Express News:
2025-09-19@03:00:58 GMT

خالد علیم، ایک وسیع المطالعہ شاعر، نستعلیق آدمی

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

بیسویں صدی کے آسمانِ ادب پر چمکنے والے تابندہ ستاروں کے مانند متعدد نام سامنے آئے جنھوں نے اردو ادب کا دامن اپنی تخلیقاتِ نظم و نثرکے پھولوں سے بھردیا جن کی خوشبو آج بھی کتابوں کے اوراق کھولنے سے عیاں ہوتی ہے۔

ابتدا میں کچھ ادبی شخصیات نے خود کو بہ حیثیت شاعر و نثر نگار پیش کیا توکچھ شاعر خود آگاہی کے تحت ابتدا ہی سے شاعری کرتے رہے، آج وہ اپنے اسلوب اور ندرتِ خیال کی بنیاد پر ’’آبروئے غزل‘‘ بن گئے ہیں۔ ایسی ادبی شخصیات بہت کم ہیں جنھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی اپنے جوہر دکھانے پر دونوں ہی میدانوں میں یکساں مقبول اور کامیاب ٹھہرے۔

ایسے اہلِ قلم میں سے معتبر اور اہم نام خالد علیم کا ہے جن کا شمار اُردو کے بلند فکر شاعروں میں ہوتا ہے۔ جنھوں نے اپنی شاعری کی بنیاد اپنے عہد کے مسائل و افکار پر رکھی۔ ان کے علم و فن کی روشنی سے کائناتِ اُردو ادب میں اُجالا ہی اُجالا ہُوا۔ ان کی علمی استعداد، تعلیمی قابلیت اور خداداد صلاحیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔

ان کے والد گرامی علیم ناصری بھی اُردو کے ممتاز نعتیہ شاعر اور عمدہ نثر نگار تھے۔ حضرت علیم ناصری اور ان کے فرزند ارجمند خالد علیم دونوں اسلامی ادب کے قابلِ احترام نمایندے ہیں۔

 خالد علیم ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفات شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں تھا، وہ ایک وسیع المطالعہ شاعر تھے، وہ زبان و بیان اور اسلوبِ تازہ کے ساتھ فکر و مشاہدات، جذبات و احساسات پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر شعری آہنگ میں انفرادیت کے حامل تھے، ان کا مزاجِ شاعرانہ ترقی پسند اور تلاش و جستجو سے معمور تھا۔

خالد علیم روحانی اقتدارکے حامل، درویش صفت ، شفیق دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ظاہر و باطن سے آئینہ دار صفت اور صاف گو، نستعلیق آدمی تھے۔ انھوں نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور اس خوش اسلوبی اور انوکھے انداز سے اپنی فنی و فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لایا کہ اہلِ دانش دھنگ رہ گئے۔

ان کے حمدیہ کلام کو جب فنی و فکری لحاظ سے پرکھتے ہیں تو اب بات کا گماں بار بار ہوتا ہے کہ ان کے طرزِ احساس میں جدت، سادگی، روانی اور صفائی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’جب حمد زبان سے دل پر حرفِ دعا بن کر نغمہ ریزی کی جلوہ آرائی کا سامان مہیا کرتی ہے تو قلب و روح منور ہو جایا کرتے ہیں۔ یہی کیفیت ہم پہ خالد علیم کی حمدیہ شاعری پڑھتے ہوئے طاری ہو جاتی ہے۔‘‘

وہ نعت کہتے ہوئے بے حد محتاط شاعرانہ روایہ اختیار کرتے، ان کے نعتیہ کلام میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی جو آداب کے منافی ہو۔ انھوں نے اپنے نعتیہ کلام میں فنی پیرائے کا استعمال کرتے ہوئے اپنے نبی کریمؐ کے سچے اُمتی ہونے کا حق ادا کر دکھایا ہے۔

ان کی نعت گوئی کے حوالے سے خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ ’’ خالد علیم کی نعت میں جذبے، علم اور ریاضتِ فنی کا ایک ایسا امتزاج ملتا ہے جو عجلت کے اس دور میں بہت کم یاب ہے۔ یہ ریاضتِ فنی ان کے ہاں حسب کے علاوہ نسب کا درجہ بھی رکھتی ہے کہ جس گھر میں ’’ شاہنامہ بالا کوٹ‘‘ اور ’’ طلع البدر علینا‘‘ کا طلوع ہوا ہو، اتنی ریاضت تو اس کی فضا میں رچی ہوئی ہوتی ہے۔ ‘‘ خالد علیم نے صنفِ رباعی کو بھی اپنے حمدیہ، نعتیہ، دعائیہ اور غزلیہ کلام میں خاص جگہ دی ہے۔

صنفِ رباعی کے لیے اہلِ عروض نے ایک خاص بحر مقرر کی ہوئی ہے، اگر اس بحرکے مروجہ چوبیس زحافات کے مقرر ارکان پر کوئی رباعی نہ آتی ہو تو اسے ہرگز رباعی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ وہ چو مصرعی تو ہو سکتی ہے لیکن رباعی نہیں۔

چونکہ رباعی زحافات کی باریک بینیوں کی وجہ سے مشکل شعری صنف تصورکی جاتی ہے، لیکن خالد علیم نے اس صنف میں اپنی جودت طبع اور ندرتِ خیالی کا لوہا منوایا ہے، اس کا اندازہ آپ تنقیدی شعورکے حامل نقاد نوید صادق کی اس بات سے لگا سکتے ہیں ۔خالد علیم کی نثری نظموں پر ایک نظر ڈالیں تو انھوں نے اپنے تلخ و شیریں تجربات، عمیق مشاہدات، شدید جذبات اور نازک خیالات کو بڑے سلیقے سے شعری آہنگ عطا اور عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے، ان کا اندازِ تکلم بڑا مودب اور اندازِ تخاطب نہایت مہذب ہے۔

وہ عوام و خواص کی نفسیات سے خوب واقف تھے اور معاشرے پرگہری نظر رکھتے تھے۔ اس معاشرے میں جوکچھ ہو رہا ہے وہ سبھی قریب کی عینک سے اُسے جانچ لیتے تھے، ان کی نثری نظمیں پڑھ کر ن، م راشد، مجید امجد یاد آ جاتے ہیں۔

خالد علیم نے غزل کے پیکر میں بھی نہ صرف اپنے تجربات و مشاہدات کے حسین رنگ بھر دیے ہیں بلکہ انھوں نے اپنے سبھی تلخ جذبات کو محبت کی مٹی میں گوندھ کرکاغذ کے نرم ٹکڑوں پر ستاروں کی مانند رکھ دیے ہیں۔

دنیا میں جہاں بہت سے لوگ فاقہ کشی، انا پرستی اور ذاتی ضروریات کے تحت جھگڑا، فسادات کے معاملات سے گزر رہے ہیں، وہیں خالد علیم جیسا شخص دوسروں سے الگ اپنا مزاج رکھتے تھے۔ ان کے مزاج میں نرمی ہر موسم میں رہتی۔ وہ ایک سدا بہار اور خوشبودار شخصیت کے مالک تھے اسی لیے ان کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ان کے یہ اشعارکافی ہونگے۔

یہ تو نہیں کہ بس مجھے وحشت زیادہ ہے

اس شہر کے مزاج میں شدت زیادہ ہے

ہر روز میرے تن سے لہو کھینچتا ہوا

وہ دوست کم ہے، اپنی ضرورت زیادہ ہے

خالد علیم اپنے عہد کے نرم لہجے کے شاعر تھے، بات کو بہت سلیس، سادگی اور سہل انداز میں بیان کرتے تھے۔ وہ عام فہم بات کہنے کا فن بخوبی جانتے تھے۔ ان کو اپنی بات موثر بنانے کا ہنر آتا تھا۔ اسی لیے احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں ’’ اس کی غزل اور نظم جدید تر حسیات کی ترجمان ہیں۔

ان میں وہ عصر بولتا ہے جس میں خالد علیم تخلیقِ فن میں مصروف ہے۔ اس کی غزل خاص طور پر دامنِ دل کو کھینچتی ہے کیوں کہ کلاسیکی غزل کی جملہ مثبت روایات کے احترام کے ساتھ ہی اس کی غزل میں بیسویں صدی کا وہ ربع انعکاس پذیر ہے جس نے جدید غزل کو ایک منفرد تشخص بخشا ہے۔

یہ غزل تغزل سے بھی آراستہ ہے اور شاعر کے گرد و پیش رواں دواں زندگی کے حساس پہلوؤں سے بھی کسبِ جمال کرتی ہے۔‘‘ ان کی تمام شعری اصناف پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہوگا۔ ان کی تصانیف میں فغان دل، شام شفق تنہائی،کوئی آنکھ دل سے بھری رہی،’’ بغداد آشوب‘‘ نظموں کا مجموعہ، ’’تمثال‘‘ رباعیات پر مبنی شامل ہیں۔ ان کی اہم تصانیف میں ’’ دائرے میں قدم‘‘(ناولٹ)، کلیات نما، اوصاف (نعتیہ قصدہ)، فغان دل، اردو شاعرات کی نعتیہ شاعری، شام شفق، تنہائی،کوئی آنکھ دل سے بھری رہی قابلِ ذکر ہیں۔

خالد علیم 1956 ء کوکراچی میں پیدا ہوئے، وہ معروف شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار اور محقق کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں، وہ ’’ فانوس‘‘ رسالے کے مدیر بھی رہے اور ’’الاشراق‘‘ ادارے کے منتظم کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔

چند روز قبل معروف نقاد نوید صادق کی فون کال مجھے آئی، جس میں انھوں نے بتایا کہ ’’خالد علیم کی جب وفات ہوئی تو میرے گھر پر میری بانہوں میں تھے۔‘‘ یہ بات سن کر میری آنکھوں سے ایک بار پھر اشکوں کی بارش شروع ہوگئی۔ ہم دونوں، خالد صاحب کی باتیں یاد کر کے ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے رہے۔

یہ بات سچ ہے کہ خالد علیم اپنے خالق کے پاس چلے گئے ہیں لیکن وہ اپنی خوشبو نوید صادق میں چھوڑگئے ہیں، اب جس نے بھی خالد علیم سے ملنا ہو وہ پہلے ان سے ضرور ملے۔ خالد علیم کے وفات سے دنیائے ادب کی فضا تا دیر تک سوگوار رہے گی۔ اللہ ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کے پھول نچھاورکرے اور آخرت کی منزلوں کو آسان فرما کر دنیا کی طرح روزِ محشر بھی اپنے حبیبؐ کے صدقے عزت و برکت سے نوازیں۔ آخر میں بشیر بدرکے اس شعرکے سوا اورکیا کہا جائے۔

وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں

انھیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خالد علیم کی انھوں نے کے ساتھ کی غزل

پڑھیں:

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خلافت و ملوکیت کا فرق
اسلام جس بنیاد پر دُنیا میں اپنی ریاست قائم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت سب پر بالا ہے۔ حکومت اور حکمران، راعی اور رعیّت، بڑے اور چھوٹے، عوام اور خواص، سب اُس کے تابع ہیں۔ کوئی اُس سے آزاد یا مستثنیٰ نہیں اور کسی کو اس سے ہٹ کر کام کرنے کا حق نہیں۔ دوست ہو یا دشمن، حربی کافر ہو یا معاہد، مسلم رعیّت ہو یا ذمّی، مسلمان وفادار ہو یا باغی یا برسرِ جنگ، غرض جو بھی ہو شریعت میں اُس سے برتائو کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے، جس سے کسی حال میں تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔
خلافتِ راشدہ اپنے پورے دور میں اِس قاعدے کی سختی کے ساتھ پابند رہی، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے انتہائی نازک اور سخت اشتعال انگیز حالات میں بھی حدودِ شرع سے قدم باہر نہ رکھا۔ ان راست رو خلفاء کی حکومت کا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ ایک حدود آشنا حکومت تھی، نہ کہ مطلق العنان حکومت۔
مگر جب ملوکیت کا دور آیا تو بادشاہوں نے اپنے مفاد، اپنی سیاسی اغراض، اور خصوصاً اپنی حکومت کے قیام و بقا کے معاملے میں شریعت کی عائد کی ہوئی کسی پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی کسی حد کو پھاند جانے میں تامّل نہ کیا۔ اگرچہ ان کے عہد میں بھی مملکت کا قانون اسلامی قانون ہی رہا۔ کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ کی آئینی حیثیت کا اُن میں سے کسی نے کبھی انکار نہیں کیا۔ عدالتیں اِسی قانون پر فیصلے کرتی تھیں، اور عام حالات میں سارے معاملات، شرعی احکام ہی کے مطابق انجام دیے جاتے تھے۔ لیکن ان بادشاہوں کی سیاست دین کی تابع نہ تھی۔ اُس کے تقاضے وہ ہر جائز وناجائز طریقے سے پورے کرتے تھے، اور اس معاملے میں حلال و حرام کی کوئی تمیز روا نہ رکھتے تھے (خلافت اور ملوکیت کا فرق، ترجمان القرآن، ستمبر 1965)۔
٭—٭—٭

سانحۂ مسجدِ اقصیٰ
اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی 1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبر ظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں (سانحۂ مسجدِ اقصیٰ)۔

متعلقہ مضامین

  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی
  • پنجاب میں سیلاب کا زور ٹوٹنے لگا، سندھ کے بیراجوں پر دباﺅ، کچے کا وسیع علاقہ ڈوب گیا
  • ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا پاک سعودی دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  • سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب؛ کچے کا وسیع علاقہ ڈوب گیا، فصلیں تباہ
  •  آئی ٹی وقت کی ضرورت،دور درازعلاقوں تک پہنچانے کیلئے کوشاں: خالد مقبول
  • چیئر مین پی سی بی کی وسیع مشاورت:پاکستانی ٹیم کو آج میچ کھیلنے کی اجازت مل گئی
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف سعودی عرب کے سرکاری دورے پر ریاض پہنچ گئے، کنگ خالد ایئرپورٹ پر پرتپاک استقبال
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • 16 ستمبر اور جنرل ضیاءالحق