غزل
اگلے پل ہی سامنے پھر کھینچ لاتا ہے مجھے
اتنی جلدی آئنہ کیا بھول جاتا ہے مجھے
وار میرا آج بھی کاری ہے لیکن کیا کروں
بَین کرتی عورتوں سے خوف آتا ہے مجھے
ایک تو ہے وقت کی زد پر فصیلِ جسم بھی
دوسرا اک غم کہیں اندر سے کھاتا ہے مجھے
رات بھر کرتا ہوں اپنے آپ کو تعمیر میں
کون ہے جو صبح دَم پھر سے گراتا ہے مجھے
جاں فشانی کا برا ہو، پوچھتے ہیں لوگ بھی
جُز محبت اور کیا کیا کام آتا ہے مجھے
وصل کی امید پر خود کو بھلا دیتا ہوں میں
ہجر آ کے آخرش مجھ سے ملاتا ہے مجھے
جانتا ہوں موت سے بچنے کا گُر لیکن اسد ؔ
دیر ہو جاتی ہے جب وہ یاد آتا ہے مجھے
(اسد رحمان۔ پپلاں)
غزل
لہکی ہوئی شاخوں پہ گل افشاں نہ ہوا تھا
یوں جشنِ طلب، جشنِ بہاراں نہ ہوا تھا
وہ زخم مجھے طوقِ گلو جیسا لگا ہے
جو زخم بھی پیوستِ رگِ جاں نہ ہوا تھا
اس بار ملا کیا کہ جدائی ہی جدائی
ہوتا تھا مگر یوں بھی گریزاں نہ ہوا تھا
قاتل کی جبیں پر بھی پسینے کی شکن ہے
ہیبت سے کبھی ایسی پریشاں نہ ہوا تھا
کچھ بات تو دامن کو لگی گل کی مہک میں
کانٹوں سے یونہی دست و گریباں نہ ہوا تھا
کیوں سیلِ بلا خیز بہا کر نہ گیا غم
کیوں شکوہ کم ظرفیِ طوفاں نہ ہوا تھا
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)
غزل
حوصلہ دیتے اشارے سے الگ ہونے لگا
میں ترے دھوپ کنارے سے الگ ہونے لگا
کیا ملا ہجر حویلی کی لپائی کر کے
سوکھے گارے کے تغارے سے الگ ہونے لگا
اس افق پار بلاوے کی کرن دمکی تھی
عہد باندھے ہوئے تارے سے الگ ہونے لگا
خواہشِ نفع میں کیا سانس شماری کرتا
روز کے بڑھتے خسارے سے الگ ہونے لگا
اپنی ہی ذات میں چھپنے کا عمل دیکھنا تھا
جیتنے والے سے، ہارے سے الگ ہونے لگا
تیری کشتی سے یونہی سا تھا تعلق میرا
اب میں تنکے کے سہارے سے الگ ہونے لگا
میں مداراتِ دل و جاں میں لگا ہوں طاہرؔ
نفس کے پھولے غبارے سے الگ ہونے لگا
(قیوم طاہر۔ راولپنڈی)
غزل
خوف کچھ پرچھائیوں سے اس قدر کھاتا ہوں میں
اپنے اندر جھانکتا ہوں اور ڈر جاتا ہوں میں
دوستو دیکھو یہ دنیا ہے اُسی جانب رہو
آئینے سے جھانکتے لوگوں کو سمجھاتا ہوں میں
اس کی آنکھوں سے پرے بیٹھا ہوں سو وہ دیکھ لے
دیکھیے اب کب تلک اس کو نظر آتا ہوں میں
پہلے برسوں کی ریاضت سے جلاتا ہوں میں آگ
آگ جلنے سے ذرا پہلے ہی بجھ جاتا ہوں میں
دل بھٹک جاتا ہے بچے کی طرح بازار میں
اس کو انگلی سے پکڑ کے گھر تلک لاتا ہوں میں
(احمد اویس۔ فیصل آباد)
غزل
ننی دیوار میں بھی تجھ سے دریچہ نہ بنا
اس لیے تو مرے دل تک ترا رستا نہ بنا
قد سے چھوٹے ہیں مگر مجھ سے بڑی نفرت ہے
پیڑ کو کہتے ہیں اس کے لیے سایا نہ بنا
اتنے تو یار ترے ہم بھی چلن جانتے ہیں
