Express News:
2025-04-25@03:01:52 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

غزل 
اگلے پل ہی سامنے پھر کھینچ لاتا ہے مجھے
اتنی جلدی آئنہ کیا بھول جاتا ہے مجھے
وار میرا آج بھی کاری ہے لیکن کیا کروں
بَین کرتی عورتوں سے خوف آتا ہے مجھے
ایک تو ہے وقت کی زد پر فصیلِ جسم بھی
دوسرا اک غم کہیں اندر سے کھاتا ہے مجھے
رات بھر کرتا ہوں اپنے آپ کو تعمیر میں
کون ہے جو صبح دَم پھر سے گراتا ہے مجھے
جاں فشانی کا برا ہو، پوچھتے ہیں لوگ بھی
جُز محبت اور کیا کیا کام آتا ہے مجھے
وصل کی امید پر خود کو بھلا دیتا ہوں میں
ہجر آ کے آخرش مجھ سے ملاتا ہے مجھے
جانتا ہوں موت سے بچنے کا گُر لیکن اسد ؔ
دیر ہو جاتی ہے جب وہ یاد آتا ہے مجھے
(اسد رحمان۔ پپلاں)

غزل
لہکی ہوئی شاخوں پہ گل افشاں نہ ہوا تھا
یوں جشنِ طلب، جشنِ بہاراں نہ ہوا تھا
وہ زخم مجھے طوقِ گلو جیسا لگا ہے
جو زخم بھی پیوستِ رگِ جاں نہ ہوا تھا
اس بار ملا کیا کہ جدائی ہی جدائی
ہوتا تھا مگر یوں بھی گریزاں نہ ہوا تھا
قاتل کی جبیں پر بھی پسینے کی شکن ہے
ہیبت سے کبھی ایسی پریشاں نہ ہوا تھا
کچھ بات تو دامن کو لگی گل کی مہک میں
کانٹوں سے یونہی دست و گریباں نہ ہوا تھا
کیوں سیلِ بلا خیز بہا کر نہ گیا غم
کیوں شکوہ کم ظرفیِ طوفاں نہ ہوا تھا
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)

غزل
حوصلہ دیتے اشارے سے الگ ہونے لگا
میں ترے دھوپ کنارے سے الگ ہونے لگا
کیا ملا ہجر حویلی کی لپائی کر کے
سوکھے گارے کے تغارے سے الگ ہونے لگا
اس افق پار بلاوے کی کرن دمکی تھی
عہد باندھے ہوئے تارے سے الگ ہونے لگا
خواہشِ نفع میں کیا سانس شماری کرتا
روز کے بڑھتے خسارے سے الگ ہونے لگا
اپنی ہی ذات میں چھپنے کا عمل دیکھنا تھا
جیتنے والے سے، ہارے سے الگ ہونے لگا
تیری کشتی سے یونہی سا تھا تعلق میرا
اب میں تنکے کے سہارے سے الگ ہونے لگا
میں مداراتِ دل و جاں میں لگا ہوں طاہرؔ
نفس کے پھولے غبارے سے الگ ہونے لگا
(قیوم طاہر۔ راولپنڈی)

غزل
خوف کچھ پرچھائیوں سے اس قدر کھاتا ہوں میں
اپنے اندر جھانکتا ہوں اور ڈر جاتا ہوں میں
دوستو دیکھو یہ دنیا ہے اُسی جانب رہو
آئینے سے جھانکتے لوگوں کو سمجھاتا ہوں میں
اس کی آنکھوں سے پرے بیٹھا ہوں سو وہ دیکھ لے
دیکھیے اب کب تلک اس کو نظر آتا ہوں میں
پہلے برسوں کی ریاضت سے جلاتا ہوں میں آگ
آگ جلنے سے ذرا پہلے ہی بجھ جاتا ہوں میں
دل بھٹک جاتا ہے بچے کی طرح بازار میں
اس کو انگلی سے پکڑ کے گھر تلک لاتا ہوں میں
(احمد اویس۔ فیصل آباد)

