Express News:
2025-04-25@11:33:31 GMT

ترقی، ایک سوال

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

ڈاکٹر حفیظ پاشا، سابق وزیر خزانہ ہیں، وہ بنیادی طور پر معیشت کے استاد اور محقق ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا مسلسل پاکستانی معیشت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحقیق میں مصروف رہے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے گزشتہ دنوں شایع ہونے والے اپنے تحقیقی مقالوں میں معیشت کی بہتری کے دعوؤں کا پردہ فاش کیا ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت کا پیمانہ مسلسل وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اس وقت آبادی کا 44 فیصد حصہ خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اس وقت یہ تعداد 100 ملین سے زیادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے ملک کو درپیش معاشی بحران کی بناء پر خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ ایک اور ماہرِ معاشیات ڈاکٹر اکبر زیدی نے اپنے آرٹیکل میں تحریرکیا ہے کہ اگرچہ اس وقت افراطِ زرکی شرح 3 فیصد کے قریب ہے مگر اس کے باوجود بنیادی اشیاء کی قیمتیں کم نہیں ہوئیں اور بعض اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے بارے میں بھی اپنے آرٹیکل میں تحریرکیا ہے ۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کا تخمینہ ہے کہ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح 9 فیصد کے قریب ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مزدوروں کی گزشتہ 3 برسوں کے دوران مزدوری کی حقیقی اجرت میں تقریباً 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی تحقیق میں ایک خطرناک عنصرکا خاص طور پر ذکرکیا گیا ہے۔ جنوبی کوریا کی 1972ء میں سیکنڈری اسکولز میں جانے والے طلبہ کی جو تعداد تھی وہ تعداد اس وقت پاکستان میں ہے۔ اسی طرح پاکستان میں پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد کی شرح وہی ہے جو 1973میں جنوبی کوریا کی تھی۔ یہ دور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے۔ پاکستان اس میدان میں جنوبی کوریا سے چار دہائی پیچھے ہے۔

اسی طرح اسٹیٹ بینک کی مختلف رپورٹوں میں مجموعی ڈھانچہ میں نظر آنے والے نقائص کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں مزدوروں کی پیداواری صلاحیتوں میں شدید کمی ظاہر ہوئی ہے۔ ایک طرف معیشت کی ترقی کا ذکر ہوتا ہے تو اسی وقت وفاق کے تحت چلنے والے بیشتر ادارے معاشی بحران کا شکار ہیں۔

اسٹیل ملز اور پی آئی اے کے معاشی اور انتظامی بحران کا تو ذکر عام ہے مگر ریلوے،کراچی پورٹ ٹرسٹ اور ملک کی سرکاری یونیورسیٹیاں اپنے انتظامی اور معاشی بحرانوں سے نکل نہیں پا رہیں۔ ان اداروں میں جن میں اساتذہ، تخلیق کار، انجینئرز سب شامل ہیں، تنخواہوں سے محروم ہیں اور جو لوگ ریٹائر ہوئے ہیں انھیں پنشن نہیں مل رہی ہے۔

پٹرول،گیس اور بجلی کے نرخ کسی طورکم نہیں ہو پا رہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران گیس کی قیمتوں میں سو گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مجموعی طور پرکمی ہوئی ہے مگر حکومت نے گزشتہ سال تیل کی قیمتوں میں بہت معمولی کمی کی اور چند ماہ قبل پٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی تھی۔ پہلے پنجاب حکومت نے اور پھر وفاقی حکومت نے بجلی کے نرخوں میں 3 ماہ کے لیے کمی کے پیکیج کے اعلانات کیے جس سے بجلی کے بلوں میں معمولی کمی رہی مگر پورے ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں ہوئی۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے صنعتی شعبہ خاصا متاثر ہوا۔

مزدوروں کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کی جدوجہد کے لیے سرگرداں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت اس صورتحال سے خاصی متاثر ہے۔ کراچی کے علاوہ لاہور اور فیصل آباد میں بہت سے کارخانے بند ہوئے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ پہلے مالیاتی سال کے چھ ماہ میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 1.

8 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس ایمرجنسی کے عملی اقدامات نظر نہیں آئے، یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی اسکول نہ جانے والے 2 کروڑ سے زیادہ بچوں کی تعداد میں کمی کا امکان نہیں ہے جب کہ ادویات کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امراض بھی زیادہ پھیل رہے ہیں۔ حکومت کے مستقل اقدامات کے باوجود پولیو تھم نہیں رہا۔ گزشتہ ہفتے تک پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد ایک سال میں 80 کے ہندسہ کے قریب پہنچ گئی تھی۔

جب بھی پولیو کی مہم شروع ہوتی ہے پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس، رینجرز اور ایف سی کے سپاہیوں کی شہادتوں کی خبریں آنے لگتی ہیں۔ حکومت ایک طرف تو ریاستی ڈھانچے میں کمی کا اعلان کرتی ہے۔ روزانہ وفاقی وزارتوں سے آسامیوں کے خاتمے اور مختلف وزارتوں اور ڈویژن کے انضمام کی خبریں آتی ہیں تو دوسری طرف یہ خبریں نمایاں ہوتی ہیں کہ بجلی اورگیس کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے والے ادارہ کے اراکین نے اپنی تنخواہوں میں تین گنا سے زیادہ اضافہ کرلیا ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے کابینہ کی منظوری کے بغیر نیپرا کے چیئرمین اور اراکین کی تنخواہوں میں ازخود اضافے کا نوٹس لیا ہے۔ پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بدعنوانی کے خاتمہ اور شفافیت کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے، مگر ہر ہفتے ذرایع ابلاغ پرکئی اسکینڈل کا چرچا ہوتا ہے۔

سینیٹ کی میری ٹائمز افیئرزکمیٹی کے اجلاس کی ایک سینیٹر نے انکشاف کیا ہے کہ پورٹ قاسم کی 150 ایکڑ اراضی کو کم قیمت پر فروخت کیا گیا جس سے سرکاری خزانہ کو 160 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح کراچی پورٹ کی 140 ارب کی زمین کو 15 ارب میں فروخت کیا گیا۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ حکومت سندھ نے اسٹیل ملز کی 56 ایکڑ زمین 4 افراد کو انتہائی کم قیمت پر فروخت کردی ہے۔

اسی طرح اسٹیل ملز کی بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں خزانہ کو 1 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختون خوا میں ایک ٹیچنگ اسپتال میں 13لاکھ ڈالرکی MRI مشین کی خریداری ایک معمہ بن گئی۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کی حکومت کا یہ اسکینڈل بھی زیرِ بحث ہے کہ جنوبی وزیرستان میں 36 ہیلتھ سینٹر قبائلی سرداروں کے حجروں میں قائم ہیں، یوں ان ہیلتھ سینٹروں کا بجٹ بااثر سرداروں اور لواحقین کی بہبود پر خرچ ہو رہا ہے۔

حکومت نے آئی ایم ایف کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے گندم کی سپورٹ پرائز دینے سے انکارکیا ہے۔ اس فیصلہ کے نتیجے میں کسان اور چھوٹے زمیندار مڈل مین اور آڑھتی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ گزشتہ سال گندم کی بلاوجہ درآمد سے سب سے زیادہ نقصان پنجاب کے کسانوں اور چھوٹے کاشتکاروں کو ہوا تھا۔

اب نئی پالیسی کے نتیجے میں کسان گندم اگانے سے پرہیزکریں گے اور اگلے سال پھرگندم کا بحران پیدا ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ کلائیمنٹ چینج کی بناء پر پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو اس سال سے خشک سالی کا شکار ہو رہے ہیں۔ حکومت زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے نئے تضادات پیدا کررہی ہے۔ سارے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ قرضوں کا بوجھ بڑھنے اور مختلف ممالک سے ایم او یوز دستخط کرنے کی اچھی خبروں کے باوجود غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کسی صورت کم نہیں ہو رہی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر حفیظ پاشا کی قیمتوں کی تعداد حکومت نے سے زیادہ نہیں ہو بجلی کے ملک میں ہوئی ہے گیس کی کیا ہے ہیں کہ رہی ہے

پڑھیں:

عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ

اسلام آباد(خصوصی رپورٹر +نوائے وقت رپورٹ)سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر حکومت پنجاب کی اپیلیں نمٹا دیں جب کہ دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ  نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر حکومت پنجاب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکلا دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ  نے ریمارکس دیئے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی  نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں، جسمانی ریمانڈ کی تھی۔ جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ  کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی  نے مؤقف اپنایا کہ ملزم بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جیل میں زیر حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے، میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد سپلیمنٹری چلان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لیکر ٹیسٹ کروا لیں۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی۔اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے استدلال کیا کہ 14 جولائی 2024 کو ٹیم بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کردیا، ریکارڈ میں بانی پی ٹی آئی کے فیس بک، ٹیوٹر اور اسٹاگرام پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کیا گیا اگر بانی پی ٹی کی گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہوگا۔جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ  اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جاکر فرانزک ٹیسٹ کروائیں، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ  اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دیدی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔ذوالفقار نقوی نے کہا کہ  میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں،  پانچ دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا، نامزد ملزم کی اپیل 2017 میں ابتدائی سماعت کیلئے منظور ہوئی۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ کیس میں نامزد ملزم سات سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، تین ماہ کے وقت میں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ  بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر کی گئی اپیلیں دو بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے۔حکمنامہ کے مطابق بانی پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچویل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی فضائیہ بمقابلہ بھارتی فضائیہ: صلاحیت، ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کا موازنہ
  • شادی سے پہلے لڑکی سے اسکی تنخواہ پوچھنے والا مرد، مرد نہیں ہوتا، خلیل الرحمان قمر
  • طورخم بارڈر سے مزید 2258 افراد واپس افغانستان چلے گئے
  • عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
  • بھارت کسی بھی جارحیت سے باز رہے، ہر بار چائے نہیں پلائیں گے، عظمیٰ بخاری
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
  • ن لیگ والے ضیا الحق کے وارث تو ہو سکتے ہیں پنجاب کے نہیں: پی پی رہنما
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا جسمانی ریمانڈ کا سوال پیدا نہیں ہوتا: عدالت
  • بتایا جائے اس ایوان کی کیا عزت رہ گئی ہے؟ شبلی فراز کا سوال