WE News:
2025-09-18@21:45:36 GMT

انکار کیوں کیا؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, June 2025 GMT

انکار کیوں کیا؟

ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔ 

’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔

’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔ 

’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔ 

’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔

’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔

انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔  

اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔

جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ  اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔ 

یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ،  اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔

ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔ 

وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔ 

پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔

 دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

یہ وہی ہیں  جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے،  وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔

جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔ 

 دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟

یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔  خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔

کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔ 

کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔  وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔ 

انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔  جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی  پر،  اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔ 

یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔ 

انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔

کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟  کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

ثنا یوسف ٹک ٹاکر عورت مرد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ثنا یوسف ٹک ٹاکر کی زندگی انسان کی رہے ہیں کسی بھی اور اس کے لیے کسی کی

پڑھیں:

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خلافت و ملوکیت کا فرق
اسلام جس بنیاد پر دُنیا میں اپنی ریاست قائم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت سب پر بالا ہے۔ حکومت اور حکمران، راعی اور رعیّت، بڑے اور چھوٹے، عوام اور خواص، سب اُس کے تابع ہیں۔ کوئی اُس سے آزاد یا مستثنیٰ نہیں اور کسی کو اس سے ہٹ کر کام کرنے کا حق نہیں۔ دوست ہو یا دشمن، حربی کافر ہو یا معاہد، مسلم رعیّت ہو یا ذمّی، مسلمان وفادار ہو یا باغی یا برسرِ جنگ، غرض جو بھی ہو شریعت میں اُس سے برتائو کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے، جس سے کسی حال میں تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔
خلافتِ راشدہ اپنے پورے دور میں اِس قاعدے کی سختی کے ساتھ پابند رہی، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے انتہائی نازک اور سخت اشتعال انگیز حالات میں بھی حدودِ شرع سے قدم باہر نہ رکھا۔ ان راست رو خلفاء کی حکومت کا امتیازی وصف یہ تھا کہ وہ ایک حدود آشنا حکومت تھی، نہ کہ مطلق العنان حکومت۔
مگر جب ملوکیت کا دور آیا تو بادشاہوں نے اپنے مفاد، اپنی سیاسی اغراض، اور خصوصاً اپنی حکومت کے قیام و بقا کے معاملے میں شریعت کی عائد کی ہوئی کسی پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی کسی حد کو پھاند جانے میں تامّل نہ کیا۔ اگرچہ ان کے عہد میں بھی مملکت کا قانون اسلامی قانون ہی رہا۔ کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ کی آئینی حیثیت کا اُن میں سے کسی نے کبھی انکار نہیں کیا۔ عدالتیں اِسی قانون پر فیصلے کرتی تھیں، اور عام حالات میں سارے معاملات، شرعی احکام ہی کے مطابق انجام دیے جاتے تھے۔ لیکن ان بادشاہوں کی سیاست دین کی تابع نہ تھی۔ اُس کے تقاضے وہ ہر جائز وناجائز طریقے سے پورے کرتے تھے، اور اس معاملے میں حلال و حرام کی کوئی تمیز روا نہ رکھتے تھے (خلافت اور ملوکیت کا فرق، ترجمان القرآن، ستمبر 1965)۔
٭—٭—٭

سانحۂ مسجدِ اقصیٰ
اصل مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی 1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبر ظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں (سانحۂ مسجدِ اقصیٰ)۔

متعلقہ مضامین

  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • ابھیشیک سے علیحدگی؟ ایشوریا رائے والدہ کے گھر بار بار کیوں جاتی ہیں؟ اصل وجہ سامنے آگئی
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش
  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • حکومت سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر رہی؟
  • زینت امان کو اپنا آپ کبھی خوبصورت کیوں نہ لگا؟ 70 کی دہائی کی گلیمر کوئین کا انکشاف
  • پنجاب اسمبلی میں شوگر مافیا تنقید کی زد میں کیوں؟
  • دیشا وکانی (دیا بین) ’تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ‘ میں واپس کیوں نہیں آ رہیں؟ اصل وجہ سامنے آ گئی
  • ’ کیا میں ایسی عورت لگتی ہوں؟‘ تنوشری دتہ نے 1 کروڑ 65 لاکھ روپے کی بگ باس آفر فوراً  ٹھکرا دی