غزل
ننی دیوار میں بھی تجھ سے دریچہ نہ بنا
اس لیے تو مرے دل تک ترا رستا نہ بنا
قد سے چھوٹے ہیں مگر مجھ سے بڑی نفرت ہے
پیڑ کو کہتے ہیں اس کے لیے سایا نہ بنا
اتنے تو یار ترے ہم بھی چلن جانتے ہیں
باغ یہ سبز دکھا کر ہمیں صحرا نہ بنا
روز مجھ سے یہ اداکاری نہیں ہو سکتی
اس لیے میرا جہاں بھر میں تماشا نہ بنا
تو نے بے کار ہیولا سا بنا ڈالا ہے
ایک حصہ بھی مرے خواب کا پورا نہ بنا
زندگی کیا ہے بتانا تھا کسی کو میں نے
لکھنے بیٹھا ہوں تو اس پر کوئی جملہ نہ بنا
کتنی نسلیں یہی کہتے ہوئے مر جائیں گی
اگلے لوگوں سے کبھی اچھا زمانہ نہ بنا
آئنہ سامنے ہوتے ہوئے اُن سے عادسؔ
کوئی چہرہ نہ بنا،کوئی شناسا نہ بنا
(امجد عادس۔راولاکوٹ)

غزل
اسے رہگزر کوئی کھا گئی یا بچھڑ کے اپنے ہی گھر گیا
''وہ جو عمر بھر کی رفاقتوں کا تھا مدعی وہ کدھر گیا''
وہ جو خواب تھے وہ بکھر گئے وہ جو آس تھی وہ سمٹ گئی
مجھے خوف جس کا تھا ہر گھڑی، مرا ہم نوا وہی کر گیا
یہ نئے زمانے کی ریت ہے تری کیا خطا تجھے کیا کہوں
تجھے دل سے جس نے لگایا تھا وہی تیرے دل سے اتر گیا
نہیں سہل عشق کی رہگزر،میں الم نصیب و خطا سرشت
اے نئے نئے سے مسافرو! جو چلا تو چل کے بکھر گیا
کبھی صحنِ دل میں اداسیاں جو بڑھیں تو ساز میں ڈھل گئیں
کبھی غم جو میری اساس ہے مری چشمِ تر میں ٹھہر گیا
مری ذات مشتِ غبار ہے ترا اختروں میں شمار ہے
ذرا یہ بتا کہ بچھڑکے تو،کہاں رفعتوں پہ ٹھہر گیا!
میں پھروں ہوں بارِجفا لیے کبھی اس ڈگر کبھی اُس نگر
کہ ثمرؔ یہاں کا رواج ہے جو بھی چپ رہا وہی مر گیا
(ثمریاب ثمر۔سہارنپور،اترپردیش، بھارت)

غزل
پھول کے ساتھ یوں ملائے پھول
پھول لائے ہیں ہم برائے پھول
اُس کی نرمی کا کیا بیاں کریے
وہ جو کھانے میں صرف کھائے پھول
من کا آنگن ہوا معطر تب
اُس نے ہنس ہنس کے جب کھلائے پھول
اُن کو دیکھا تو خوش ہوئی تتلی
اُن کو دیکھا تو مسکرائے پھول
اُن سے بنتی ہے سارے گلشن کی
مان لیتے ہیں اُن کی رائے پھول
یاد آیا وہ شبنمی چہرہ
پھول والے نے جب دکھائے پھول
آپ کے ہونٹ تھے تصور میں
ہم نے کاغذ پہ جب بنائے پھول
کون رکھتا ہے اپنے گلداں میں
اے مرے ہم نفس پرائے پھول
آپ جائیں گے جان سے اپنی
ہم نے بالوں میں گر سجائے پھول
تھی زمستانی چال موسم کی
رات بھر اوس میں نہائے پھول
جاگ اُٹھی ہماری محرومی
جب کسی کے لیے بھی آئے پھول
ہم نے تکیہ نہیں کیا اُس پر
خود ہی جا کر خرید لائے پھول
اے خدا میری خیر ہے لیکن
وہ سدا مہکے اور پائے پھول
(ماہم حیا صفدر۔فیصل آباد)

غزل
ہے موج آب عبث، آبشار لایعنی
ترے بغیر مرے گل! بہار لایعنی
مقیم گل وہ مرا کنج اضطراب میں ہے
ہے اس کے واسطے باغ قرار لایعنی
پروں کی ضرب سے دشت خلا لرز اٹھے
مرے لیے ہے فلک کا حصار لایعنی
نکل گیا وہ کسی اور سمت یار مرے
سمندِ وقت کا ہے انتظار لایعنی
یہ دشت ہو ہے بھلا کون ادھر سے گزرے گا؟
مجھے تو لگتی ہے یہ رہ گزار لایعنی
کوئی نگاہ نہ اٹھے اگر تری جانب
ترے وجود کا ہر انتشار لایعنی
قیام نور کا ہے کوئے بے نیازی میں
یہ عز و جاہ، یہ تاجِ وقار لایعنی
(سید محمد نورالحسن نور۔ممبئی ،انڈیا)

