صاحب سیف و قلم خوشحال خان خٹک کی مزاحمتی زندگی
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
پشتونوں کی دستیاب تاریخ میں اگر خوشحال خان خٹک کو سب سے معتبر اور مشہور شخصیت قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، کیونکہ ان کی شخصیت کے مختلف اور منفرد پہلوؤں نے نہ صرف اِن کو کئی صدیوں زندہ اور مقبول رکھا، بلکہ ان کو ایک “مزاحمتی استعارہ” کی حیثیت بھی حاصل رہی ہے۔
سال 1613 کو ضلع نوشہرہ خیبرپختونخوا کے گاؤں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہونے والے خوشحال خٹک نے اپنی 75 سالہ زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے، وہ فروری 1689 میں ایک شاندار مزاحمتی زندگی گزارنے کے بعد وفات پا گئے، مگر پشتون معاشرت اور سیاست میں ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔
تقریباً 3 صدیاں گزرنے کے باوجود ان کی مقبولیت اور اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، وہ نہ صرف منفرد انداز کے شاعر رہے، بلکہ ان کو پشتون قبائل کو اکھٹا کرکے اس زمانے کی طاقتور “مغل ایمپائر” کو متعدد بار شکست دینے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔
اسی پس منظر میں ان کو پشتونوں کے نیشنل ہیرو کا خطاب دیا گیا اور ان کی شاعری کو پاکستان کے علاوہ افغانستان اور ایران میں بھی بہت مقبولیت حاصل رہی۔
ابتدائی زندگی میں وہ مغلیہ سلطنت کے وفاداروں میں شامل رہے اور یہ وفاداری ان کو اپنے والد شہباز خان خٹک سے وراثت میں ملی تھی۔ تاہم بعد میں جب وہ بوجوہ مغل شہنشاہ اورنگزیب سے بغاوت پر اُتر آئے تو انہوں نے مغلیہ سلطنت کو ہلاکر رکھ دیا۔
اسی تناظر میں خوشحال خان خٹک کی زندگی کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ ان کے “دور وفاداری” پر مشتمل ہے، جبکہ آخری حصے میں ان کی مزاحمتی زندگی کو ڈالا جاسکتا ہے۔ درمیان میں ان کی شاعری کا وہ یادگار دور رہا جس نے ان کو اَمر کر دیا۔
وہ کئی شعرا کے علاوہ ہندوستان، ایران، پاکستان اور افغانستان میں مقبولیت پانے والے علامہ محمد اقبال کے بھی “محبوب شاعر” ٹھہرے۔
علامہ محمد اقبال نے متعدد بار خود اعتراف کیا کہ انہوں نے شاہین اور خودداری سے متعلق افکار خوشحال خان خٹک کی شاعری پڑھنے کے بعد اختیار کیں۔ ماہرین کے مطابق اقبال نے ان کی فارسی شاعری خود پڑھی، جبکہ پشتو شاعری کو دوستوں سے پڑھوایا۔
علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں 2 یا3 بار جب افغانستان کے دورے پر گئے تو انہوں نے افغان حکمرانوں خصوصاً غازی امان اللہ خان کو خوشحال خان خٹک کی تعلیمات عام کرنے کی تجویز دی، علامہ نے دوسرا کام یہ کیا کہ فارسی کو نصاب اور تعلیمی اداروں میں عام کرنے کی سفارش بھی کی۔
اسی دور کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ فارسی آبادی کے تناظر میں اقلیت میں رہنے کے باوجود افغانستان میں ایلیٹ رولنگ کلاس کی زبان رہی، اور ایک دور میں پشتو کی حالت یہ تھی کہ غازی امان اللہ خان جیسے قوم پرست رہنما بھی پشتو بولنے سے قاصر رہے، جس پر ممتاز پشتون لیڈر خان عبد الغفار خان المعروف باچا خان نے ان کے ساتھ کی گئی۔
ایک ملاقات کے دوران نہ صرف ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ یہ شرط اور خواہش بھی رکھی کہ دوسری بار جب وہ ان (غازی امان اللہ خان) کے ساتھ ملاقات کریں گے تو امید رکھتے ہیں کہ دونوں کے درمیان پشتو زبان میں بات چیت ہوگی۔ اسی تناظر میں بعد میں افغانستان اور پاکستان کے اندر خوشحال خان خٹک کی تعلیمات سے کافی استفادہ حاصل کرنے کا سلسلہ تیز ہوا اور وہ ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کرگئے۔
جہاں تک مغلیہ سلطنت کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں اور مزاحمت کا تعلق ہے وہ پشتون تاریخ کا ایک قابل فخر باب کہلایا جاسکتا ہے۔