باغ یہ سبز دکھا کر ہمیں صحرا نہ بنا
روز مجھ سے یہ اداکاری نہیں ہو سکتی
اس لیے میرا جہاں بھر میں تماشا نہ بنا
تو نے بے کار ہیولا سا بنا ڈالا ہے
ایک حصہ بھی مرے خواب کا پورا نہ بنا
زندگی کیا ہے بتانا تھا کسی کو میں نے
لکھنے بیٹھا ہوں تو اس پر کوئی جملہ نہ بنا
کتنی نسلیں یہی کہتے ہوئے مر جائیں گی
اگلے لوگوں سے کبھی اچھا زمانہ نہ بنا
آئنہ سامنے ہوتے ہوئے اُن سے عادسؔ
کوئی چہرہ نہ بنا،کوئی شناسا نہ بنا
(امجد عادس۔راولاکوٹ)
غزل
اسے رہگزر کوئی کھا گئی یا بچھڑ کے اپنے ہی گھر گیا
''وہ جو عمر بھر کی رفاقتوں کا تھا مدعی وہ کدھر گیا''
وہ جو خواب تھے وہ بکھر گئے وہ جو آس تھی وہ سمٹ گئی
مجھے خوف جس کا تھا ہر گھڑی، مرا ہم نوا وہی کر گیا
یہ نئے زمانے کی ریت ہے تری کیا خطا تجھے کیا کہوں
تجھے دل سے جس نے لگایا تھا وہی تیرے دل سے اتر گیا
نہیں سہل عشق کی رہگزر،میں الم نصیب و خطا سرشت
اے نئے نئے سے مسافرو! جو چلا تو چل کے بکھر گیا
کبھی صحنِ دل میں اداسیاں جو بڑھیں تو ساز میں ڈھل گئیں
کبھی غم جو میری اساس ہے مری چشمِ تر میں ٹھہر گیا
مری ذات مشتِ غبار ہے ترا اختروں میں شمار ہے
ذرا یہ بتا کہ بچھڑکے تو،کہاں رفعتوں پہ ٹھہر گیا!
میں پھروں ہوں بارِجفا لیے کبھی اس ڈگر کبھی اُس نگر
کہ ثمرؔ یہاں کا رواج ہے جو بھی چپ رہا وہی مر گیا
(ثمریاب ثمر۔سہارنپور،اترپردیش، بھارت)
غزل
پھول کے ساتھ یوں ملائے پھول
پھول لائے ہیں ہم برائے پھول
اُس کی نرمی کا کیا بیاں کریے
وہ جو کھانے میں صرف کھائے پھول
من کا آنگن ہوا معطر تب
اُس نے ہنس ہنس کے جب کھلائے پھول
اُن کو دیکھا تو خوش ہوئی تتلی
اُن کو دیکھا تو مسکرائے پھول
اُن سے بنتی ہے سارے گلشن کی
مان لیتے ہیں اُن کی رائے پھول
یاد آیا وہ شبنمی چہرہ
پھول والے نے جب دکھائے پھول
آپ کے ہونٹ تھے تصور میں
ہم نے کاغذ پہ جب بنائے پھول
کون رکھتا ہے اپنے گلداں میں
اے مرے ہم نفس پرائے پھول
آپ جائیں گے جان سے اپنی
ہم نے بالوں میں گر سجائے پھول
تھی زمستانی چال موسم کی
رات بھر اوس میں نہائے پھول
جاگ اُٹھی ہماری محرومی
جب کسی کے لیے بھی آئے پھول
ہم نے تکیہ نہیں کیا اُس پر
خود ہی جا کر خرید لائے پھول
اے خدا میری خیر ہے لیکن
وہ سدا مہکے اور پائے پھول
(ماہم حیا صفدر۔فیصل آباد)
غزل
ہے موج آب عبث، آبشار لایعنی
ترے بغیر مرے گل! بہار لایعنی
مقیم گل وہ مرا کنج اضطراب میں ہے
ہے اس کے واسطے باغ قرار لایعنی
پروں کی ضرب سے دشت خلا لرز اٹھے
مرے لیے ہے فلک کا حصار لایعنی
نکل گیا وہ کسی اور سمت یار مرے
سمندِ وقت کا ہے انتظار لایعنی
یہ دشت ہو ہے بھلا کون ادھر سے گزرے گا؟
مجھے تو لگتی ہے یہ رہ گزار لایعنی
کوئی نگاہ نہ اٹھے اگر تری جانب
