✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, June 2025 GMT
عیدالاضحیٰ کا تہوار مسلمانوں کے لیے خوشی، ایثار اور قربانی کا مظہر ہے۔ ہر سال لاکھوں جانور اللہ کی راہ میں قربان کیے جاتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس عظیم عبادت کی اصل روح کو سمجھ پائے ہیں؟ یا ہم نے اسے صرف ایک "رسم" اور "سماجی مقابلے بازی" کا میدان بنا دیا ہے؟
آج کل ایک رواج عام ہو چکا ہے کہ جس کے گھر سے قربانی کا گوشت آتا ہے، اُسی کے گھر گوشت بھیجا جاتا ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے؟ گوشت کی یہ "ادلا بدلی" اب خلوص کے بجائے ایک طرح کی لین دین یا حساب کتاب بن چکی ہے: اُس نے ہمیں بھیجا تو ہم بھیجیں گے، اُس نے نہیں بھیجا تو ہم بھی نہیں بھیجیں گے۔
لیکن یہ صرف تقسیمِ گوشت کا معاملہ نہیں، بلکہ عبادت کی نیت، اس کی روح اور اس کے نتائج کا معاملہ ہے۔ جب یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کم خوبصورت، ہڈیوں والا یا غیر معیاری گوشت غرباء کو دے دیا جائے اور صاف ستھرا، چربی سے پاک عمدہ گوشت فریزر میں محفوظ کر لیا جائے، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم قربانی کر کس کے لیے رہے ہیں؟ اللہ کے لیے؟ یا اپنے پیٹ اور فریزر کے لیے؟
میرے گھر میں، میں نے یہ اصول سختی سے نافذ کیا ہوا ہے کہ جس کے گھر قربانی ہو رہی ہے، اُسے ہم گوشت نہیں بھیجیں گے۔ خواہ وہ میری سگی بہن ہو، سگا ماموں ہو، میرے سسرال والے ہوں، دوست احباب یا قریبی پڑوسی۔ میری واضح ہدایت ہے کہ قربانی کا گوشت صرف ان لوگوں کو بھیجا جائے جن کے گھروں میں قربانی نہیں ہو رہی۔ کیونکہ وہی لوگ اس کے اصل مستحق ہیں۔ جو لوگ قربانی کر رہے ہیں، ان کے فریزر پہلے ہی بھرے ہوتے ہیں، انہیں گوشت کی نہیں، شاید خلوص کی ضرورت ہو۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا جو تصور ہے — ایک حصہ اپنا، ایک رشتہ داروں کا اور ایک غریبوں کا — اُس پر آج کتنے لوگ عمل کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اکثر گھروں میں پورا گوشت اپنے فریزر میں رکھ لیا جاتا ہے، اور تین مہینے تک وہی گوشت چلتا رہتا ہے۔ تو یہ کیسا "ایثار" ہے جس میں صرف اپنا فائدہ پیشِ نظر رکھا گیا ہو؟ قربانی کے گوشت کو جمع کرنا عبادت نہیں بناتا، بلکہ تقسیم کرنا ہی اس کی اصل روح ہے۔
اور آخر میں، ایک سادہ سی مگر پُر اثر گزارش:
آپ لاکھوں روپے کا جانور خرید لیتے ہیں، خدارا اس بار ایک لاکھ کی نیت بھی خالص خرید لیں۔
قربانی صرف مستحقین تک پہنچائیں — شاید اسی میں آپ کی قربانی پوری، مکمل اور اللہ کے نزدیک قابلِ قبول ہو جائے۔
قربانی اگر اللہ کے لیے ہے تو اس میں دکھاوا نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر اللہ کے بندوں کے لیے ہے تو پھر اس میں خودغرضی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
چند لمحے رک کر سوچیں:
قربانی آپ کی عبادت ہے، یا ایک سماجی رسم؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
سویلین حکومت تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی،پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں، ترجمان کا ٹی وی چینل کو انٹرویو
امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں۔ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔ پاکستان کی سویلین حکومت افغانستان کے ساتھ باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی۔ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی صادق خان کابل میں تھے اور انہوں نے افغان حکام سے مثبت بات چیت کی، لیکن اسی عرصے کے دوران پاکستان نے افغان سرزمین پر حملے بھی کیے۔مجاہد نے نوٹ کیا کہ پاکستان کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کے ساتھ کراسنگ کی بندش سے دونوں طرف کے تاجروں کو بڑا نقصان ہوا ہے، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے معاملات کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے، دوسری طرف پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات روکنا ہمارا اختیار نہیں۔دریائے کنڑ پر ڈیم بننے کی خبروں پر پاکستان کی تشویش سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پر تعمیرات اور دیگر سرگرمیاں مکمل طور پر افغانستان کا حق ہے، اگر دریائے کنڑ پر کوئی ڈیم بنایا جاتا ہے تو اس سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، پانی اپنی قدرتی سمت میں بہنا جاری رہے گا، اور اسے مقررہ راستے میں ہی استعمال کیا جائے گا۔ذبیح اللہ مجاہد نے سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دور میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان سرزمین پر ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں کسی بھی معلومات کو امارت اسلامیہ کے ساتھ شیٔر کرے تاکہ مناسب کارروائی کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فریق چاہتا ہے کہ ہم پاکستان کے اندر ہونے والے واقعات کو بھی روکیں، لیکن پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنا ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ امارت اسلامیہ پاکستان میں عدم تحفظ نہیں چاہتی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ افغان سرزمین سے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔افغان ترجمان نے امید ظاہر کی کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور میں دو طرفہ مسائل کے دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے دیانتدارانہ اور ٹھوس بات چیت ہوگی۔