ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔
’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔
’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔
’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔
’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔
’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔
انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔
اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔
جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔
یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ، اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔
ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔
وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔
پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔
دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
یہ وہی ہیں جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔
جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔
دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟
یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔ خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔
کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔
کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔ وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔
انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔ جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی پر، اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔
یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔
انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔
کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟ کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ثنا یوسف ٹک ٹاکر کی زندگی انسان کی رہے ہیں کسی بھی اور اس کے لیے کسی کی
پڑھیں:
سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ: بانجھ پن پر عورت کو نان و نفقہ سے محروم کرنا غیر قانونی قرار
سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ: بانجھ پن پر عورت کو نان و نفقہ سے محروم کرنا غیر قانونی قرار WhatsAppFacebookTwitter 0 24 July, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) سپریم کورٹ آف پاکستان نے خواتین کے بانجھ پن کو نان و نفقہ اور مہر سے انکار کی بنیاد بنانے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ایک شوہر پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے شوہر صالح محمد کی درخواست مسترد کر دی، جو اپنی بیوی کو بانجھ کہہ کر اس کے تمام شرعی و قانونی حقوق چھیننا چاہتا تھا۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بانجھ پن کسی عورت کی ”عزت نفس، نسوانیت یا بیوی ہونے“ کی اہلیت پر سوال اٹھانے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ سپریم کورٹ نے شوہر کے اس رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خواتین کی تضحیک معاشرتی تعصب کو ہوا دیتی ہے، اور عدالتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے رویوں کا سدباب کریں۔
فیصلے میں انکشاف ہوا کہ شوہر نے اپنی بیوی پر صرف بانجھ پن ہی کا الزام نہیں لگایا، بلکہ اسے ”عورت نہ ہونے“ تک کا کہہ دیا۔ عدالت نے کہا کہ ایسی زبان اور الزامات ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہیں۔ شوہر نے اپنی بیوی کو والدین کے گھر چھوڑ کر دوسری شادی کر لی اور اس کے بعد پہلی بیوی کے نان و نفقہ اور حق مہر سے بھی انکار کر دیا، جو کہ واضح طور پر اسلامی اور ملکی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے بتایا کہ بیوی کی جانب سے پیش کی گئی میڈیکل رپورٹس نے شوہر کے تمام الزامات کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ خاتون کو 10 سال تک مسلسل تضحیک اور اذیت کا نشانہ بنایا گیا، جس پر شوہر کو سزا دی گئی۔ جھوٹے الزامات اور عدالت کا وقت ضائع کرنے پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ’عورت کی عزت نفس ہر حال میں محفوظ ہونی چاہیے‘ اور خواتین کے حقوق کا تحفظ عدلیہ کی اولین ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ نے ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے شوہر کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کو خارج کر دیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرراولپنڈی: سابق صوبائی وزیر راجا بشارت کو گرفتار کرلیا گیا راولپنڈی: سابق صوبائی وزیر راجا بشارت کو گرفتار کرلیا گیا برساتی نالے میں بہہ جانے والے ریٹائر کرنل کی لاش مل گئی، بیٹی کی تلاش جاری، گاڑی کا دروازہ اور بونٹ بھی مل گیا دیامر سیلاب: ڈاکٹر مشعال کے 3 سالہ بیٹے کی لاش 3 دن بعد مل گئی لارڈ قربان حسین کی کشمیر میں بھارتی مظالم، سندھ طاس معاہدہ معطلی اور بھارتی جارحیت پر کڑی تنقید عافیہ صدیقی کیس؛ وزیراعظم اور کابینہ کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھیجنے کا معاملہ رُک گیا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی آل پارٹیز کانفرنس آج ہوگی، اپوزیشن کا شرکت سے انکارCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم