روزہ داروں کے لیے اے آئی کی جانب سے خاص مشورہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
مصنوعی ذہانت کی مقبول ایپلی کیشن نے رمضان المبارک کے دوران روزہ داروں کے لیے خاص مشورہ دیا ہے۔
اے آئی نے روزہ داروں کے لیے ایک جامع اور متوازن غذائی نظام تجویز کیا ہے۔ اے آئی کی جانب سے یہ نظام بتانے کا مقصد روزے داروں کو توانائی، نمی اور ضروری غذائی اجزا فراہم کرنا ہے تاکہ وہ صحت مند و توانا رہ سکیں۔
مصنوعی ذہانت کا تجویز کردہ غذائی نظام:
سحری:سحری میں ایسی غذاؤں کا انتخاب کریں جو دن بھر توانائی فراہم کریں اور جسم میں نمی برقرار رکھیں۔کمپلیکس کاربوہائیڈریٹس، پروٹین، صحت مند چکنائی، فائبر اور پانی سے بھرپور غذائیں کھائیں۔ مثلا:خشک میوہ جات اور توت کے ساتھ اناج کا دلیہ۔اس کے علاوہ ایوکاڈو اور ابلا ہوا انڈا گندم کی روٹی کے ساتھ اور لیموں یا پودینے کے ساتھ ایک گلاس پانی۔
افطار:افطار میں ایسی غذاؤں کا انتخاب کریں جو توانائی بحال کریں اور جسم کو دوبارہ پانی فراہم کریں۔کھجور، پانی، سبزیاں، پروٹین، کاربوہائیڈریٹس اور صحت مند چکنائیوں کا استعمال کریں، مگر تلی ہوئی اشیا سے ہرممکن حد تک پرہیز کریں۔ مثلاً کھجور اور ایک گلاس پانی سے روزہ کھولیں۔کم تیل میں پکا ہوا مرغی کا شوربہ یا دال۔ زیتون کے تیل کے ساتھ مکس سلاد۔بھنی ہوئی سبزیاں براؤن رائس کے ساتھ۔
افطار اور سحری کے درمیان:افطار کے چند گھنٹے بعد ہلکا پھلکا کھانا کھائیں۔صحت بخش غذاؤں کا انتخاب کریں، جیسے خشک میوہ جات، پھل، دہی اور قدرتی جوس۔
اضافی ہدایات:ایسی غذا سے خاص طور پر پرہیز کریں جس میں چینی شامل ہو۔ جو بھی کھائیں، اس کی مقدار کو کنٹرول میں رکھیں۔ جسمانی سرگرمیوں کا سلسلہ برقرار رکھیں۔
مصنوعی ذہانت کی جانب سے دی گئی تجاویز رمضان المبارک میں صحت مند و توانا رہنے کے لیے بہترین ہیں۔یہ مشورے متوازن غذا کی اہمیت پر زور دیتے ہیں جو روزہ داروں کو توانائی اور غذائیت فراہم کرتی ہے۔
رمضان المبارک میں صحت مند غذائی عادات اپنا کر، روزے دار جہاں اپنی عبادات کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں، وہیں اپنی صحت کو بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سردار شیر باز کا مزید 10 روزہ ریمانڈ: بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی، والدہ مقتولہ
کوئٹہ+ کراچی (نیٹ نیوز) انسداد دہشت گردی عدالت کوئٹہ نے خاتون اور مرد کے قتل کے مقدمے میں نامزد ملزم سردار شیر باز ساتکزئی کو مزید 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ کوئٹہ میں انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ایک میں خاتون اور مرد کے قتل کیس کی سماعت ہوئی، نامزد ملزم سردار شیر باز ستکزئی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے پولیس کی استدعا پر مزید 10 روز کا ریمانڈ منظور کرتے ہوئے سردار شیر باز ستکزئی کو سیریس کرائم انوسٹی گیشن ونگ کے حوالے کر دیا۔ بلوچستان میں قتل خاتون کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان سامنے آگیا جس نے کیس کا رخ ہی موڑ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقتولہ کی والدہ نے اپنے جاری مبینہ بیان میں کہا کہ میرا نام گل جان ہے اور میں بانو کی ماں ہوں، جھوٹ نہیں بول رہی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بانو پانچ بچوں کی ماں تھی اور کوئی بچی نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا بڑا بیٹا نور احمد ہے، جس کی عمر 18 سال ہے۔ دوسرا بیٹا واسط ہے، جو 16 سال کا ہے۔ اس کے بعد اس کی بیٹی فاطمہ ہے، جو 12 سال کی ہے۔ پھر اس کی بیٹی صادقہ ہے، جو 9 سال کی ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا زاکر ہے، جس کی عمر 6 سال ہے۔ والدہ نے کہا کہ یہ کوئی بے غیرتی نہیں تھی بلکہ بلوچ رسم و رواج کے مطابق کیا گیا، بانو 25 دن احسان کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔ 25 دن بعد وہ واپس آ گئی۔ تب بانو کے شوہر نے بچوں کی خاطر اسے معاف کر دیا اور اسے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گیا۔ احسان اللہ آئے روز میرے بیٹوں کو دھمکیاں دیتا تھا، آئے روز ٹک ٹاک ویڈیوز بنا کر میرے بیٹوں کو طیش دلاتا تھا۔ بیٹی بانو کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی۔ بلوچی معاشرتی جرگے کے ذریعے بانو کو سزا دی گئی، ہمارے لوگوں نے کوئی ناجائز فیصلہ نہیں کیا، ہم نے لڑکی کو قتل کرنے کا فیصلہ سردار شیر باز ساتکزئی کے ساتھ نہیں، بلکہ بلوچی جرگے میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپیل کرتی ہوں کہ سردار شیر باز ساتکزئی اور دیگر گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان نے سندھ اسمبلی میں بلوچستان میں جوڑے کے بہیمانے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد جمع کرا دی۔ بلوچستان میں جوڑے کے بہیمانے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد رکن صوبائی اسمبلی سعدیہ جاوید اور ہیر سوہو نے جمع کروائی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ وحشیانہ عمل آئین پاکستان کے خلاف ہے اور مذکورہ قرارداد میں قتل کے عمل کو غیر اسلامی اور غیر ثقافتی قرار دیا گیا ہے۔ ارکان صوبائی اسمبلی نے قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت قاتلوں کو جلد سے جلد گرفتار کرے، غیرت کے نام پر اس طرح کے واقعات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