ابتداء میں خوشحال خان خٹک نے اسی مغلیہ سلطنت کے مفادات کے لیے یوسفزئی قبائل کے ساتھ جھڑپیں کیں اور فریقین میں بڑی جنگیں ہوئیں، تاہم جب خوشحال خان خٹک مزاحمت پر اتر آئے تو جن 2 پشتون قبائل پر ان کا اپنے قبیلے کے بعد زیادہ انحصار رہا وہ یوسفزئی اور آفریدی قبائل تھے۔
ان 3 قبائل نے اورنگزیب عالمگیر کی حکومت کو سخت مشکلات سے دوچار کیا اور مغلیہ سلطنت کو لمبے عرصے تک اس ریجن میں متعدد بار شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ غالباً اسی وابستگی کا نتیجہ تھا کہ خوشحال خان خٹک کا انتقال اکثر ماہرین کے مطابق اپنے علاقے کی بجائے موجودہ ضلع خیبر کے علاقے وادی تیراہ میں ہوا جہاں وہ مزاحمتی آفریدی قبائل کے ساتھ رہایش پذیر تھے۔
اس بارے میں اکثر مورخین اور ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ مغلیہ سلطنت نے خوشحال خان خٹک کے بعض بیٹوں خصوصاً بہرام خان کو ان کے والد کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا تھا اس لیے وہ بڑھاپے میں وادی تیراہ منتقل ہوگئے جہاں 75 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔
انتقال کے بعد ان کی جسد خاکی کو ان کے آبائی گاؤں اکوڑہ خٹک لایا گیا جہاں اس وقت ان کا مزار موجود ہے اور روزانہ درجنوں، سینکڑوں لوگ ان کی مزار پر حاضری دیتے ہیں۔
خوشحال خان خٹک کو عام پشتون خوشحال بابا کے نام سے مخاطب کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پشتونوں نے ان کو ہی غیر متنازعہ طور پر پہلی بار”بابا” کے خطاب سے نوازا ہے تو غلط نہیں ہوگا، بعد میں یہ خطاب جن پشتون شخصیات کے حصے میں آیا ان میں احمد شاہ ابدالی، باچا خان اور خوشحال خان خٹک کے ہم عصر شاعر رحمان بابا شامل ہیں۔
خوشحال خان خٹک مزاحمتی شاعری کے علاوہ بولڈ شاعری کے موجد رہے ہیں اور ان کی اسی شاعری نے سینکڑوں دیگر کے لیے بولڈ شاعری کی ہمت دی۔ جنسیات پر مشتمل ان کی شاعری پڑھ کر اکیسویں صدی میں بھی بہت سے کم لوگ اس پر یقین کرنے کو تیار نظر آئیں گے کہ صدیوں قبل ایک پشتون شاعر نے جنسیات سے متعلق اتنا کچھ اتنا کھل کر لکھا ہے۔
مختلف پشتون قبائل اور علاقوں کی خصوصیات اور کمزوریوں پر خوشحال خان خٹک نے صدیوں قبل جو تاثرات بیان کیے ہیں وہ کمال کے ہیں۔ شاید ہی انہوں نے اپنے سمیت کسی کو معاف کیا ہو اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ناقدین بھی ان کی جرات اور مشاہدات کا شاندار الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں۔
وہ کمال درجے کے طبیب بھی تھے اور وہ باقاعدہ لوگوں کا نہ صرف یہ کہ علاج کیا کرتے تھے بلکہ انہوں نے مختلف امراض کا اپنی شاعری کے ذریعے اسباب اور علاج بھی بتائے ہیں۔
ان کو قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ پشتونوں کے علاوہ دوسری اقوام میں بھی ان کو عزت و احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔
اس بات کا بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ خوشحال خان خٹک اس زمانے میں سائنسی علوم پر بھی بہت عبور رکھتے تھے، علم فلکیات کے بارے میں ان کی معلومات ناقابل یقین حد تک قابل رشک رہی ہیں۔
ان کی زندگی، شاعری اور جدوجہد پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز شاعر اور صحافی روحان یوسفزئی کا کہنا ہے کہ دستیاب پشتون تاریخ میں خوشحال خان خٹک سے شاید ہی کوئی بڑی شخصیت گزری ہو، کیونکہ وہ مختلف شعبوں میں آل راؤنڈر تھے، اور آج کی نسل بھی ان سے لاتعلق یا بے خبر نہیں ہے۔
روحان یوسفزئی کے بقول خوشحال خان خٹک کو سب پشتون اپنے “بابا” کے نام سے مخاطب کرتے ہیں اور سب ان کی اونرشپ لینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
وہ نہ صرف یہ کہ بہت اچھے اور منفرد شاعر اور سکالر تھے، بلکہ ایک عظیم جنگجو اور سپہ سالار بھی تھے یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ان جیسی ہمہ گیر شخصیت بہت کم پائی جاتی ہے۔
روحان یوسفزئی کے مطابق خوشحال خان خٹک کی زندگی اور تعلیمات نے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی مقبولیت اور شہرت میں مزید اضافہ ہوتا آیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خوشحال خان خٹک کی مغلیہ سلطنت انہوں نے کرتے ہیں کے علاوہ کی شاعری کے ساتھ ان کو ا کے بعد
پڑھیں:
بابا گورو نانک کے جنم دن کی تقریبات، صوبائی وزرا اور اعلیٰ حکام کا ننکانہ صاحب کا دورہ
سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورو نانک دیو جی کے جنم دن کی تقریبات 3 نومبر سے شروع ہوں گی، اس سلسلے میں صوبائی وزرا نے افسران کے ہمراہ ننکانہ صاحب کا دورہ کیا، اور انتظامات کا جائزہ لیا۔
اس موقع پر اجلاس کی صدارت چیئرمین کابینہ کمیٹی برائے امن و امان خواجہ سلمان رفیق اور وزیرِ اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اروڑہ نے کی، جبکہ کمشنر لاہور ڈویژن مریم خان اور آر پی او شیخوپورہ اطہر اسماعیل بھی وفد کے ساتھ موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: گرو نانک کے 555 ویں جنم دن کے موقع پر یادگاری سکہ جاری
اجلاس میں انتظامی افسران، امن کمیٹی ممبران اور سکھ رہنماؤں نے شرکت کی۔ ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راؤ اور ڈی پی او فراز احمد نے انتظامات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بابا گورو نانک کے جنم دن کی تقریبات 3 سے 6 نومبر تک جاری رہیں گی اور تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
بریفنگ کے مطابق 5 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے، شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے اور تین کنٹرول رومز قائم کیے گئے ہیں، جبکہ صفائی ستھرائی، کھانے اور رہائش کے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ گوردواروں میں ہسپتال اور فسیلیٹیشن ڈیسک بھی قائم ہیں۔ انتظامیہ کے مطابق موک ایکسرسائز بھی مکمل کر لی گئی ہے اور ننکانہ شہر کو گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ رکھا جائے گا، جبکہ افسران کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ گوردوارہ جات کو عرقِ گلاب سے دھویا جا رہا ہے۔
تقریبات کا آغاز اکھنڈ پاٹ سے ہوگا جبکہ 5 نومبر کو مرکزی تقریب گوردوارہ جنم استھان میں ہوگی اور نگر کیرتن کا جلوس بھی نکالا جائے گا۔
سردار رمیش سنگھ اروڑہ کے مطابق بھارت سے 2100 سکھ یاتری واہگہ بارڈر کے ذریعے شرکت کے لیے آئیں گے جبکہ مجموعی طور پر 30 ہزار یاتریوں کی آمد متوقع ہے۔
انہوں نے ہدایت کی کہ یاتریوں کو مقررہ نرخوں پر اشیا کی فراہمی، ٹریفک پلان اور فسیلیٹیشن کاؤنٹرز میں اضافہ یقینی بنایا جائے۔
خواجہ سلمان رفیق نے کہاکہ وزیراعلیٰ پنجاب اقلیتوں کے تمام ایونٹس میں ذاتی دلچسپی رکھتی ہیں اور جنم دن کی تقریبات کے انتظامات انہی کی ہدایت پر دیکھے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارتی سکھ یاتری حکومت پاکستان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
انہوں نے کہاکہ بابا گورو نانک دیو جی کا ہر مذہب احترام کرتا ہے اور ننکانہ صاحب آکر سکھ برادری سے یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سکھ یاتریوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے، اہلکار خوش اخلاقی سے فرائض انجام دیں اور لاہور و فیصل آباد کے ہسپتالوں میں سکھ یاتریوں کے لیے خصوصی وارڈز قائم کیے جائیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بابا گرونانک جنم دن تقریبات صوبائی وزرا ننکانہ صاحب کا دورہ وی نیوز