UrduPoint:
2025-07-26@06:54:35 GMT

خیرات سے حکومت نہیں چل سکتی

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

خیرات سے حکومت نہیں چل سکتی

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 فروری2025ء)وفاقی وزیر خزانہ ومحصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ خیرات سے حکومت نہیں چل سکتی، خیرات سے ہسپتال چل سکتے ہیں، تعلیم چل سکتی ہے، لیکن خیرات سے حکومت نہیں چل سکتی اس بارے میں بہت کلیئر ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری میں ملک بھر کے چیمبرز کے صدور اور تاجر لیڈروں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ مختلف چیمبرز کے دورے کر چکے ہیں جبکہ آج فیصل آباد چیمبر کے عہدیداروں سے ملاقات ہو رہی ہے۔ اسی طرح وہ خود دوسرے چیمبرز کے پاس بھی جائیں گے تاکہ مئی جون میں جب بجٹ پیش ہو تو اس میں کوئی غیر متوقع معاملات شامل نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے لیکن ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10-9فیصد ہے جس پر ملک کو چلایا نہیں جا سکتا ہے،زراعت، ریٹیل اور دوسرے کئی شعبے ملکی معیشت میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ زرعی ٹیکس کا نفاذ کیا جارہا ہے۔ اس وقت تنخواہ دار طبقہ اور مینو فیکچرنگ کے شعبوں پر ٹیکسوں کا سب سے زیادہ بوجھ ہے، اس نظام کو منصفانہ اور پائیدار بنانے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ممبر انکم ٹیکس اور ممبر کسٹم بھی ان کے ہمراہ ہیں تاکہ آپ لوگوں کی گفتگو اور سفارشات کی روشنی میں مناسب حکمت عملی وضع کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ شرح سود میں کمی آرہی ہے اور آٹو فنانسنگ میں تو آچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ چینی، گھی اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی ہے جبکہ وزیر خوراک نے بھی کہا ہے کہ رمضان المبارک میں چینی کی قیمتوں میں کمی ہوگی، یہ سب چیزیں تب مہنگی ہوتی ہیں جب مڈل مین کا کردار بیچ میں ہوتا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بار بار کہا جاتا ہے ہم آئی ایم ایف کے پاس کیوں جاتے ہیں اس لیے کہ ہماری اکانومی مضبوط ہوجائے،آئی ایم ایف کہتا ہے ہم مزید پیسے دینے کے لیے تیار ہیں لیکن آپ ٹیکس ریفارمز کریں، ہم جو اصلاحات لارہے ہیں وزیراعظم اس پر کلیئر ہیں، تنخواہ دار طبقے پر بہت بوجھ پڑا ہے، چاہتے ہیں کہ اسے کم کیا جائے، سات شعبہ جات سے منسلک تنخواہ دار طبقہ نومبر تک آن لائن اپنا فارم جمع کروا سکے گا، ہم اس پورے سسٹم کی ڈیجیٹلائزیشن کررہے ہیں، آپ دیکھیں گے آنے والے دنوں میں مزید کام بہتر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ٹیکس کے کیسز کو فوری طور نمٹایا جائے، ہر سال ہمارا ایک ٹریلین خسارے میں جاتا ہے، مختلف ادارے یا مختلف وزارتوں کو ایک دوسرے میں ضم کیا جارہا ہے، ہم سے سوال ہوتا ہے کہ آپ ٹیکس لے رہے ہیں خود کیا کررہے ہیں۔انہوں نے کہا 43 وزارتیں ہیں جن میں سے پانچ سے چھ وزارتوں کو ضم کرنے کے لیے کام جاری ہے، ایک وزارت کو ختم کرنے کیلئے کام کرچکے ہیں، ہم یہ سب اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے کررہے ہیں۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جو پوری نہ کرسکوں، آپ سب میرے اسٹیک ہولڈرز ہیں میں چاہتا ہوں کہ سب مل کر آگے چلیں، ہمیں مل کر آگے چلنا ہے پیچھے نہیں دیکھنا، حکومت اس وقت بہت مشکل فیصلے کررہی ہے، تین چیزیں ایسی ہیں جن پر ہمارا فوکس ہے، ہمیں آگے دیکھنا ہے پیچھے کیا کیا ہوتا رہا یہ نہیں دیکھنا، اس وقت حکومت کا پورا فوکس ہے کہ ہمیں کیسے گروتھ کی طرف جانا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ گزشتہ ہفتے سعودی عرب میں تھے تو وہاں پر 30 سے زائد فنانس منسٹر تھے، وہاں پر یہی بات ہورہی تھی کہ ہم نے گلوبل ٹریڈ کو نہیں ریجنل ٹریڈ کو دیکھنا ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ خیرات سے چل سکتی

