10:24 GMT

’’مظلوم کشمیری‘‘ صاحب سے ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

’’مظلوم کشمیری‘‘ صاحب سے ملاقات

حضرت مظلوم کشمیری سے یہ دہائیوں بعد ہونے والی ملاقات تھی۔ حضرت مظلوم کشمیری سے تین عشروں سے زیادہ کا تعلق ہے۔ اس تعلق پر اکثر وقت کی گرد جمی رہتی ہے اور کبھی مدتوں بعد بادِ صبا کا کوئی جھونکا اس گرد کو اُڑا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کا شوق کہ ’’کون سی وادی میں ہے کون سی منزل پہ ہے، عشق بلا خیز کا یہ قافلہ ٔ سخت جان‘‘ ہمیں ایک بار پھر مظلوم کشمیری کے دربار میں لے گیا۔ ایک روایتی صحافیانہ تجسس بھی تھا اور آنے والے حالات کا ایک خاکہ بنانے کی ضرورت بھی۔ حضرت مظلوم کشمیری نے بہت پرتپاک استقبال کیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد میرا ذہن حضرت سے ہونے والے پہلے انٹرویو تک جا پہنچا۔ بتیس سال پہلے کی بات ہے جب ایک وسیع کمرے کی فرشی نشست پر حضرت سے انٹرویو کر رہا تھا۔ کشمیر کی مسلح جدوجہد کو چار پانچ سال کا عرصہ ہی گزرا تھا۔ غالباً جون 1994 کے دن تھے۔ طویل انٹرویو کے آخر میں مَیں نے پوچھا تھا کہ یہ سفر کیسا رہا حضرت نے ایک محاورے میں اس کا جواب دیا۔ کریوٹھ میوٹھ زیوٹھ (کڑوا میٹھا اور طویل) اب تو بتیس سال بعد بھی یوں لگ رہا ہے کہ سفر واقعی طویل ہوگیا ہے۔ میں نے یہ جملہ یاد دلاتے ہوئے پوچھا کہ آپ کو اس وقت اندازہ تھا کہ سفر اتنا طویل ہوگا؟ حضرت کے جواب کا خلاصہ کچھ یوں تھا اگر انہیں یہ اندازہ ہوتا کہ حالات اس رخ چل پڑیں گے تو شاید اپنا فیصلہ لینے سے پہلے کچھ اور سوچتے۔ حضرت اب تہی دست اور تہی دامن ہیں اور اب ان کے پاس کہنے، فخر کرنے کو صرف یہ مصرعہ بچا ہے

ہر داغ ہے اس دل میں بجُز داغِ ندامت

ان کے پاس اپنے اور پرائیوں کے چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب نہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ توڑ نہیں نبھا سکتے تھے تو پھر ہمیں خواب نگر کی تاریک اور دلدلی مسافتوں کی نذر کیوں کیا تھا؟ مظلوم کشمیری کے مطابق کشمیریوں کی بدبختی کا آغاز جنرل پرویزمشرف کے دور میں ہوا جب کشمیریوں کو بتادیا گیا اب پاکستان آپ کی مزید عملی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھ متعدد ملاقاتوں سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی حکومت کشمیریوں کی عملی مدد سے ہاتھ کھینچ چکی ہے مگر سانحہ یہ ہو اکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں کشمیر ہی سے ہاتھ کھینچ لیا گیا اور عملی طور پر لاتعلقی کے مطالبے کو قبول کر لیا گیا جس کے بعد ہی پانچ اگست کا فیصلہ ممکن ہوا۔ اب کیا ہوگا؟ مظلوم کشمیری سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں۔ مظلوم کشمیری صاحب سے پوچھا کہ اب کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے جواب سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مظلوم صاحب بھی عملی طور پر نظر بندی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب کی آزاد اُڑانوں کے موسم اور دن لد گئے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی عجائب خانے میں رکھی ہوئی ایسی اشیاء ہیں جو وقت اور حالات کے بازار میں متروک نادر اور نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ عجائب خانے کے شیلف میں کچھ حالات کی نمی کچھ وقت کی طوالت کی زنگ اور کچھ اندرونی شکست وریخت ان نادر ونایاب اشیاء کو خود ہی اپنے انجام تک پہنچا دے گی۔ مظلوم صاحب کے پاس کوئی نسخہ کوئی وظیفہ اور منتر ایسا نہیں کہ حالات کا دھارا بدلا جا سکے۔ ان کی باتوں میں احساس ِ زیاں اور دھوکا ہوجانے کا غم نمایاں تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ اگلے مورچوں پر کشمیر کا جہاد لڑ رہے ہیں تو انہیں باور کرایا جاتا تھا کہ دل برداشتہ نہیں ہوتے پراکسی جنگوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ مظلوم صاحب ایک بار اپنے ’’جہاد‘‘ کے لیے احباب کے منہ سے ’’پراکسی وار‘‘ کی اصطلاح سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ ایک درد وکرب کی کہانی تھی جو میں نے پہلی بار سنی تھی مگر میں نے 1993,94 میں اسی صفحے پر کشمیر کا ’’غلام اعظم‘‘ اور کشمیر کا انگور کے عنوان سے لکھا تھا کہ بھائیو کسی روز آپ اچانک حالات زمانہ کا شکار ہوجائو گے جب آپ پیچھے مڑ کر دیکھو گے تو قدم بڑھائو کے نعرے لگانے والے غائب ہو چکے ہوں گے۔ یہ کشف وکرامت نہیں تاریخ کا سبق تھا اور تاریخ کو جاری حکمت عملی سے جوڑکر تصویر بنانے کی کوشش تھی۔