ترے وجود کا ہر انتشار لایعنی
قیام نور کا ہے کوئے بے نیازی میں
یہ عز و جاہ، یہ تاجِ وقار لایعنی
(سید محمد نورالحسن نور۔ممبئی ،انڈیا)
غزل
رہ رہ کے کوئی زخم تو موجود ہے مجھ میں
جو شاعری کی شکل میں بارود ہے مجھ میں
کب سے مری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے
لگتا ہے کہ ہر جذبہ ہی مفقود ہے مجھ میں
بارش کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا کوئی دن
اب یوں ہے کہ بس گرد ہی مسدود ہے مجھ میں
سو بار سمیٹی ہے خیالات کی گتھی
وحشت کی مگر اب بھی اچھل کود ہے مجھ میں
میں اپنی خطاؤں میں اکیلا نہیں شامل
اکسانے پہ اک اور بھی مردود ہے مجھ میں
ہر ایک قدم پر ہیں امیدیں مری رب سے
بس ایک یہی منزلِ مقصود ہے مجھ میں
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد)
غزل
دامنِ چاک کہاں سے لاتے
دلِ بیباک کہاں سے لاتے
عشق کی رمز سمجھ آ جاتی
اتنا ادراک کہاں سے لاتے
روح کے زخم چھپایا کرتی
ایسی پوشاک کہاں سے لاتے
ایک خواہش کی تلافی کے لیے
یار افلاک کہاں سے لاتے
تیرے کاسے کی طلب بھرنے کو
چشمِ نمناک کہاں سے لاتے
ہجر نے کاٹ لیا تھا شوزب
اس کا تریاق کہاں سے لاتے
(شوزب حکیم۔ لاہور)
غزل
نت نیا اک عذاب خوابوں کا
زندگی ہے سراب خوابوں کا
میرے سینے پہ اس کا سر ہے اور
میرے سر اضطراب خوابوں کا
اس کے پہلو میں مجھ کو آتے ہیں
کیا کروں ان خراب خوابوں کا
جن کی تعبیر ہی نہیں کوئی
کون دے گا جواب خوابوں کا
موت سے انتظار بد تر ہے
بد سے بدتر عتاب خوابوں کا
داورِحشر لے نہ لے مجھ سے
روز محشر حساب خوابوں کا
تیرے قائم کی سرخ ّآنکھوں سے
بہہ رہا ہے چناب خوابوں کا
(عبدالعزیز قائم۔ خوشاب)
غزل
سبھی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے
حصولِ محبت، ہمیشہ نہیں ہے
مرے بد گماں کو بتا دے یہ کوئی
کہ ایسا ہے وہ اور ایسا نہیں ہے
فنا و بقا کے جو مابین ہے کھیل
ہر اک فیصلہ منصفانہ نہیں ہے
میں یکسانیت سے بہت تھک گیا ہوں
رمق زندگی میں بقایا نہیں ہے
حسابِ حیاتِ بلا وجہ کے بعد
اسے جھیلنے کا ارادہ نہیں ہے
(عبیداللہ عبدی۔ لاہور)
غزل
گرچہ تم روح میں نہاں بھی ہو
پر مرے زخم سے عیاں بھی ہو
جس طرح ہے یہاں، وہاں بھی ہو
میری جنت میں میری ماں بھی ہو
اے خدا اس قدر وہ میرا ہو
وہ میرا لفظ ہو بیاں بھی ہو
ہم نہیں مانتے کسی صورت
ظلم جس پر بھی ہو جہاں بھی ہو
اس سے بڑھ کر مجھے ستائے وہ
اس سے بڑھ کر جو مہرباں بھی ہو
(عاطف خان ۔خورہ آباد، ڈھکی ،ضلع چارسدہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے مجھ میں تا ہے مجھے نہ ہوا تھا تا ہوں میں خوابوں کا نہیں ہے پھول ا کبھی ا کے لیے بھی ہو
پڑھیں:
زباں فہمی251 ؛ بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
بفضلہ تعالیٰ ہر سال کی طرح اِمسال بھی ہم عیدالاضحٰی یا بقرعید کی خوشیاں منارہے ہیں اور تب تک مناتے رہیں گے جب تک اس دنیائے فانی میں موجود ہیں۔ ’’آخرت کی خبر، خُدا جانے‘‘ کے مصداق دوسرے جہان میں عید کے تصور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ راقم نے ماقبل اپنے سلسلہ زباں فہمی میں، متعدد بار عیدالاضحی یا بقرعید (عیدِ قرباں، بقرہ عید۔یا۔ بکرا عید) عُرف ’بڑی عید‘ کے موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے ، مگر جس طر ح ہر سال، اس مقدس موقع پر قربانی ضروری ہے۔
اسی طرح قربانی کے مسائل اور دیگر متعلقات پر ہر مرتبہ لکھا جانا اور دُہرایا جانا بھی ضروری ہے۔ ہم لوگ یوں بھی سال بھر میں ایک مرتبہ ’چھوٹی‘ اور ایک مرتبہ ’بڑی عید‘ مناتے ہیں تو یہ منظر بہت جگہوں پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ نمازِعید میں کئی افراد ، ’تکبیراتِ واجب‘ کی تعدادوترتیب بھُول جاتے ہیں ۔اس موقع پر ایک بہت ہی پیاری شخصیت کی یاد تازہ کرتا چلوں۔ فیڈرل ’بی‘ ایریا کی جامع مسجد رضوان کے خطیب مولانا سراج مرحوم (اگر مجھے نام صحیح یاد ہے تو) ، اپنے بزرگ معاصر جناب احتشام الحق تھانوی کی پیروی میں بعینہٖ اُسی طرح میٹھے (بلکہ اُن سے بھی زیادہ مٹھاس بھرے) لہجے میں جمعہ وعیدین کے موقع پر وعظ فرماتے تھے۔
وہ اس حد تک مقبول تھے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اَپنی مساجد چھوڑ کر بطورِخاص اُن کی اقتداء میں نمازِعید پڑھنے جاتی تھی۔ مجھے بھی کئی مرتبہ اتفاق ہوا۔ {حضرت صلوٰۃ وسلام کے قائل اور شائق تھے۔ ہماری نوجوانی کے معروف بزرگ میلادخواں جناب مُسافر لودھی (والدِ سلیم لودھی گلوکار) کو خاص طور پر اپنے حُجرے میں بُلواکر سلام سُنا کرتے تھے، جبکہ مُسافر صاحب ( ایک مدت سے اُن کے متعلق کوئی خبر نہیں، اللہ اُن پر رحم کرے) ہماری جامع مسجد غفران (بلاک 16، فیڈرل ’بی ‘ ایریا، عُرف واٹرپمپ) سے منسلک اور اُسی علاقے کے مکین تھے جہاں خاکسار نے بھی عین نوجوانی میں بطور میلادخواں اور بانی ومنتظم بزم غفران نام کمایا}۔ آمدم برسرمطلب! حضرت بہت دل چسپ پیرائے میں فرمایا کرتے ;’بھئی اگر کوئی بھُول جائے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ اپنے آگے والے نمازی کو دیکھیں، وہ اپنے آگے والے کو، اُس سے آگے والے، اپنے آگے والے کو (کہ رکوع کررہا ہے یا سجدہ) اور یوں شُدہ شُدہ سب امام کی صحیح اور بَروَقت تقلید کرلیں گے۔ بھئی اگر کوئی سہو بھی ہوجائے تو کوئی مسئلہ نہیں، آپ امام کے پیچھے کھڑے ہیں، یہ سب اُس کے ذمّے!
