چیف جسٹس سے ملاقات میں پی ٹی آئی نے کیا مطالبات پیش کیے، رہنماؤں نے بتادیا WhatsAppFacebookTwitter 0 21 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں عمر ایوب، بیرسٹر گوہر، شبلی فراز، سلمان اکرم راجا اور دیگر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ میں نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی تھی اور ان سے چیف جسٹس سے ملنے کی منظوری لی تھی، جس میں عمارن خان نے کہا کہ ملاقات میں پی ٹی آئی کا مؤقف سامنے رکھا جائے۔
ہم نے چیف جسٹس کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی کے مقدمات کی سماعت کی تاریخی بدلی جاتی ہیں۔ عدالتوں کی اجازت کے باوجود عمران خان سے ملاقات نہیں کروائی جاتی، نہ ہی ان کی بچوں سے بات کروائی جاتی ہے۔ جیل مینوئل کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے بھی سلمان اکرم راجا نے چیف جسٹس سے بات کی، اسی طرح لاپتا افراد سے متعلق بھی انہیں تفصیلی بریفنگ دی اور بتایا کہ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا سے لوگوں کو غائب کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں حالات اتنے خراب ہے کہ لوگ وہاں آزادی کی بات کررہے ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب کے ساتھ معیشت کے حوالے سے بھی بات ہوئی ۔ افراط زر، قوت خرید اور بے روزگاری کے حوالے سے بھی چیف جسٹس کو تفصیلات بتائیں۔ 9 مئی اور 26 نومبر کے بانی پی ٹی آئی کے خطوط کے حوالے سے ان کے ساتھ بات ہوئی ، ہم نے کہا ہے کہ ہم لوگ 26 ویں آئینی ترمیم کو تسلیم نہیں کرتے، ان خطوط پر کمیشن بیٹھنے چاہییں۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم نے بتایا ہمارے کارکنوں کو جعلی مقدمات میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے بھی بات کی ۔ وکلا کو ملنے والی دھمکیوں کے حوالے سے چیف جسٹس کو آگاہ کیا گیا ۔ اسی طرح ججز کے خط اور خفیہ اداروں کے منفی کردار کا نکتہ ان کے سامنے رکھا۔

چیف جسٹس کو ہم نے بتایا کہ وکلا کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے ان پر کئی ایف آئی آر اور جعلی مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ پنجاب میں پولیس اور پولیس گردی کے ساتھ خفیہ اداروں کے منفی عمل سے متعلق بھی باور کروایا۔ ہم نے کہا کہ بحیثیت چیف جسٹس عدلیہ کا تحفظ آپ کی ذمے داری ہے قانون کی بالادستی کے لیے اقدامات آپ نے اٹھانے ہیں۔

بیرسٹر گوہر نے پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات چیف جسٹس ہی کی خواہش پر ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی گزشتہ دو ڈھائی سال سے فسطائیت کا سامنا کررہی ہے۔ چیف جسٹس نے نیشنل جوڈیشل پالیسی کمیٹی کی میٹنگ کے سلسلے میں ایک ایجنڈا شیئر کیا تھا اور 10 پوائنٹس پر تجاویز مانگی تھی، ہم نے باور کرایا کہ ہم اپنی طرف سے تجاویز دیں گے اور آپ کے سامنے اپنی دیگر تجاویز بھی رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن، سپورٹر، عمران خان اور بشریٰ بی بی عدالتی طور پر بھی غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک کے متاثرہ ہیں۔ ہمارے عدالتوں میں کیسز نہیں لگائے جاتے۔ عمران خان کو قید تنہائی میں رکھاجاتا ہے، معالج دستیاب نہیں، کتابیں نہیں دی جاتیں، ورزش کی مشین بھی نہیں دی جا رہی اور نہ ہی بچوں اور اہلیہ سے ملاقات کروائی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ یہ عوامل صرف ہمارے ساتھ ہی کیوں اور سب سے زیادہ ایسا پنجاب ہی میں کیوں ہو رہا ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے چیف جسٹس کو بتایا کہ آپ کی عدالت کے آرڈر کو کوئی عدالتی حکم سمجھتا ہی نہیں ہے، جتنے آرڈر کردیے، خواہ پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے کا نوٹیفکیشن تھا، خواہ وہ مخصوص نشستوں کا تھا یا سینیٹ کے الیکشن کا تھا، تاحال کسی پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔

ہم نے چیف جسٹس کو بتایا کہ ہمارے ارکان اسمبلی اور ان کے اہل خانہ کو مختلف کیسز میں شامل کیا گیا۔ ایک ایک کے خلاف سو کیسز ہیں اور بیک وقت کئی عدالتوں میں پیش نہیں ہو سکتے۔ یہ تمام مشکلات ہیں جن کا پی ٹی آئی سامنا کررہی ہے، چیف جسٹس نے ہمیں باور کرایا کہ میں ایسے اقدامات کروں گا جس سے ان مسائل کا حل نکلے۔

پی ٹی آئی وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ بنیادی بات جو چیف جسٹس کے سامنے رکھی وہ یہ کہ ملک میں عملاً آئین و قانون ختم ہو چکے ہیں، یہ صرف کتاب میں لکھے ہوئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ایک سیکشن لگا دیتا ہے تو بنیادی حقوق کو جرم بنا دیا جاتا ہے۔عدلیہ اگر یہ سب کچھ ہونے دیتی ہے تو وہ اس میں شریک بن جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ملک میں اس وقت آئین و قانون نہیں ہے، عدلیہ کی ذمے داری ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہو، ایسا نہ ہو کہ جو شخص بات کرے اس پر 100 مقدمے بن جائیں اور وہ عدالتوں میں گھومتا پھرے، اس سب کے تدارک کے لیے سپریم کورٹ ہی کو اقدامات کرنا ہوں گے۔

سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات کی وجہ سے مخالف کارروائیوں کو روکنا ہوگا، عدلیہ مداخلت نہیں کرتی تو پھر عوام اپنے ہاتھ میں تمام معاملات لینے پر مجبور ہیں، ایسے میں سیاسی جدوجہد کی جانب بڑھتے ہیں کیوں کہ عدالتوں سے ہمیں اور عمران خان کو وہ ریلیف نہیں ملا جو ہمیں ملنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم واضح کہہ کر آئے ہیں کہ آپ پر لازم ہے کہ آئین و قانون کو عملاً ملک میں نافذ کریں تو پھر پاکستان کس طرف جاتا ہے یہ عمر ایوب صاحب نے بتایا۔ یہ پورا ماحول چیف جسٹس سمیت کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ کیا عمل ہوتا ہے اور کس طرح صورت حال کو بہتر بنایا جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: چیف جسٹس سے سے ملاقات پی ٹی ا ئی میں پی

پڑھیں:

عمران خان سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، بیرسٹر گوہر

راولپنڈی:

پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بانی سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، اس معاملے پر سیاسی کمیٹی میں بات کریں گے اور اس پر اپنی اسٹریٹیجی بنائیں گے۔

داہگل ناکہ پر میڈیا سے گفت گو میں انہوں ںے کہا کہ بانی عمران خان سے آج بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، دو سال سے عدالت کے احکامات پر عمل نہیں ہو رہا، یہ ظلم اور زیادتی ہے، بانی کو آپ جتنا چاہے جیل میں رکھیں لیکن وہ لوگوں کے دلوں میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بانی سے ملاقات کے بعد 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، اس معاملے پر سیاسی کمیٹی میں بات کریں گے اور اس پر اپنی اسٹریٹیجی بنائیں گے، آئین میں اگر ترمیم ہونی ہے تو وہ پہلے اتفاق رائے سے ہوتی رہی ہے، عدلیہ ہمیشہ متنازع رہی ہے لیکن 26 ویں ترمیم نے ملک میں دراڑ پیدا کر رکھی ہے اب 27ویں ترمیم آرہی ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم ہو رہی تھی تو 101 آرٹیکلز میں ترامیم ہوئیں، 26 ویں ترمیم کو  لے کر ورژن میں 56 آرٹیکلز تھے جب پہلا ورژن ہمارے پاس آیا تو اس میں 50 آرٹیکلز تھے، فائنل ورژن پر پہنچے تو 25 آرٹیکلز میں ترامیم کرنا تھیں، ان 25 آرٹیکلز میں سے ایک آرٹیکل میں پی پی، 6 آرٹیکلز میں جے یو آئی، 17 آرٹیکلز میں حکومتی ترامیم تھیں باقی مصنوعی ترامیم تھیں لیکن 5 ترامیم پر تنازع تھا۔

انہوں ںے بتایا کہ ان پانچ متنازع ترامیم میں آرٹیکل 175 اے جس کے ذریعے جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا، آرٹیکل 191 جس کے ذریعے آئینی بنچ بنوایا گیا تھا، آرٹیکل 179 جس کے ذریعے چیف جسٹس کے لئے تین سال کا مدت کا تعین کروایا گیا تھا، آرٹیکل 209 جس کے ذریعے ججز پر نظر رکھنے کے لئے کمیشن کو اختیارات دیئے گئے تھے اور پانچویں ترمیم الیکشن کمیشن سے متعلق رکھی تھی، باقی سب ترامیم مصنوعی یا کاسمیٹکس تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 243 میں حکومت کا جو پہلا ورژن ہمارے پاس آیا تھا تو اس میں آرٹیکل 200 ججز کے ٹرانسفر سے متعلق حکومت نے ضرور لکھا تھا کہ جج کی مرضی کے بغیر اس کی ٹرانسفر کا اختیار ہونا چاہے لیکن اکتوبر میں جو پہلا ورژن آیا اس میں یہ شامل نہیں تھا، آرٹیکل 243 کو افواج سے متعلق تھا یہ حکومت کے پہلے ورژن میں موجود تھا جو کاپی ہمیں 12 اکتوبر کو دی گئی تھی، پھر اس کے بعد اسے ختم کر دیا گیا، ہمیں دیئے گئے ورژن میں تحریر تھا کہ آرمی سربراہان سے متعلق جو قوانین ان کی عمر سے متعلق ہے ان کو تحفظ حاصل ہوگا اس میں ترمیم نہیں کی جائے گی البتہ این ایف سی ایوارڈ سے متعلق کوئی بات کسی بھی وقت نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تعلیم اس ملک کے بچوں کا ایک اہم مسئلہ ہے جب یہ شعبہ صوبوں کے پاس گیا تو انھوں نے کئی اسکول آؤٹ سورس کردیئے، پاپولیشن ویلفیئر صوبوں کے پاس گیا اس وقت ریورس کرنا صوبوں کا نقصان ہوگا، اس وقت اس چیز کو ریورس کرنے سے صوبوں کا نقصان ہوگا اسے ریورس نہ کیا جائے، 18ویں ترمیم اتفاق رائے سے ہوئی تھی اسے ریورس کرنا ریاست، حکومت، عوام، جمہورہت کا نقصان ہوگا اسے ٹچ نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آج تک 26 ترامیم ہوئی ہیں، 9،11,15ویں ترامیم پاس نہیں ہوئی  باقی 23 ترامیم پاس ہوچکی ہیں، کسی ترمیم میں آرٹیکل 163 کو تبدیل نہیں کیا، اگر تبدیل کیا تو 18ویں ترمیم میں اس حد تک تبدیل کیا گیا کہ صوبوں کا حصہ پچھلے ایوارڈ کے مقابلہ میں کم نہیں کیا جائے گا، سال 2007ء میں آخری این ایف سی ایوارڈ آیا تھا، اس کے بعد ایوارڈ نہیں آسکے، سارے صوبے گیارہویں این ایف سی ایوارڈ کے منتظر ہیں،کے پی کو جو حصہ ملتا ہے وہ تقریبا 14.6فیصد ہے،یہ آئین میں درج ہے کہ وہ کم نہیں کیا جائے گا۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کا موقف ہے کسی ایسی شق کو نہیں چھیڑا جائے جو صوبوں کے اتفاق رائے کے بغیر ہو، مشترکہ مفادات کونسل نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ جب تک اتفاق رائے نہ ہو نہریں نہیں نکالیں گے اس لیے جو محکمے صوبوں کے پاس چلے گئے اتفاق رائے کے بغیر اس معاملے کو واپس کرنا خطرے کو مول لینے والی بات ہے، پہلے آئینی عدالت بنانا چاہ رہے تھے پھر آئینی بنچ بنایا گیا اس پر بھی کوئی راضی نہیں ہے وہ عدلیہ کی آزادی پر قدغن ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کریٹیکل اسٹیپ لیں جس سے ملک کا بھلا ہو اور ادارے مضبوط ہوں،  بجائے اس کے کہ آپ آئین کی ان شقوں کا درج کریں جس سے صوبوں کا تناؤ اور بڑھ جائے گا اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مشال یوسف زئی کا ٹویٹ پارٹی سے متعلق ہے پارٹی کے معاملات کو پارٹی تک رہنے دیں، ہر محب وطن پاکستانی یہ کہہ رہا ہے کہ اسٹیک ہولڈر اپنی تلواریں اپنی نیام میں رکھیں اور ایک ایک اسٹیپ پیچھے ہوجائیں، ایسی صورتحال میں اشتعال انگیز ویڈیو دکھانا، آگ پر تیل چھڑکنے والی بات ہے، بانی جب آرڈر کریں تو پھر اسلام آباد آنے کی بات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پر تنقید ہو رہی ہے تو ہم کوئی کنگ نہیں، میں گالم گلوچ کے مخالف ہوں، تنقید کے خلاف نہیں، اگر کوئی کسی کی عیادت کرتا ہے تو کوئی ایسی بات نہیں، میں شاہ محمود، اعجاز چوہدری کی عیادت کے لئے گیا تھا، بانی کی رہائی کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور کریں گے۔