غزل
رہ رہ کے کوئی زخم تو موجود ہے مجھ میں 
جو شاعری کی شکل میں بارود ہے مجھ میں
کب سے مری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے 
لگتا ہے کہ ہر جذبہ ہی مفقود ہے مجھ میں 
بارش کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا کوئی دن 
اب یوں ہے کہ بس گرد ہی مسدود ہے مجھ میں 
سو بار سمیٹی ہے خیالات کی گتھی 
وحشت کی مگر اب بھی اچھل کود ہے مجھ میں
میں اپنی خطاؤں میں اکیلا نہیں شامل 
اکسانے پہ اک اور بھی مردود ہے مجھ میں 
ہر ایک قدم پر ہیں امیدیں مری رب سے
بس ایک یہی منزلِ مقصود ہے مجھ میں 
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد) 

غزل 
دامنِ چاک کہاں سے لاتے
دلِ بیباک کہاں سے لاتے
عشق کی رمز سمجھ آ جاتی
اتنا ادراک کہاں سے لاتے
روح کے زخم چھپایا کرتی
ایسی پوشاک کہاں سے لاتے
ایک خواہش کی تلافی کے لیے
یار افلاک کہاں سے لاتے
تیرے کاسے کی طلب بھرنے کو
چشمِ نمناک کہاں سے لاتے
ہجر نے کاٹ لیا تھا شوزب
اس کا تریاق کہاں سے لاتے
(شوزب حکیم۔ لاہور) 

غزل
نت نیا اک عذاب خوابوں کا
زندگی ہے سراب خوابوں کا
میرے سینے پہ اس کا سر ہے اور
میرے سر اضطراب خوابوں کا
اس کے پہلو میں مجھ کو آتے ہیں
کیا کروں ان خراب خوابوں کا
جن کی تعبیر ہی نہیں کوئی
کون دے گا جواب خوابوں کا
موت سے انتظار بد تر ہے
بد سے بدتر عتاب خوابوں کا
داورِحشر لے نہ لے مجھ سے 
روز محشر حساب خوابوں کا
تیرے قائم کی سرخ ّآنکھوں سے
بہہ رہا ہے چناب خوابوں کا
(عبدالعزیز قائم۔ خوشاب)

غزل
سبھی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے 
حصولِ محبت، ہمیشہ نہیں ہے 
مرے بد گماں کو بتا دے یہ کوئی 
کہ ایسا ہے وہ اور ایسا نہیں ہے
فنا و بقا کے جو مابین ہے کھیل
ہر اک فیصلہ منصفانہ نہیں ہے
میں یکسانیت سے بہت تھک گیا ہوں
رمق زندگی میں بقایا نہیں ہے
 حسابِ حیاتِ بلا وجہ کے بعد
اسے جھیلنے کا ارادہ نہیں ہے 
(عبیداللہ عبدی۔ لاہور)

غزل
گرچہ تم روح میں نہاں بھی ہو 
پر مرے زخم سے عیاں بھی ہو 
جس طرح ہے یہاں، وہاں بھی ہو 
میری جنت میں میری ماں بھی ہو 
اے خدا اس قدر وہ میرا ہو 
وہ میرا لفظ ہو بیاں بھی ہو 
ہم نہیں مانتے کسی صورت 
ظلم جس پر بھی ہو جہاں بھی ہو 
اس سے بڑھ کر مجھے ستائے وہ 
اس سے بڑھ کر جو مہرباں بھی ہو 
(عاطف خان ۔خورہ آباد، ڈھکی ،ضلع چارسدہ)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے مجھ میں تا ہے مجھے نہ ہوا تھا تا ہوں میں خوابوں کا نہیں ہے پھول ا کبھی ا کے لیے بھی ہو

پڑھیں:

وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر

کتنی اچھی تھی وہ بیسویں صدی۔تھوڑے سے ڈاکٹر، اور تھوڑے ہی مریض ہوتے۔ موسمی بخار  اور نزلہ زکام ہی معمول کی بیماریاں تھیں۔ ہاں کسی کو ماں کی بددعا یا فقیر کی آہ لگ جاتی تو دانت یا کان کے درد جیسے ’سنگین امراض‘ بھی لاحق ہوجاتے۔ تشویشناک مریضوں کی اکثریت وہ ہوتی جو ٹرک اور بس کے تصادم میں اوپر پہنچنے کی بجائے اسپتال پہنچ جاتے۔ یوں سرجیکل وارڈ ہی ہر اسپتال کے بڑے وارڈز ہوتے۔ تب پبلک ٹرانسپورٹ کم اور شاہراہیں شہروں میں بھی یکطرفہ پر دو طرفہ تھیں۔ سو تصادم آمنے سامنے کے ہوتے اور ہر دوسرے ہفتے 20 ہلاک 40 زخمی کی خبر اخبارات میں نظر آتی۔ پھر نواز شریف کی حکومت آئی اور اس نے دو رویہ شاہراہوں کا جال پھیلا کر قوم کو مزید معذور ہونے سے بچا لیا۔  یوں پاکستان نئے دور یعنی اکیسویں صدی میں دو رویہ سڑکوں کے ساتھ داخل ہوا۔

نئی صدی تھی، سو لوگ بھی نئے تھے۔ اور لوگ نئے تھے تو ڈاکٹر بھی نئے تھے۔ بیسویں صدی والا ڈاکٹر بہت بڑی بے ایمانی بھی کرتا تو یہ کہ 50 روپے فیس پتلون میں اڑسنے کے بعد جو دوا لکھ کر دیتا وہ ایسی دیتا کہ مریض پہلے ہی چکر پر ٹھیک نہ ہو۔ کم از کم 50 کا ایک نوٹ مزید دینے کو حاضر ہو پھر بیشک صحت مند ہوجائے۔ مطب بند ہوتا تو شٹر کو چائنا والے 2 عدد تالے لگے ہوتے۔ یوں بورڈ پڑھے بغیر بند شٹرز سے پتہ ہی نہ چلتا کہ کون سا کلینک ہے اور کون سی پرچون کی دکان؟ مطب کھلتا تو کوئی ریسیپشن نہ ہوتا۔ ڈاکٹر اور اس کا  کمپاؤڈرہی کل اہلیان مطب ہوتے۔ اور کمپاؤڈر کمپاؤڈری کے ساتھ مطب کے جھاڑو پوچے اور چوکیداری کے اضافی قلمدان بھی رکھتا۔ بھروسہ اس پر  ڈاکٹر  ٹکے کا نہ کرتا۔ جس کا پتہ یوں چلتا کہ فیس ڈاکٹر صاحب ہر حال میں بدست خود وصول فرماتے اور پتلون کی جیب میں اڑستے جاتے۔ گھر جاتے تو بیگم کو ساتھ ملا کر ان مڑے تڑے 50 کے نوٹوں کو استری کر لیتے۔ بیگم کسی ہفتہ صفائی کے نتیجے میں  کم آمدنی کی شکایت کرتی تو وہ فرماتے

’ڈارلنگ ! بس کسی طرح یہ مہینہ گزار لو۔ اگلے مہینے ساون شروع ہوجائے گا، پھر مریض ہی مریض ہوں گے۔‘

دور نے گزرنا ہوتا ہے، سو وہ دور بھی نہ رہا۔ اب  ہم کھڑے ہیں اکیسویں صدی میں۔

جہاں وہ بیسویں صدی والا ڈاکٹر ایکسپائر ہوچکا۔ اور اس کی جگہ لے لی ہے نئے دور کے نئے ڈاکٹر نے۔ جتنا یہ ڈاکٹر  خود عجیب و غریب ہے اتنی ہی عجیب و غریب یہ بیماریاں ساتھ لایا ہے، جس کے لیے اسے جراثیمی امور کے سائنسدانوں کی مدد حاصل ہے۔ اس کے کلینک کی دیوار شیشے کی  ہے۔ سلائیڈنگ ڈورز ہیں، اور سلائیڈنگ ہی کھڑکیاں۔ جھاڑو پوچے کے لیے سویپر رکھا ہوا ہے۔ باہر ایک کاؤنٹر ہے، اور کاؤنٹر پر ایک دوشیزہ ہے۔ صورت بیشک ڈراؤنی ہے مگر ہے دوشیزہ ہی۔ اندر ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ ایک اسسٹنٹ چوکس و تیار کھڑا ہے۔ جو بوقت ضرورت مریض کا ناڑا کھولنے کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ اور ماشاءاللہ  کلینک میں اے سی بھی چل رہا ہے۔ یوں پہلے صرف ڈاکٹر کی فیس دینا پڑتی تھی جو 50 روپے ہوتی۔ اب ڈاکٹر کے کلینک کے کھڑکی شیشوں کا خرچ بھی مریض نے ہی تاحیات قسطوں میں اٹھانا ہے۔ اے سی کا بل، وہ باہر والی دوشیزہ،  اندر والے اسسٹنٹ اور سویپر کی تنخواہیں بھی مریض کی جب سے جائیں گی۔ یوں جاتے ہم ڈاکٹر کے پاس ہیں مگر فیس ہمیں ان 4 لوگوں کی ادا کرنا ہوتی ہے۔