آج جب بقرعید پر لکھنے بلکہ کمپیوٹر پر ماؤس چلانے بیٹھا ہوں تو بہت سی نئی پُرانی باتیں سامنے آگئی ہیں۔ جی چاہا کہ حسبِ معمول عیدین پر ماقبل لکھے گئے اپنے ہی مضامین سے استفادے کی بجائے آغاز میں کوئی نئی چیز پیش کی جائے، سو اَپنے عالم دوست حافظ سلمان رضا صدیقی فریدی مصباحی، خطیب (مسقط ،عُمان ) کا ایک عمدہ کلام قارئین کی نذرکرتا ہوں۔ (حافظ صاحب بارہ بنکی، ہندوستان سے تعلق رکھنے والے زُودگو شاعر ہیں مگر اُن کے موضوعات فقط دینی ہوتے ہیں جن میں حالاتِ حاضرہ سے متعلق بعض مواد بھی شامل ہوتا ہے۔ کچھ عرصے سے رابطہ منقطع ہے، ویسے وہ میری ’بزم زباں فہمی‘ کے خاموش رُکن ہیں)۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اُنھوں نے کس طرح بقرعید کے موقع پر اسلامی تعلیمات کا خلاصہ نظم کیا ہے:
ہم اپنی ساری غفلت کو چلو قربان کر ڈالیں
مزاجِ بے مُرَوَّت کو چلو قربان کر ڈالیں
نہ ہوں ہم مطمئن، بس جانور قربان کرنے سے
بدی کرنے کی عادت کو چلو قربان کر ڈالیں
بتاتی ہے ہمیں یہ ’’لَن یَّنَالَ اللّہ‘‘ کی آیت
غَرَض آلُود نِیّت کو چلو قربان کر ڈالیں
رضائے رب، رضائے مصطفٰی (ﷺ) سب سے مقدم ہو
یہاں ہم اپنی چاہت کو چلو قربان کر ڈالیں
گَلا کاٹیں، اِسی قربانی میں اپنی ’’اَنَا‘‘ کا بھی
تکبر اور نَخوت کو چلو قربان کر ڈالیں
ہمارے واسطے یہ درس لے کر بقرعید آئی
کہ ہر دنیاوی رغبت کو چلو قربان کر ڈالیں
ہماری اپنی مرضی کا نہ کوئی دخل ہو اِس میں
شریعت پر طبیعت کو چلو قربان کرڈالیں
اگر چلنا ہے ابراہیمؑ و اسماعیلؑؑ کے رستے
زمانے کی ہر الفت کو چلو قربان کرڈا لیں
چلو ہم مُتّحِد ہوکر، کریں باطل کی سر کوبی
ہر اک شکوہ شکایت کو چلو قربان کر ڈالیں
کھڑے ہوں جرأتوں سے قوم وملت کی مدد کو ہم
خموشی اور دہشت کو چلو قربان کرڈالیں
دلیری اور خودداری میں پنہاں ہے وقار اپنا
تَمَلُّق اور لَجاجَت کو چلو قربان کرڈالیں
ہمارا ہر عمل، اخلاص ہی کے دائرے میں ہو
ریاکاری کی فطرت کو چلو قربان کرڈالیں
بَراہیمی صفت پیدا کریں کردار کے اندر
جہاں کی ہر محبت کو چلو قربان کر ڈالیں
ذبیحُ اللّہ سے سیکھیں اطاعت آشنائی ہم
کہ جان و دل کی ثَروت کو چلو قربان کر ڈالیں
ہمارا جینا مرنا، ہو فقط اللہ کی خاطر
ہر اک خواہش کو، لذت کو چلو قربان کر ڈالیں
فریدی! عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ کر ہم
خِرَد کی ساری حُجَّت کو چلو قربان کر ڈالیں
(حافظ سلمان رضا صدیقی نے اس دل نشیں کلام میں ’دُنیاوی‘ لکھا ہے جو درحقیقت ’دُنیَوی ‘ ہے، مگر غالباً اُن کے پیش نظر غلط العام ہی ہوگا اور عروضی اعتبار سے سقم کا بھی خدشہ ہوگا)
عیدالاضحیٰ کے لسانی موضوعات متعدد ہیں جن پر یہ خاکسار خامہ فرسائی کرتا رہا ہے، مگر اعادہ بھی ضروری سمجھتا ہے۔ نکتہ وار عرض کرتا ہوں:
