Express News:
2025-07-26@06:34:59 GMT

ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی امداد بحال

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

تحریک انصاف امریکا کی بھر پور کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ٹرمپ انتظامیہ بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالے۔ اس مقصد کے لیے بھر پور لابنگ کی گئی۔ یہاں تک کہا گیا کہ جب تک امریکا کی جانب سے پاکستان پر پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی تب تک پاکستان پر دباؤ نہیں آئے گا۔

اس لیے بانی تحریک انصاف کی رہائی تک پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں۔ اس ضمن میں آرمی چیف کو بھی خصوصی ٹارگٹ کیا گیا اور پاکستان پر فوجی پابندیاں لگانے کے لیے بھی زور لگایا گیا۔ آرمی چیف کے حالیہ دورہ برطانیہ کے دوران ایک ناکام احتجاج بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔تا ہم تحریک انصاف ابھی تک ٹرمپ انتظامیہ سے پاکستان پر کوئی دباؤ ڈلوانے میں ناکام رہی ہے۔

امریکی انتخابات سے پہلے تو ایسا ماحول بنایا جا رہا تھا کہ جیسے ٹرمپ اور اس کے تمام ساتھی تحریک انصاف امریکا کی جیب میں ہیں۔ رچرڈ گرنیل کے ٹوئٹس نے بھی ماحول کو کافی گرما دیا تھا۔ لیکن پھر رچرڈ گرنیل نے تمام ٹوئٹس ڈیلیٹ کر دیے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے انھیں کوئی لفٹ بھی نہیں ہے۔

ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنبھالتے ہی دنیا بھر کے لیے امریکی ایڈ بند کر دی۔ صرف پاکستان کے لیے بند نہیں کی گئی۔ ہم نے امریکی کی نئی حکومت کی جانب سے بہت شور سنا یو ایس ایڈ میں بہت کرپشن ہو گئی ہے۔ ایسے میں ہمارے تحریک انصاف کے دوستوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پاکستان میں یو ایس ایڈ کے منصوبوں میں بھی بہت کرپشن ہوئی ہے، اس کا بھی آڈٹ ہونا چاہیے۔ ایک طوفان بدتمیزی نظر آرہا تھا۔ لیکن اب خبر یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے لیے 5.

3 ارب ڈالر کی امداد جاری کردی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے غیر ملکی امداد کے منجمد فنڈز میں سے پاکستان سے متعلق پروگراموں کے لیے 397 ملین ڈالر سمیت 5.3 ارب ڈالر جاری کر دیے ہیں۔امریکی کانگریس کے ایک عہدیدار کے مطابق پاکستان میں امریکی حمایت یافتہ پروگراموں کے لیے 397 ملین ڈالرز مختص کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد غیر ملکی امداد روکنے کا حکم دیا تھا، تاہم اب یہ فنڈز جاری کیے جا رہے ہیں۔یہ کوئی معمولی خبر نہیں ہے۔ اس وقت امریکا دنیا میں کسی کو پیسے دینے کے موڈ میں نہیں ہے بلکہ پیسے لینے کے موڈ میں ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے یو ایس ایڈ کی بحالی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے پاکستان امریکا تعلقات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی، اس حوالے سے کبھی امریکی کانگریس اراکین کے ذریعے خطوط لکھوائے گئے، کبھی آئی ایم ایف کو خطوط لکھ کر قرض پروگرام روکنے کی مذموم کوشش کی گئی۔امریکی ارکان کانگریس سے پاکستان کے خلاف توئٹس کرائے گئے۔ اس سے پہلے تو یو ایس کانگریس کی جانب سے قرار داد بھی منظور کرائی گئی ۔ بائیڈن انتظامیہ میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بریفنگ میں خاص طور پر پاکستان مخالف سوال کرائے جاتے تھے۔ لیکن وہ نہ تب کامیاب ہوئے اور اب بھی ساری کوششیں ناکام ہی ہو گئی ہیں۔

ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے دنیا بدل گئی ہے۔ امریکا کے دوست بدل گئے ہیں، دشمن بدل گئے ہیں۔ دنیا کی ایک نئی صف بندی نظر آرہی ہے۔ کل تک امریکا کے قریبی اتحادی نظر آنے والے اب دشمن لگ رہے ہیں۔ جن کی دوستی کی مثالیں دی جاتی تھیں، وہ اب دشمن نظر آرہے ہیں۔ ایک نئی معاشی جنگ کا آغاز نظر آرہا ہے۔ آپ کینیڈا اور امریکا کے تعلقات کو ہی دیکھ لیں، کیا ہم سوچ بھی سکتے تھے کہ امریکا اور کینیڈا کے درمیان تعلقات اس قدر کشیدہ ہو سکتے ہیں کہ کینیڈا کی سالمیت ہی خطرے میں آجائے گی۔

یہی صورتحال یورپ کے ساتھ بھی ہے۔ کل کا مضبوط نیٹو اتحاد آج ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ امریکا یورپ سے دور ہو رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں یوکرین کے موضوع پر قرار داد میں امریکا نے یورپ کی روس مخالف ترامیم مسترد کر دی ہیں۔ یورپ اور امریکا کی دوستی کے بجائے اب روس اور امریکا کی دوستی کی بات کی جا رہی ہے۔ ایک دم یورپ کمزور نظر آنے لگ گیا ہے۔ یوکرین میں یورپ کے سربراہی اجلاس میں امریکی نمایندہ موجود نہیں تھا۔ امریکا کا یوکرین روس جنگ کے خاتمے کا فارمولہ یورپ کے حق میں نہیں ہے۔ لیکن یورپ بے بس نظر آرہا ہے۔

اس لیے اس وقت امریکا دنیا میں پیسے خرچ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس وقت امریکا دنیا سے اپنے خرچ کیے گئے پیسے واپس لینے کے موڈ میں ہے۔ آپ دیکھیں وہ عالمی تنظیموں سے اس لیے الگ ہو رہا ہے کہ وہاں امریکا کو زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑ رہے تھے۔ اسے اب عالمی اداروں کی چودھراہٹ پیسے خرچ کر کے نہیں چاہیے۔ یہ سب منظر نامہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سمجھ سکیں کہ اس موقع پر پاکستان کے لیے یوایس ایڈ کی بحالی کوئی معمولی بات نہیں۔ یقیناً بیک چینل پر پاکستان اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان بات چیت کافی حد تک کامیاب ہو گئی ہے، یہ اسی کامیابی کا اشارہ ہے۔

اسی طرح جب امریکی انتخابات میں واضح نظر آنے لگا کہ ٹرمپ نئے امریکی صدر ہوںگے تو بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت نے یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی کہ جیسے ہی ٹرمپ اقتدار میں آئے گا بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر ہوں گے مگر یہ سب کچھ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو بیوقوف بنانے اور پاکستانی حکومت پردباؤ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش تھی۔اب لگ رہا کہ وہ سب جھوٹ تھا۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ صرف تحریک انصاف کے کارکنوں کو جھوٹی امید دلانے کی کوشش کی گئی تھی۔

پی ٹی آئی نے امریکی صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد بھی خطوط کا سلسلہ جاری رکھا مگر اس میں نہ انھیں پہلے کامیابی ملی تھی اور نہ ہی اب ملی ہے لہٰذا پی ٹی آئی کا ٹرمپ کارڈ چل نہیں سکا۔ ابھی حال ہی میں عارف علوی جو پاکستان کے سابق صدر بھی ہیں نے دورہ امریکا کے دوران پاکستان کے حوالے سے جو زہر اگلا ، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ایک سابق صدر کو کیا یہ سب کچھ کرنا زیب دیتا ہے؟ جب کہ وہ ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہ کر وہ تمام مراعات حاصل کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں، بہرحال پی ٹی آئی کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور امریکا پاکستان کے ساتھ معاشی، دفاعی اور دیگر شعبوں میں کام کرنے کے لیے پرعزم نظر آتا ہے۔