آپ نے غور کیا؟ اس اکیسویں صدی والے ڈاکٹر کے اسٹاف میں کمپاؤڈر کا ذکر نہیں آیا۔ ہے نا عجیب بات ؟ سوال یہ ہے کہ کمپاؤڈر گیا کہا ں؟ اگر کوئی ارتقاء ہوا ہے تو اس کی جگہ لینے والا اب کیا کہلاتا ہے ؟ یہی تو سب سے بڑی واردات ہوئی ہے۔ کمپاؤڈر کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے نسل ہی ختم کردی۔ اب آپ کو مطب سے دوا نہیں صرف پرچی ملتی ہے۔ اور پرچی بھی نہیں بلکہ پرچیاں ملتی ہیں۔ وہ 50 روپے والا ڈاکٹر اتنا وضعدار تھا  کہ ہم منہ بنا کر جاتے تو وہ کہتا

’منہ کیوں لٹکا رکھا ہے؟ ہلکا سا بخار ہے دو دن میں ٹھیک ہوجائے گا’

اور یہ آج کل والے نمونے کے پاس اگر ہنستے مسکراتے جایئے تو یہ فورا کہتا ہے

مجھے لگتا ہے آپ اپنی بیماری کو سیریس نہیں لے رہے !

‘سیریس؟ ہلکا سا زکام ہی تو ہے، اس میں سیریس کیا چیز ہے ؟‘

’نہیں بھئی !  مجھے یہ کچھ اور لگ رہا ہے۔ بس دعا کیجیے کہ جو مجھے لگ رہا ہے وہ ہو ناں۔ یہ پرچی لیجیے، اور ’لٹ مچاؤ لیب‘ سے ٹیسٹ کروا کر رپورٹس لائیے تب ہی صورتحال واضح ہوگی۔‘

جو شخص کچھ ہی دیر قبل  بہت پر اعتماد قدموں سے چلتا کلینک میں داخل ہوا تھا۔ وہ خود پر آیت الکرسیاں پڑھتے ٹیسٹ کروانے کے لیے روانہ ہوجاتا ہے تو  اکیسویں صدی کا ڈاکٹر پیچھے سے آواز دے کر کہتا ہے:

میں ’لٹ مچاؤ لیب‘ کے سوا کسی بھی لیب پر ٹرسٹ نہیں کرتا۔ ٹیسٹ وہیں کے ہونے چاہئیں۔

اور جب وہ 10 ہزار روپے کے ٹیسٹ کرا کر رپورٹس کا لفافہ ڈاکٹر کے ہاتھ پر لا رکھتا ہے تو  یہ رپورٹ پر ایک  نظر ڈالتا ہے اور پھر چہرے پر مصنوعی تبسم پھیلا کر یوں گویا ہوتا ہے

’شکر الحمدللہ ! ! ! ! ! مبارک ہو سر ! مجھے جو خدشہ تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ یہ زکام ہی ہے۔ 5 دوائیں لکھ کر دے رہا ہوں۔ باہر فارمیسی ہے، اسی سے یہ ساری دوائیاں لیجیے گا، کیونکہ باقی سب جعلی دوائیاں فروخت کرتے ہیں۔ پورے شہر میں اصلی دوائیاں صرف اسی فارمیسی سے ملتی ہیں۔ انشاءاللہ دو تین ہفتے میں ٹھیک ہو جائیں گے۔‘