ا)۔ اس تہوار (اگر قبلہ مفتی اعظم پاکستان پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن صاحب، اس لفظ کے استعمال پر بُرانہ مانیں تو) کا نام بھی بہت تنوع کے ساتھ مشہور ہے۔ ہرچندکہ یہ معروف معنیٰ میں تہوار (تیوہار) نہیں، مگر کیا کریں صاحبو! کوئی اور لفظ سُوجھتا بھی نہیں۔ خیر! تو جناب ہم اسے بقرہ عید کہہ کر گائے سے منسوب کرتے ہیں اور یوں بھی کم از کم پاکستان میں گائے کی قربانی کا رواج بوجوہ بہت زیادہ ہے۔ بقرہ کے نام پر سورۃ البقرہ ہے جو قرآن مجید کی دوسری سورت ہے اور احکام کے لحاظ سے بہت اہم بھی۔ پھر اِس کا ایک مختصر نام ’بقرعید‘ ہے ، لیکن یہ نام ’بکراعید‘ کیسے ہوا، اس بابت دوم مختلف ومتضاد آراء سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اصل نام ’بقرہ عید‘ سے بگڑکر ’بکرا عید‘ بنا، (عوام تو بقرِید، بکرِید اور بخرِید بھی بولتے ہیں)، دوسری یہ کہ بقول بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب، یہ بکرے کی نسبت سے بکرا عید ہی ہے۔
راقم نے اس سے قبل بھی اس بارے میں اظہارِخیال کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ مولوی موصوف نے انگریز سرکار کے عہد میں، گائے کے ذبیحہ پر شروع کیے جانے والے، ہندومسلم فسادات کے بعد، گائے کی قربانی کے رجحان میں کمی اور پھر اس کے خاتمے ہی کا سارا منظرنامہ پیش نظر رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان انگریز کی حکومت سے قبل، اپنی مرضی سے گائے کی قربانی کیا کرتے تھے، ہندوؤں کو کوئی اعتراض نہیں تھا، پھر جب انگریز نے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کے اصول کے تحت ان دو قوموں کو مذہب او ر زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے کا دشمن بنادیا تو یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہوگیا کہ ایک مرتبہ ایم اے او کالج، علی گڑھ میں مسلمان طلبہ نے چندہ کرکے ایک گائے خریدی کہ بقرعید پر قربان کریں گے۔ سرسید کو معلوم ہوا تو وہ اپنی بیماری کے باوجود، فوراً موقع پر پہنچے اور لڑکوں کو ڈانٹ پھٹکار کرکے گائے لے جاکر قسائی کو واپس کی اور آئندہ کے لیے سخت تنبیہ کی۔
’حیاتِ جاوید‘ میں مذکور اِس واقعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید ہر قیمت پر ہندومسلم یک جہتی چاہتے تھے، کیونکہ اُن کے نزدیک یہ دونوں ایک ہندوستانی قوم کے حصے تھے اور اُنھیں کسی صورت ہندوؤں کی دل آزاری گوارا نہ تھی، حالانکہ یہ مسئلہ مسلم عہداقتدار میں کبھی پیدا نہیں ہوا کہ مسلمان اپنی دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے محض اس لیے گریز کریں کہ دوسرے مذہب کا مقلد ناراض ہوجائے گا۔ ہندومسلم فساد ات (درحقیقت مُسلم کُش فسادات) کا سلسلہ بھی انگریز ہی کے دور میں شروع ہوا۔
ب)۔ عید کے موقع پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ میں ’قسائی‘ شامل اور نمایاں ہے جسے سہواً قصائی لکھا جاتا ہے۔ اس بابت راقم اور سید اطہرعلی ہاشمی مرحوم نیز اُن کے شاگر درشید جناب احمد حاطب صدیقی کے کالم اور مضامین موجودہیں، انٹرنیٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں، خلاصہ کلام یہ ہے کہ لسانی تحقیق کے مطابق یہ لفظ ’قصّاب‘ سے بگڑ کر ’قصائی‘ نہیں بنا بلکہ ’قساوت ‘ سے مشتق ہے، اس لیے قسائی صحیح ہے۔
اوروں کو چھوڑیں، نامور انگریز ماہرلغات فیلن S. W.Fallon] [ نے اس باب میں ٹھوکر کھائی ہے۔
[Fallon, S. W. A new Hindustani-English dictionary, with illustrations from Hindustani literature and folk-lore. Banaras, London: Printed at the Medical Hall Press; Trubner and Co., 1879].
