جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
ثنا یوسف چترال سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت، تخلیقی اور خودمختار نوجوان لڑکی تھی جو سوشل میڈیا پر سرگرم تھی اور ایک بااثر ڈیجیٹل کریئیٹر کے طور پر ابھر رہی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اس کی زندگی کا اختتام ایک ایسے المیے پر ہوا جو صرف ذاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک گہری سماجی بیماری کی علامت ہے۔
ثنا کو ایک 23 سالہ نوجوان عمر حیات نے صرف اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے اس کی دوستی کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس میں سنسنی خیز انکشافات: قاتل کا اعتراف، رینٹ کی گاڑی، تحائف ٹھکرانے کا رنج
یہ معاملہ محض ‘غیرت’ یا وقتی غصے کا نہیں بلکہ ایک زہریلی سوچ کی پیداوار ہے۔ وہ سوچ جو عورت کے انکار کو جرم اور مرد کی انا کو انصاف کا پیمانہ سمجھتی ہے۔ دنیا اس سوچ کو ان سیل (In Cel) کے نام سے جانتی ہے۔
اِن سیل کلچر: ایک خطرناک ذہنیت‘ان سیل’ (Involuntary Celibate) یعنی ‘بغیر اپنی مرضی کے غیررومانوی زندگی گزارنے والے افراد’ کی اصطلاح مغرب میں ایک آن لائن کمیونٹی سے وابستہ رہی ہے، جو جنسی یا رومانوی تعلق سے محرومی کے باعث عورتوں کے خلاف شدید نفرت اور غصے میں مبتلا ہوتے ہیں۔
یہ لوگ عورتوں کے ‘نہ’ کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں اور اس انکار کو ‘انتقام’ کے قابل جرم مانتے ہیں۔ ان کی گفتگو، آن لائن فورمز، یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا گروپس میں عورت دشمنی عام سی بات ہے۔
اگرچہ پاکستان میں اس اصطلاح سے واقفیت عام نہیں لیکن اس کی روح اور ذہنیت ہمارے معاشرے میں کئی انداز سے موجود ہے:
مردانگی کو تسلیم کروانے کے لیے تعلق کا ‘حاصل ہونا’ ضروری سمجھا جاتا ہے؛
عورت کا انکار مرد کی تذلیل کے مترادف سمجھا جاتا ہے؛
خودمختار عورت کو ‘مغرور’ یا ‘قابلِ سزا’ قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد میں قتل ہونے والی 17 سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کون تھیں؟
یہ وہ معاشرتی سانچے ہیں جو عمر حیات جیسے نوجوانوں کی سوچ کی تشکیل کرتے ہیں۔ وہ شعوری طور پر خود کو ‘ان سیل’ نہ بھی سمجھتے ہوں، تب بھی ان کی سوچ اسی زہریلے سانچے سے جنم لیتی ہے۔
ثنا کا ‘نہ’ اور معاشرتی انا کا زخمثنا یوسف کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے تعلق سے انکار کیا، اپنی پسند اور اپنی آزادی کا استعمال کیا۔ عمر نے اس انکار کو نہ صرف انا کا مسئلہ بنایا، بلکہ اسے ‘سزا دینے’ کی حد تک پہنچا دیا۔ اس نے اسے قتل کیا ، وہ بھی دن دیہاڑے۔
یہ ردعمل محض ایک فرد کی نفسیاتی بے چینی نہیں تھی، بلکہ ایک پوری سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ سوچ جو عورت کو انسان نہیں، ایک شے یا ‘حق’ سمجھتی ہے۔
عمر، ان سیل تھا؟ شاید خود بھی نہ جانتا ہویہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنا ضروری ہے: عمر شاید کبھی Reddit یا 4chan پر نہ گیا ہو، نہ ہی ‘ان سیل’ کے نظریے سے واقف ہو۔ مگر اس کے طرزِ فکر میں وہ تمام علامات موجود تھیں جو ان سیل کلچر کی بنیاد ہیں:
عورت کا انکار ناقابلِ برداشت؛
تعلق پر ‘حق’ کا تصور؛
مسترد کیے جانے پر غصہ اور انتقام کی جبلّت۔
یہ بھی پڑھیے: بیگم جہاں آرا شاہنواز سے نسیم جہاں تک، جدوجہدِحقوقِ نسواں کی اَن کہی داستان
یہی وہ ذہنیت ہے جو ہمارے نوجوانوں میں غیر محسوس طریقے سے سرایت کرتی جا رہی ہے، کبھی واٹس ایپ گروپس، کبھی یوٹیوب پر ‘مردانہ طاقت’ کے نام پر ویڈیوز، اور کبھی روزمرہ لطیفوں اور گفتگو میں۔
سوشل میڈیا اور زہریلا مردانہ بیانیہسوشل میڈیا پر مردوں کے لیے مخصوص کئی وی لاگرز، ‘ریڈ پِل’ چینلز اور آن لائن گروپس موجود ہیں جو عورت کو ناقابلِ بھروسا، چالاک یا کمتر ثابت کرتے ہیں۔ وہ مرد کو یہ سکھاتے ہیں کہ عورت کو کیسے ‘جیتا’ جائے، کیسے ‘قابو’ میں رکھا جائے، اور کیسے اس کے انکار کو اپنی طاقت سے شکست دی جائے۔
یہی وہ بیانیہ ہے جو مسترد کیے جانے کو مرد کی شکست اور عورت کی غلطی بنا دیتا ہے اور آخر کار ثنا یوسف کے قتل جییسے سانحات کو جنم دیتا ہے۔
حل کہاں ہے؟ہمیں فرد کو سزا دینے سے آگے بڑھ کر، اس ذہنیت کا احتساب کرنا ہوگا جو ہر گھر، ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ہر کلاس روم میں جنم لے رہی ہے۔
عورت کے انکار کو حق تسلیم کرنا — یہ نصاب، میڈیا اور والدین کی تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ مردوں کی جذباتی تربیت — لڑکوں کو یہ سکھانا کہ انکار زندگی کا ایک عام تجربہ ہے، نہ کہ انا کا زخم۔ سوشل میڈیا پر عورت دشمن مواد کی روک تھام — پلیٹ فارمز کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے مواد سے حقیقی دنیا میں کیا اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ معاشرتی گفتگو کی اصلاح — ہر وہ جملہ، مذاق، یا تصور جو عورت کو کمتر یا مرد کو غالب ظاہر کرے، اسی ذہنیت کو فروغ دیتا ہے جس نے ثنا کو مارا۔ ثنا کی یاد، ایک سوال بن کر باقی ہےثنا یوسف کا قتل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عورتوں کی خودمختاری، انکار اور انتخاب کو صرف قانون نہیں، معاشرتی سوچ بھی خطرہ سمجھتی ہے۔ جب تک ہم اس سوچ کو جڑ سے نہیں اکھاڑتے، ‘نہیں’ کہنا کئی عورتوں کے لیے جان لیوا فیصلہ بنا رہے گا۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب میں با اختیار خواتین کی کامیابیوں کی متاثر کن کہانیاں
اب وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں:
کیا ہم واقعی عورتوں کے ‘نہ’ کہنے کے حق کا احترام کرتے ہیں؟
یا ہم اسے مرد کی شکست، اور سزا کے قابل جرم سمجھتے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ان سیل کلچر ثنا یوسف خواتین سوشل میڈیا عورتوں کے انکار کو ثنا یوسف عورت کو مرد کی ان سیل کے لیے
پڑھیں:
بھارت سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کرسکتا، ایسا کیا تو جنگ تصور ہو گا، یوسف رضا گیلانی
ملتان (آئی این پی) چیئرمین سنیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ نے کہا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا، اگر پانی روکنے کی کوشش کی گئی تو اسے پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ وہ ملتان میں نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے جو امن کی خواہش رکھتا ہے، لیکن بھارت نے بارہا ہماری امن پسندی کو کمزوری سمجھا۔ پہلگام واقعے کے بعد ہم نے آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کی، مگر بھارت نے اس کے بجائے پاکستان پر حملہ کر دیا، جس کے بعد ہمیں اپنے دفاع میں بھرپور جواب دینا پڑا۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں اور کسی بھی یکطرفہ اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم نے دنیا کے سامنے پاکستان کا موقف واضح انداز میں رکھا، عالمی برادری نے ہمارے مقف کی تائید کی اور بھارت کے بیانیے کو مسترد کر دیا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سفارت کاری اور مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے، لیکن اپنی خودمختاری اور پانی جیسے بنیادی حقوق پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔یوسف رضا گیلانی نے قوم کو اتحاد کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہے تو سیاست ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ مل کر ملک کو مضبوط بنائیں۔