پڑھیں:

پیسہ پیسہ کرکے!!

جانے آپ نے کبھی غور کیا یا نہیں مگر میں گزشتہ چند دن سے اس پر غور و فکر کر رہی ہوں اور حیرت میں ڈوبتی جاتی ہوں ۔ ایک دکان سے پھل اور سبزی خریدتی ہوں، سبزیوں کے نرخ اس طرح سے ہیں کہ میرا بل بنتا ہے سات سو اٹھائیس روپے، میں دکاندار کو سات سو پچاس روپے دیتی ہوں تو وہ مجھے بیس روپے واپس کر دیتا ہے۔ میں کپڑوں کی دکان پر کچھ خریداری کرتی ہوں تو وہ مجھے کہتا ہے کہ میرا بل چار ہزار سات سو پچانوے روپے ہے۔

میں اسے پانچ ہزار کا نوٹ دیتی ہو تو وہ مجھے دو سو روپے بقایا دیتا ہے۔ میں دوا خریدنے جاتی ہوں تو دوا کی ڈبیا پر دوا کی قیمت لکھی ہوئی ہے چار سو ستاسٹھ روپے۔ میں اسے پانچ سو روپے کا نوٹ دیتی ہوں اور وہ مجھے بقایا دیتا ہے تیس روپے۔ پٹرول کی فی لٹر قیمت کے حساب سے اگر آپ کا بل اتنا بنتا ہو کہ پانچ روپے سے کم بقایا بنتا ہو تو واپسی پر آپ کو پانچ روپے سے کم کی وہ رقم واپس نہیں ملتی۔

آپ تصور کریں کہ کسی پٹرول پمپ پر، کسی سبزی پھل کی دکان پر یا کسی کپڑے ، جوتے یا کتابوں کی دکان پر… ایک دن میں کتنے گاہک آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا بقایا پانچ روپے سے کم ہو تو انھیں وہ واپس نہیں ملتا اور کوئی اس کے بارے میں فکر بھی نہیں کرتا کیونکہ اس وقت پچاس اور سو روپے کی اتنی بھی وقعت نہیں ہے تو پانچ دس روپے کی کیا وقعت ہے کہ کسی کو واپس نہ ملنے پر دکھ ہو۔

اس دکاندار کو سوچیں جو کہ دن میں جانے کتنے ہی لوگوں سے اتنی چھوٹی چھوٹی رقوم جمع کر کے ایک دن، ہفتے ، مہینے یا سال میں کتنی رقم جمع کرتا ہے جس کا نہ کوئی شمار ہوتا ہے اور نہ حساب۔ درست بل دینا کہ جس پر ٹیکس نمبر بھی لکھا ہو، وہ ہمارے یہاں چھوٹے دکاندار کو عادت ہی نہیں، بل اس وقت دیتے ہیں جب آپ مطالبہ کریں۔ کارڈ سے بل نہیں لیتے کیونکہ وہ ریکارڈ میں آجاتا ہے اور اس پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ کتنے ہی کاروبار ہیں جو کہ آپ کو پیش کش کرتے ہیں کہ اگر آپ کیش میں ادائیگی کریں تو آپ کو کچھ رعایت مل جاتی ہے۔

ہم سب اس جال میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ ہمیں اس میں اپنا فائدہ نظر آ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہم ملکی مفاد میں سوچیں تو ہمیں ایسی پیشکش کو ٹھکرا دینا چاہیے مگر جب ہم کسی کو اس بارے میں آگاہی دینے کی کوشش کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ انھیں ٹیکس دے کر کیا ملتا ہے؟ سارا ٹیکس تو انھیں کے اللوں تللوں اور ان کے شاہانہ اخراجات میں چلا جاتا ہے جو پہلے سے ہی اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کر رہ رہے ہیں۔