سابق صدر عار ف علوی نے بھی اپنے حالیہ دورے کے دوران یو ایس ایڈ کو ہی نشانے پر رکھا ہے۔ اور یہی بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے کہ یو ایس ایڈ ماضی میں غلط استعمال ہوئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے کسی بڑے امریکی چینل کو نہیں بلکہ ایک مقامی چینل کو انٹرویو دیا ہے۔ جس کو پاکستان میں سوشل میڈیا میں ایسا ظاہر کیا گیا ہے جیسے امریکا کے کسی بڑے چینل نے ان کا انٹرویو کیا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے ٹرمپ انتظامیہ اور امریکا پاکستان پر سے پاکستان یو ایس ایڈ کی جانب سے کے موڈ میں پی ٹی ا ئی امریکا کی امریکا کے نظر ا رہا کی امداد نہیں ہے کوشش کی رہے ہیں کی گئی رہا ہے رہی ہے

پڑھیں:

اسحاق ڈار کی امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات طے، اہم امور پر بات چیت کا امکان

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار دورہ امریکا کے دوران ایک روز کیلئے واشنگٹن جائیں گے جہاں وہ 25 جولائی کو امریکا کے وزیر خارجہ مارکو روبیو سے اہم ملاقات کریں گے۔ذرائع کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی یہ پہلی ملاقات ہو گی۔ ابھی ملاقات کے ایجنڈے کی تفصیل تو سامنے نہیں آئی مگر امکان ہے کہ نائب وزیراعظم امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاک بھارت جنگ بندی میں کردار پر اظہار تشکر کریں گے۔

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے رہنماؤں کی ایک ملاقات طے ہے جس میں وہ خود بھی موجود ہوں گی۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار ہی کے دستخط سے پاکستان نے خط نوبیل کمیٹی کو ناروے بھیجا ہے جس میں پاکستان کی جانب سے سفارش کی گئی ہے کہ جنوب ایشیا میں قیام امن کیلئے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیرمعمولی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں نوبیل امن انعام دیا جائے۔

(جاری ہے)

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کو دیرینہ حل طلب مسئلہ تسلیم کرتے ہوئے اسے حل کرنے میں کردار کی پیشکش کی تھی جسے پاکستان نے فوری طور پرقبول کرلیا تھا تاہم بھارت ماننے سے گریز کررہا ہے۔اسحاق ڈار کی مارکو روبیو سے یہ ملاقات ایسے وقت بھی ہوگی جب بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحیت جاری ہے اور سندھ طاس معاہدیکو بھارت نے یکطرفہ طور پرمعطل کررکھا ہے اور تاحال کسی نیوٹرل مقام پر مذاکرات سے بھی گریز کر رہا ہے۔امکان ہے کہ ملاقات میں سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے سے متعلق معاملہ بھی زیر بحث آئے گا جبکہ دو طرفہ امور میں پاک امریکا تجارت بڑھانے سیمتعلق امور پر بھی بات چیت کا امکان ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پااکستان امداد نہیں تجارت چاہتا ہے، امریکا سے تجارتی معاہدہ چند ہفتوں میں ہوجائیگا: اسحاق ڈار
  • پاکستان امریکا کے ساتھ ٹریڈ چاہتا ہے ایڈ نہیں: اسحاق ڈار
  • حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی
  • امریکا سے گوشت نہ خریدنے والے ممالک ‘نوٹس’ پر ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
  • کینیڈا کا فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ
  • ٹرمپ کا ‘اے آئی ایکشن پلان’ کا اعلان، کیا امریکا چین کی مصنوعی ذہانت میں ترقی سے خوفزدہ ہے؟
  • ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ
  • امریکی ویزا فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا ہوگا؟
  • عمران خان کے بیٹوں کی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل سے ملاقات
  • اسحاق ڈار کی امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات طے، اہم امور پر بات چیت کا امکان