میڈیا سے گفت گو میں سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میری ملاقات سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج خصوصی احکامات دئیے ہیں، میں نے ہائیکورٹ کا آرڈر ایس ایچ او کو واٹس ایپ کیا ہے، آرڈر کی کاپی میرا ایسوسی ایٹ لے کر آرہا ہے، جسٹس ارباب صاحب نے ایڈوکیٹ جنرل کو میری ملاقات کے بارے حکم دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب 27 ویں ترمیم کو رد کرتے ہیں اس اسمبلی کے استحقاق کو رد کرتے ہیں کوئی بھی آئینی ترمیم فارم 47 والی اسمبلی نہیں کرسکتی ہے، بلاول بھٹو کی ٹویٹ کے ذریعے جو باتیں سامنے آئی ہیں انتہائی خوفناک ہیں، پاکستان میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا جارہا ہے، آزاد عدلیہ کے تصور کو ختم کیا جارہا ہے، ہم تو اس ترمیم کی بہرحال مخالفت کریں گے اگر کوئی ہم سے کہے گا کہ اس کی مخالف میں حمایت کریں تو ہم کریں گےم ہم سمجھتے ہیں تمام جماعتوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان سے میری ملاقات بہت ضروری ہے، بںیادی حق ہے کہ ملزم کی اپنے وکیل سے بات کرائی جائے کوئی بھی ملزم اپنا ٹویٹر اکاؤنٹ آپریٹ نہیں کرسکتا، بہنوں کی اڈیالہ جیل کے باہر ٹاک کو اگر کوئی اٹھا کر ٹویٹ کر دیتا ہے تو اس سے ہمارا یا بانی کا کیا تعلق ہے؟ بانی اپنا ایکس اکاؤنٹ خود نہیں چلا رہے، بانی کونٹینٹ کو ڈس اون نہیں کرتے، جو لوگ ان سے جو بات کرکے آتے ہیں، بات کرنا ان کا حق ہے، کوئی قانون اس سے نہیں روکتا اگر کوئی بانی کو کوٹ کرتا ہے تو ٹھیک کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہم نے آرڈر لیا تھا کہ بانی جیل کے اندر بھی میڈیا سے بات کرسکتے ہیں، کیا ریاست مخالف بیانیہ ٹویٹ کیا جاتا ہے وہ عدالت فیصلہ کرے گی، ریاست مخالف کیا ہوتا ہے اس کی تعریف و تشریح ہونا بہت ضروری ہے، یہ کہنا کہ ہمارا الیکشن لوٹا گیا یہ ریاست مخالف بیانیہ ہے؟؟ کب تک آپ اس سچ کو یہ کہہ کر چھپائیں گے کہ یہ ریاست مخالف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمانہ ادا کرنے سے جرم ختم نہیں ہوجاتا،جسٹس شفیع
  • عمران خان سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، بیرسٹر گوہر
  • سپریم کورٹ بار: نو منتخب اور رخصت ہونے والی کابینہ کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات
  • بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پابندی کی درخواست، وکیل کو ملاقات کی اجازت مل گئی
  • حیدری ماڈل مارکیٹ بنانے پر تاجر حافظ نعیم کے شکر گزار ہیں،محمود حامد
  • لاہور ہائیکورٹ: جعلی دودھ فروخت کرنیوالے ملزم کی ضمانت مسترد
  • شاہ رخ خان اپنے بچوں کو فلمی کیریئر پر مشورہ کیوں نہیں دیتے؛ اداکار نے بتادیا
  • سپریم کورٹ کا 24سال بعد فیصلہ، ہائیکورٹ کا حکم برقرار،پنشن کے خلاف اپیل مسترد
  • نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا
  • سپریم کورٹ کراچی رجسٹری  نے ڈاکٹر کے رضاکارانہ استعفے پر پنشن کیس کا24سال بعد فیصلہ سنا دیا