ہمیں کون سا ان ممالک کی طرح بنیادی انسانی سہولیات میسر ہیں جیسی کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہیں، جہاں لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس چوری دنیا بھر میں ہوتی ہے مگر ہم شاید اس میں بھی پہلے نمبر پر ہوں گے کیونکہ ہم ایسی چیزوں میں درجہء کمال پر ہیں جو درست نہیں ہیں۔

سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک میں پیسے کی نقل و حمل پر پابندی لگائی جائے۔ آپ کارڈ پر ادائیگی کرنا چاہیں تو دکانداروں کی مشین نہیں چلتی، بڑے بڑے دکاندار بھی کئی بار کہہ دیتے ہیں کہ مشین میں کوئی مسئلہ ہے یا آپ کے کارڈ میں۔ اگر کارڈ پر بل لینے کو مان بھی جائیں تو کہتے ہیں کہ کارڈ کی فیس گاہک کو دینا ہو گی۔ بڑے بڑے سنار ( جیولرز) لاکھوں اور کروڑوں کے بل لیتے ہیں، وہ ساری سیل نہ چھپاتے ہوں تو بھی کچھ نہ کچھ چھپا جاتے ہیں۔

ٹیکس نیٹ میں ہر چھوٹے بڑے کاروباری کو لانا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ والے اپنے کھاتے سدھار سکتے ہیں اور نہ حکومت۔ بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ٹیکس کے محکمے کے ہی لوگ ، ملوث ہیں جو کہ لوگوں کو ٹیکس چوری کے طریقے بتاتے ہیں۔ پھر میںنے عہد کیا کہ چھوٹے ٹھیلوں، سڑک کے کنارے ریڑھی بانوں یا کسی کو نقد دینے کے علاوہ میں ہر جگہ کارڈ استعمال کروں گی۔

اس دوران میں نے غور کیا کہ کپڑے کا بڑے سے بڑا کاروباری برانڈ بھی آپ کو بل بتاتا ہے گیارہ سو ستر… جب آپ کارڈ سے رقم ادا کرتے ہیں تو آپ کے گیارہ سو ستاسٹھ روپے کٹتے ہیں، استفسار کریں کہ انھوں نے توبل گیارہ سو ستر بتایا تھا تو جواب ملے گا کہ انھوں نے اس رقم کو Round up کر دیا تھا۔ راؤنڈ اپ تو گیارہ سو ساٹھ یا پنسٹھ بھی ہو سکتے ہیں مگرکسی کے پاس اب کہاں سکے ہوتے ہیں اور دس روپے تک کا نوٹ بھی متروک ہو چکا ہے۔ کارڈ پر ادائیگی کر کے آپ کچھ نہیں تو ہر ماہ کچھ رقم بچا سکتے ہیں۔اگر آپ کو کوئی پر کشش پیش کش کرتا ہے ، نقد دینے پر ٹیکس میں اتنی چھوٹ ہو گی تو اس جال میں نہ پھنسیں، ذمے داری کا ثبوت دیں۔ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے ملک اور نظام کو خراب نہ ہونے دیں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت کی پی ٹی آئی تحریک میں دلچسی نہ کوئی خوف: عرفان صدیقی
  • قاسم، سلمان خوشی سے آئیں ،پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • خطے کی سب سے زیادہ مہنگی بجلی اور گیس بیچ کر ترقی نہیں ہو سکتی: مفتاح اسماعیل
  • پیسہ پیسہ کرکے!!
  • ٹیکس نظام کو بہتر بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم
  • حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہو گا،مولانافضل الرحمان
  • چھبیسویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • 26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • ڈیگاری واقعہ — شوبز شخصیات کا غیرت کے نام پر قتل پر شدید ردعمل
  • عمران خان کو دس سال قید نہیں بلکہ آرٹیکل 6 کے تحت عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہے: نجم ولی خان کا تجزیہ