یہاں اپنے پرانے مضمون (زباں فہمی نمبر 212بعنوان ’قصائی نہیں قسائی‘) کا اختتامی اقتباس نقل کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں:
قصائی اور قسائی کی بحث میں ایک دل چسپ اور ناقابل یقین انکشاف ہمارے ایک خُردمعاصر نے کیا۔ اُن کا خیال ہے کہ دِلّی والے ’’قصائی‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں، جبکہ لکھنؤ والے ’’قسائی‘‘..... معلوم نہیں اُنھیں یہ اور ایسے ہی بعض دیگر نکات کس دلی والے یا لکھنؤ والے نے سُجھائے۔
اگر ایسا ہی ہوتا تو فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات اس وضاحت سے خالی نہ ہوتیں۔ بات کی بات ہے کہ یہ صاحب کچھ سال پہلے تک محض شعبہ تشہیر سے بطور ’’اخترا ع نگار‘‘ منسلک تھے (Creative Copywriter کا یہ اردو ترجمہ خاکسار نے کچھ عرصہ قبل کیا اور اپنے کالم میں استعمال بھی کیا تھا)۔ یکایک وہ اصلاح زبان کے موضوع پر خالص علمی نوعیت کے مضامین لکھنے لگے، خیر کوئی بھی لکھ سکتا ہے، پابندی نہیں، مگر مقام حیرت یہ ہے کہ وہ اہل زبان نہیں، بہرحال کوئی بات اگر مع حوالہ وسند نقل کی جائے تو غیراہل زبان کی تحریر بھی مسترد نہیں کی جاسکتی۔
ج)۔ عیدالاضحٰی کے مسائل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم قربانی اس لیے کرتے ہیں کہ یہ اللّہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کا حُکم ہے اور اِس میں بشرطِ استطاعت قربانی واجب ہے ;نصاب کا مسئلہ بھی بالکل واضح ہے۔ لادینیت، مذہبی بے راہ رَوی المعروف آزادخیالی یا Liberalismکے ماننے والے یہ کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ بے چارے جانوروں پر ظلم کرنے کی بجائے کسی غریب کی امداد کرنا بہتر ہے۔ یہاں مصلحتاً ایک بزرگ وکیل +سیاست داں کا ذکر بھی ناگزیر ہے جن کا ایک انٹرویو بہت مشہور ہوا تھا اور لوگ بغیر سوچے سمجھے اُن کی ہاں میں ہاں ملانے لگے تھے کہ ہمارے یہاں تو دادا کے وقت سے قربانی نہیں کی جاتی، بلکہ غریب کی مدد کرتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اُنھیں اور اُن کے اندھے مقلدوں کو اسلام کا پتا ہی نہیں، دوسری بات یہ کہ اُن کے پڑدادا نے ایک بے گناہ مسلمان کو قید اور پھانسی کی سزادِلواکر، انگریز سے انعام واکرام حاصل کیا تھا، ورنہ وہ معمولی حیثیت کے شخص تھے اور تیسری بات یہ کہ موصوف کا اسلام سے تعلق اس قدر کمزور ہے کہ اُنھیں سورۂ اخلاص بھی پڑھنی نہیں آتی، ہاں موئن جو دَڑو کی مشرکانہ تہذیب کو اَپنی تہذیب قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے! جملہ معترضہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک مقدمے کی فیس ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے وصول کرنے والے ان صاحب نے کبھی کسی غریب کا مقدمہ بلامعاوضہ بھی لڑا ہے یا ساری ہمدردی محض بقرعید ہی پر یاد آتی ہے۔