’سر ! زکام کے لیے اتنی ساری دوائیں؟‘

’یہ عام زکام نہیں ہے۔ اسے ہلکا مت لیجیے۔ معمولی سی بھی غفلت برتی  توکووڈ 19 میں کنورٹ ہوجائے گا۔‘

یوں یہ اکیسویں صدی کا ڈاکٹر  لیب اور فارماسیوٹیکل کمپنی دونوں سے کمیشن پاتا ہے۔ اور اس لیے پاتا ہے کہ لیب اور فارما کے لیے ہماری جیبوں بلکہ تجوریوں پر ڈاکہ ڈاکٹر صاحب نے ہی ڈالا ہے۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا کہ جس طرح ’ڈاکے‘ والا ڈاکو کہلاتا ہے، اسی طرح ڈاکٹر بھی ڈاکے سے ہی ماخوذ لگ رہا ہے۔ صورتحال اس قدر افسوسناک ہے کہ نیورالوجسٹ ڈپریشن کےشکار شخص کا ڈیڑھ برس تک اس کے باوجود علاج کرتے ہیں کہ ڈپریشن سرے سے طبی مرض ہی نہیں۔ انسان ایک سوشل اینمل ہے۔ سو یہ جب بھی سوشل سرگرمیاں کمپرومائز کرے گا، ڈپریشن کا شکار ہونا طے ہے۔ کیا نیورالوجسٹ کو نہیں معلوم کہ ڈپریشن طبی عارضہ نہیں؟ اور اس کا شکار شخص کبھی بھی دوا کے ذریعے اس سے نجات نہیں پاسکتا ؟ وہ اچھی طرح جانتا ہے مگر کلینک آیا شخص تو ڈاکٹر کی روزی روٹی ہے۔ بھلا کوئی روزی روٹی کو بھی لات مارتا ہے؟

اگر آپ ڈپریشن کا شکار ہیں تو کسی ڈاکٹر کے پاس مت جایئے۔ بس اتنا کر لیجیے کہ اپنی سوشل سرگرمی کے تینوں سرکل پوری طرح ایکٹو کر لیجیے۔ پہلا سرکل فیملی کا ہے۔ فیملی کو باقاعدہ وقت دیجیے۔ اہلخانہ سے روز کم از کم گھنٹہ دو گپ شپ کیجیے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شام 6 بجھے سے رات 9 تک گھر کا وائی فائی بند رکھیے۔ وہ بند ہوگا سب اہلخانہ ٹی وی لاؤنج میں ہوں گے، اور خود کار طور پر گپ شپ کا ماحول بن جایا کرے گا۔

دوسرا سرکل آپ کے رشتے داروں کا ہے، ان سے اسی طرح میل جول اختیار کر لیجیے جس طرح سوشل میڈیا دور سے قبل والی نسل کا تھا۔

تیسرا سرکل ذاتی دوستوں کا ہے۔ ان میں آپ کے کلاس فیلوز، کولیگز، ٹیم میٹس، اور گاؤں والوں سمیت وہ سب آتے ہیں جن سے آپ کی ذاتی دوستی ہے۔ ان سے بھی آپ کا میل جول متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

اگر آپ کے یہ تینوں سرکل پورے بھی ہیں اور نارمل بھی ہیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہوں۔ یہ وبا سوشل میڈیا دور کی دین ہے۔ اس کا میڈیکل سائنس سے دور کا بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ سو اس کے علاج کے لیے نیورالوجسٹ سے دور رہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

رعایت اللہ فاروقی

متعلقہ مضامین

  • رجب بٹ پاکستان واپس کب آئیں گے؟ یوٹیوبر نے خاموشی توڑ دی
  • کوئی بھی نماز پڑھنے سے نہیں روک سکتا، نصرت بھروچا ٹرولنگ پر پھٹ پڑیں
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • بھارت اس ریجن کے اندر ایک غنڈے کی طرح برتاؤ کرتا ہے
  • مجھ سے زبردستی اداکاری کروائی گئی؛ خوشبو نے درد ناک کہانی بتادی
  • لوگ ہمیشہ مجھے کہتے ہیں کہ میں ماہرہ خان جیسی دکھتی ہوں، سنیتا مارشل
  • مذہب اور لباس پر تنقید، نصرت بھروچا کا ردعمل
  • جو نام ہم بھجواتے وہ جیل انتظامیہ قبول نہیں کرتی، نعیم حیدر
  • سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے