جنگ بندی ہماری ضرورت یا مجبوری نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
15 ماہ تک امریکا، برطانیہ اور دیگر صلیبیوں کے ڈالر اور اسلحہ سے لیس ہو کر دجالی ریاست (اسرائیل) اہل غزہ پر حملہ آور رہی۔ اِس دوران عالمی ضمیر سوتا اور جاگتا رہا، اقوام متحدہ، عرب لیگ اور او آئی سی سمیت تمام عالمی ادارے اسرائیلی جارحیت اور دہشت گردی کو روکنے میں ناکام رہے۔ اسکول، اسپتال، رفاعی اور امدادی اداروں سمیت خوراک اور پانی کے تمام ذرائع اور ذخائر تباہ کردیے گئے۔ اِنسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوئی بھی امداد کسی متاثر تک پہنچنے نہیں دی گئی۔ یہاں تک کہ کھانے کے انتظار میں کھڑے بھوک اور پیاس سے نڈھال بچوں پر بھی بمباری کردی گئی۔ اسپتالوں کے اندر سے عملہ نکال کر زخمیوں اور مریضوں کے دروازے بند کردیے گئے تا کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرجائیں۔ مسلم خواتین ڈاکٹرز کو اسپتالوں کے اندر یہودی فوجیوں نے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا اور بعدازاں اِن مظلوم خواتین کو قتل کرکے اسپتالوں کے اندر ہی اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا۔ مسلم قیدی خواتین کی اسرائیلی جیلوں کے اندر برہنہ پریڈ کرائی گئی، 50 ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان مرد، خواتین اور بچے موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ معذور، زخمی اور دربار ہوجانے والوں کی تعداد بھی لاتعداد ہے۔ مساجد سمیت پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔
غرضیکہ آج کی دنیا جسے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ ہے اِن تمام تر مظالم اور درندگی کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتی اور تماشائی بنی رہی۔ مذمت کے بیانات مظلومین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف رہے، مسلم حکمرانوں سمیت مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی کسی نے بھی کوئی ’’فوجی مدد‘‘ نہیں کی۔ مزید برآں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ اسرائیلی دہشت گردی اور جارحیت محض اہل غزہ اور بیت المقدس کے قریب ترین علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس دوران اسرائیل نے ایران، لبنان، شام، عراق اور یمن تک کے علاقوں اور شہریوں کو نشانہ بنایا۔ اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور حسن نصر اللہ سمیت درجنوں مجاہدین رہنمائوں کو بھی انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ دجالی ریاست (اسرائیل) کی قیادت نے اپنے 77 سالہ ناجائز قبضے پر کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا نقشہ بھی جاری کردیا کہ جس میں اسرائیل کی سرحدیں سعودی عرب کے صحرائوں سے ہوتی ہوئی دریائے فرات کے کناروں تک جارہی ہیں۔
یہود و نصاریٰ نے انبیاؑ کی عظیم ہستیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، یہود و نصاریٰ نے مل کر اہل اسلام کو کس قدر تکلیف پہنچائی، یہود و نصاریٰ خدا کی زمین پر کتنا بڑا فساد اور فتنہ ہیں یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ صدیوں پہلے قرآن پاک نے اِس کی تصدیق اور وضاحت فرمادی ہے۔ یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ سے کبھی بھی عالمی امن کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ اب تو یہود و نصاریٰ کے ساتھ ایک تیسرا فتنہ ’’ہنود‘‘ کا بھی شامل ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے جن دو غیر ملکی رہنمائوں سے ملاقات کی اُن میں یہودی صدر نیتن یاہو اور ہندو انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی بالترتیب شامل تھے۔ ٹرمپ، نیتن یاہو اور مودی کی ملاقاتوں سے ثابت ہوگیا کہ جب تک طاقت کا توازن اِن تینوں شیطانی قوتوں کے پاس رہے گا تب تک مقبوضہ کشمیر سے مقبوضہ فلسطین تک ’’رقص ِ ابلیس‘‘ جاری رہے گا۔ دنیا انصاف سے خالی اور امن سے محروم رہے گی۔
قدیم اور جدید انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بالآخر ظالم ہی مظلوم کے مقابلے میں ناک رگڑنے پر مجبور ہوا جبکہ مظلوم زخموں سے چور چور ہو کر بھی فاتح اور سرخرو ہو کر میدان جنگ سے باہر آیا۔ اب بھی ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ ’’جنگ بندی‘‘ ہماری کوئی لازمی ضرورت یا مجبوری نہیں بلکہ ہمارے لیے ’’جہاد‘‘ مجبوری اور شہادت ضروری ہے۔ غلامی میں ہم زندہ نہیں رہ سکتے اس لیے ہم زندگی پر موت اور غلامی پر شہادت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ نواسہ رسولؐ سیدنا امام حسینؓ نے کربلا میں ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ’’جب موت نے آنا ہی ہے تو پھر سب سے بہتر شہادت کی موت ہے‘‘۔
اسرائیل شاید اس بات کو بھول رہا ہے کہ ’’جنگ بندی‘‘ ہماری خواہش نہیں بلکہ خود یہودی عوام کی اپنی ضرورت اور مجبوری تھی کیونکہ وہ اپنے پیاروں کو زندہ دیکھنا چاہتے تھے جبکہ ہم نے تو اپنے شہدا کی گنتی ہی چھوڑ دی ہے۔ جن کی نگاہ اللہ کی رضا پر ہو اور جن کا انعام جنت الفردوس ہو انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ وائٹ ہائوس میں بیٹھے دروغہ جہنم کے بیانات پر غور کریں۔ بہرحال یہود، ہنود اور نصاریٰ کی قیادت کو یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ ایسی کوئی ’’جنگ بندی‘‘ ہرگز ہرگز کبھی قابل قبول نہیں ہوگی کہ جس کے نتیجے میں مسلمان بیت المقدس سے دستبردار ہوجائیں، آزاد فلسطین ریاست کا مطالبہ واپس لے لیں۔ اللہ پاک تمام مظلومین و اہل ایمان کو فتح اور غلبہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یہود و نصاری کے اندر
پڑھیں:
اسرائیل کا غزہ جانے والی امدادی کشتی پر چھاپہ، گریٹا تھنبرگ اور گیم آف تھرونز کے اداکار سمیت تمام کارکن گرفتار
اسرائیلی فوج نے مشہور ماحولیاتی ایکٹیوسٹ گریٹا تھنبرگ کی سربراہی میں غزہ جانے والی امدادی کشتی ‘میڈلین’ کو بین الاقوامی پانیوں میں روک کر اسرائیل منتقل کردیا ہے۔
اس کشتی پر سوار معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، ‘گیم آف تھرونز’ کے اداکار لیئم کننگھم اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن سمیت تمام افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ ابتک کتنے لاکھ فلسطینی بے گھر ہو ئے؟ اقوام متحدہ نے بتا دیا
کشتی ‘میڈلین’ کو ‘فریڈم فلوٹیلا کولیشن’ کے تحت غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے روانہ کیا گیا تھا۔ فریڈم فلوٹیلا نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے بین الاقوامی پانیوں میں کشتی پر حملہ کیا، اور کشتی کے ارد گرد ڈرونز نے سفید رنگ جیسا مادہ چھڑکا، جبکہ ریڈیو پر خلل ڈالنے والی آوازیں نشر کی گئیں۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے بعد میں ایک ویڈیو جاری کی جس میں ‘میڈلین’ کے عملے کو لائف جیکٹس پہنے دکھایا گیا۔ ویڈیو میں گریٹا تھنبرگ کو آگے بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے کہا کہ میں نے آئی ڈی ایف کو ہدایت دی ہے کہ وہ ‘میڈلین’ کو غزہ پہنچنے سے روکے۔ اس کے بعد عملے کو اسرائیلی بندرگاہ اشدود لے جایا گیا جہاں فوجی اہلکاروں نے ان سے پوچھ گچھ کی اور مبینہ طور پر انہیں 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کی ویڈیوز بھی دکھائی گئیں۔
یہ بھی پڑھیے: ملالہ یوسف زئی کا ایک بار پھر غزہ میں مستقل جنگ بندی اور امداد کی فراہمی کا مطالبہ
دوسری جانب حماس نے اس کارروائی کو ‘بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی’ قرار دیتے ہوئے کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے 2 مارچ کو غزہ پر مکمل انسانی امدادی ناکہ بندی نافذ کی تھی، جس کے بعد 2.1 ملین فلسطینیوں کو خوراک اور ادویات تک رسائی نہیں مل رہی۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امداد غزہ کشتہ گریٹا تھنبرگ میڈلین