د)۔ اگر بنظرِغائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر قربانی کی مخالفت کے پیچھے بھی صہیونی یہود ی استعمار ہی کارفرما ہے۔ (یہ لفظ صہیونی ہے نہ کہ صیہونی، اس بارے میں بھی زباں فہمی کا ایک مکمل مضمون لکھ کر شائع کرواچکا ہوں، سوشل میڈیا پر پیغامات کے ذریعے بھی اس اہم سہو کی نشان دہی کئی بار کرچکا ہوں)۔ اس مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہود کے نزدیک ’ذبیح اللّہ‘ حضرت اسمٰعیل (علیہ السلام) نہیں، بلکہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) تھے۔ یہ بات مُحَرّف (تحریف شُدہ ) تورات میں اس طرح لکھی گئی ہے:
’’ابراہیم تُو اپنے بیٹے کو قربان کردے! ان تمام باتوں کے بعد خدا نے ابراہیم کو آزمایا۔ خدا نے آواز دی:’ابراہیم! ’ابراہیم نے جواب دیا،’میں یہاں ہوں‘۔ تب خدا نے اُس سے کہا کہ تیرا بیٹا یعنی تیرا اکلوتا بیٹا اسحاق کو، جسے تو پیار کر تا ہے موریاہ علاقے میں لے جا۔ میں تجھے جس پہاڑ پر جانے کی نشاندہی کروں گا وہاں جاکر اپنے بیٹے کو قربان کر دینا۔ (پیدائش 22) ۔اس عبارت میں اردو ترجمے کی اغلاط کے ساتھ ساتھ تاریخ کی گڑبڑ بھی توجہ طلب ہے۔ [Torah: Genesis 22- https://www.biblegateway.com]۔ بات آگے چلتی ہے تو یہ اَمر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور اُن کے رسول (ﷺ) کے اس لیے بھی دشمن تھے یا ہیں کہ اُن کے خیال میں نبوت ورسالت کا سلسلہ بنی اسرائیل تک ہی محدود رہنا چاہیے تھا۔ {یہاں ایک اور دل چسپ انکشاف کرتا چلوں۔
دنیا بھر پر معاشی ومعاشرتی تسلط قائم کرنے کے لیے پیہم سرگرم عمل صہیونی درحقیقت مقامی (یعنی فِلَسطینی) ہیں نہ حقیقی یہودی۔ یہ ساری تحقیق اب انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ آج بھی توحیدپرست یہودیوں کا ایک فرقہ صہیونیت اور اِسرائیل کا مخالف اور مظلوم فِلَسطینیوں کا حامی ہے}۔ قربانی کے سہ روزہ عمل میں جانور فروش، قصاب، ذرائع نقل وحمل سے متعلق لوگ یعنی ٹرانسپورٹرز، کھالوں کے بیوپاری، چمڑے کے بیوپاری اور ان سب سے ذیلی طور پر مستفید ہونے والے لاتعداد مسلمانوں کو معاشی فائد ہ پہنچتا ہے۔ اندرون وبیرون ِملک سے اس موقع پر رقوم کی ترسیل کا سلسلہ بھی منفعت بخش ہے۔ ان نکات نیز اِسلامی تعلیمات کے پیش نظر، عیدالاضحی کی قربانی کا مقصد بالکل واضح ہوجاتا ہے۔