مظلوم صاحب کے ساتھ ڈھائی گھنٹے سے زیادہ وقت پر محیط نشست کے بعد اجازت لی تو الوداعی معانقہ کرتے ہوئے میرا تاثر تھا کہ کنٹرول لائن کے اُس پار والے مظلوم کشمیری صاحب کنٹرول لائن کی اِس جانب ہونے والے سلوک کے باعث صرف مظلوم ہی نہیں مجبور کشمیری بھی بن چکے ہیں اور ان کی گفتگو میں ماضی کا ہر جلاوطن کشمیری حریت پسند جھانک رہا تھا۔

بالخصوص راولپنڈی کے انجمن فیض الاسلام کے احاطے میں آسودہ ٔ خاک کشمیری راہنما چودھری غلام عباس کی تقریر کا وہ شعر یا دآرہا ہے جب وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر تقریر کر رہے تھے تو حالات اور ریاست کی پالیسیوں سے ناراض نالاں دلبرداشتہ اور وقت کے عجائب خانے میں پڑے چودھری غلام عباس جنہیں رئیس الاحرار کا خطاب دیا گیا تھا اور جن کی آمد پر قائد اعظم نے گورنر جنرل ہائوس میں باہر آکر استقبال کیا تھا برسوں بعد جلسے میں کہہ رہے تھے۔

ہم نے جب وادیٔ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مظلوم کشمیری مظلوم صاحب نے والے تھا کہ

پڑھیں:

مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے ایک بیان میں منوج سنہا کی زیرقیادت ہندوتوا حکومت کی طرف سے اسلامی لٹریچر کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی۔ منوج سنہا کی زیر قیادت قابض انتظامیہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد سکولوں میں ہندوتوا نظریہ مسلط کرکے مقبوضہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنا ہے۔بھارتی پولیس نے سرینگر میں کتب فروشوں کیخلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 6 سوسے زائد دینی کتب ضبط کر لیں۔ ضبط شدہ تصانیف میں جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی اور تحریک آزاد ی کشمیر کے معروف قائد سید علی گیلانی شہید کی تصانیف شامل ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن روح اللہ مہدی نے بھی کتابوں کی ضبطی کو کھلا ریاستی جبر قرار دیتے ہوئے اسکی مذمت کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما التجا مفتی نے کہا کہ اب مقبوضہ جموں وکشمیرمیں معلومات تک رسائی کے بنیادی حق کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے بھارتی پولیس کی طرف سے اسلامی لٹریچر کے خلاف جاری کریک ڈائون کی مذمت کرتے ہوئے اسے مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے کہا کہ یہ اقدام ہندوتوا کی ذہنیت کا عکاس ہے جو مسلمانوں کی شناخت، تاریخ اور ثقافت کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے سکول بچوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کے لئے مجبور کرنے پر مودی حکومت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس حکم نامے کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعلیمی اداروں کے خلاف بی جے پی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ریاستی دہشت گردی قرار دیا ہے۔بی جے پی کی حکومت نے مقبوضہ علاقے کے تمام اسکولوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کا حکم دیا ہے تاکہ کشمیری مسلمان طلبا کو اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو ترک کرنے پر مجبورکیا جائے۔حریت ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس اقدام کا مقصد علاقے کی مسلم شناخت کو مٹانا اور مسلم اکثریت والے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ہندوتوا نظریہ مسلط کرنا ہے۔
1937ء میں ہونیوالے انتخابات کے بعد کانگریس نے کئی صوبوں میں اپنی حکومتیں قائم کیں تو انہیں اپنے انتہاپسندانہ نظریات مسلمانوں پر مسلط کرنے کا موقع میسر آگیا، اسی تناظر میں ایک حکمنامہ کے تحت تمام سکولوں میں بندے ماترم گانا لازمی قرار دے دیا جس کی قائداعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے شدید مزاحمت کی تھی۔ مسلمان اس فیصلہ کیخلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ بندے ماترم بت پرستی کا شاہکار اور مجموعی طور پر مسلمانوں کیخلاف اعلان جنگ ہے۔ ”بندے ماترم” ایک نفرت انگیز گیت ہے۔ اس کا پس منظر ایک ایسے ڈرامے سے جڑا ہوا ہے جس میں مرکزی نظریہ مسلمانوں کی مسجدوں کو برباد کرنا اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ یہ ان انتہا پسند ہندو تنظیموں کا نعرہ بھی رہاجو خانہ کعبہ پر قبضہ کر کے وہاں ”اوم” لکھنا چاہتے تھے۔ اس میں درگا دیوی کو ماں کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سرکاری سکولوں میں آٹھویں جماعت تک کشمیری زبان کی نصابی کتابوں کی جان بوجھ کر عدم دستیابی نے ماہرین تعلیم میں بڑے پیمانے پر تشویش کو جنم دیا ہے۔ معاملے کو کشمیر کی تہذیب و ثقافت کو مٹانے کے مذموم بھارتی منصوبے کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔جاری تعلیمی سیشن میں طلباء کا کشمیری مضمون کا امتحان بھی لیا گیا لیکن اسکی کتابیں دستیاب نہیں ہیں جس کی وجہ سے ساتذہ اور طلبائ پرانے نوٹوں اور خود تیار کردہ اسباق پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔انسانی حقوق کے کارکن راسخ رسول بٹ نے اس صورتحال کو "انتہائی پریشان کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے محکمہ سکول ایجوکیشن اور بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی بے حسی کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری زبان ہماری شناخت کا ایک اہم حصہ ہے۔ماہرین تعلیم، والدین اور سول سوسائٹی کے اراکین نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندی اور سنسکرت کو فروغ دینا اور کشمیری زبان کی نصابی کتب سے طلباکو محروم کرنا علاقے کو اپنی تہذیب و ثقافت سے محروم کرنے کے نوآبادیاتی بھارتی ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے تعلیمی نظام میں کشمیری زبان اور شناخت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں 25 کتابوں پر حالیہ پابندی علاقے کی انتظامیہ کے اندر بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کو ظاہر کرتی ہے اور یہ پابندی مودی حکومت کے ترقی کے دعووں سے متصادم ہے۔بھارتی انگریزی روزنامے ” انڈین ایکسپریس ”نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ یہ پابندی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے حکم پر عائد کی گئی ہے اور پولیس نے کتب کی ضبطگی کے لیے بڑا کریک ڈاؤن کیا۔ اخبار نے لکھا کہ حکومت کشمیر میں امن کے دعوے کررہی تھی لیکن یہ اچانک کیا ہوا ہے کہ اسے کتابوں پر پابندی عائد کرنا پڑی، سینسر شپ اور جبر سے صرف اور صرف مایوسی اور عدم اعتماد بڑھتا ہے، کتابوں پر پابندی پریشان کن ہے۔ دفعہ 370کے خاتمے کے بعد تو علاقے میں امن و ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیںمگر پابندی ان دعوؤں کو جھٹلاتی ہے۔ دیرپا امن کے لیے تاریخ کے ساتھ جڑے رہنا ضروری ہے ، استحکام لانے اور مایوسی کو دور کرنے کا موثر ذریعہ جمہوریت کو مضبوط کرنا اور فیصلہ سازی میں لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ اگرچہ ادبی ذوق مختلف ہوتے ہیں لیکن لکھنے اور پڑھنے کا حق محفوظ رہنا چاہیے۔ کشمیر میں حقیقی پیش رفت جامع بات چیت اور انفرادی آزادیوں کے احترام کا تقاضا کرتی ہے، سینسر شب سے ہرگز کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس نے اسلامی اور تاریخی کتابوں کے خلاف کریک ڈائون پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس کا مقصد کشمیریوں کو ان کی اسلامی شناخت سے دور کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • علامہ صادق جعفری کا سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور لرزہ خیز مظالم پر شدید تشویش کا اظہار
  • بابا گورونانک کے جنم دن کی تقریبات کا آغاز، سکھ یاتریوں کی آمد کا سلسلہ جاری
  • بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
  • بابا گورو نانک کا 556واں جنم دن، گوردوارہ جنم استھان کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا
  • خرابات فرنگ
  • غزہ میں مسلسل اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلال عباس قادری
  • بی جے پی حکومت کشمیری صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، حریت کانفرنس
  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • بابا گورونانک کا 556ویں جنم دن، ننکانہ صاحب کے تعلیمی اداروں میں 3 روزہ تعطیل