لندن: برطانیہ کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے دارالعوام میں ہونے والے افطار ڈنر میں شرکت کی، جہاں انہوں نے برطانوی مسلم کمیونٹی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

برطانوی میڈیا کے مطابق، یہ افطار ڈنر آل پارٹی پارلیمانی گروپ برائے برطانوی مسلمان کی میزبانی میں منگل کے روز منعقد کیا گیا۔ اس تقریب میں اراکین پارلیمنٹ، انٹرفیتھ رہنما اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔

تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا، جس کے بعد رمضان کی فضیلت اور اس کے معاشرتی اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔

برطانوی وزیراعظم نے غزہ جنگ کے دوران مسلمانوں کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ برطانوی مسلم کمیونٹی کس قدر حساس وقت سے گزر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ غزہ کے متاثرین تک امداد پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

وزیراعظم اسٹارمر نے برطانوی مسلم کمیونٹی کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ وہ سماجی اور فلاحی کاموں میں بہترین کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موقع ہے، جہاں حکومتی سطح پر مسلمانوں کے مذہبی تہواروں کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

مودی سرکار عدالت میں ہار گئی!

ریاض احمدچودھری

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جاری ریاستی تعصب اور جھوٹے مقدمات ے درمیان ایک سکھ کی سانس نصیب ہوئی ہے۔ 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکوں کے کیس میں 19 سال بعد ممبئی ہائی کورٹ نے وہ فیصلہ سنایا جو مظلوم مسلمانوں کے لیے انصاف کی نوید اور جھوٹے عدالتی ڈھانچے کے لیے ایک طمانچہ بن کر ابھرا۔ عدالت نے تمام 12 مسلمانوں کو بری کر دیا جنہیں 2015 میں ٹرائل کورٹ نے جھوٹے الزامات کے تحت سزا دی تھی ان میں سے پانچ کو سزائے موت اور سات کو عمر قید سنائی گئی تھی۔جسٹس انیل کلور اور جسٹس شیام چندک پر مشتمل بینچ نے اپنے فیصلے میں واضح الفاظ میں کہا، استغاثہ ملزمان کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا، ہمیں یہ ماننے میں سخت دقت ہو رہی ہے کہ ان افراد نے جرم کا ارتکاب کیا۔لہذا سزا کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔عدالت نے حکم دیا کہ تمام افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے، بشرطیکہ وہ کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہوں۔یہ وہی کیس ہے جس میں جولائی 2006 کو ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں 11 منٹ کے دوران سات دھماکے ہوئے تھے، جن میں 189 افراد ہلاک اور 800 سے زائد زخمی ہوئے۔ دھماکوں کے لیے پریشر ککر بم استعمال کیے گئے تھے اور الزام فوری طور پر مسلمانوں پر لگا دیا گیا۔ بھارتی میڈیا اور ریاستی اداروں نے مسلمانوں کو نہ صرف بدنام کیا بلکہ کئی بے گناہ نوجوانوں کو اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان میں سے کچھ نوجوانوں نے جیل میں قید کے دوران اپنے اہل خانہ کو کھو دیا، اور ان کی زندگیاں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔2015 میں مہاراشٹرا کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (MCOCA) کی خصوصی عدالت نے 12 مسلمانوں کو مجرم قرار دے کر سزا سنا دی۔ فیصل شیخ، آصف خان، کمال انصاری، احتشام صدیقی اور نوید خان کو سزائے موت دی گئی تھی، جبکہ دیگر سات افراد کو عمر قید۔ان افراد پر اعتراف جرم کے لیے جسمانی اور ذہنی تشدد کے الزامات بھی سامنے آئے، مگر بھارتی ریاست نے سب کچھ نظر انداز کیا۔اب، ممبئی ہائی کورٹ نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان تمام مسلمانوں کو باعزت بری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ان بے گناہوں کی فتح ہے بلکہ بھارت میں جاری مسلم مخالف ریاستی پالیسیوں کی ایک تاریخی شکست بھی ہے۔
یہ فیصلہ ان لاکھوں مسلمانوں کے لیے امید کا پیغام ہے جو بھارت میں روز ریاستی جبر، پولیس گردی، اور عدالتی تعصب کا شکار ہوتے ہیں۔ مظلوموں نے ثابت کیا کہ سچ آخرکار فتح یاب ہوتا ہے، چاہے اس میں برسوں لگ جائیں۔یہ عدالتی فیصلہ صرف 12 بے گناہ مسلمانوں کی رہائی نہیں، بلکہ پوری مسلم ملت کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے ایک لمحہ جب جھوٹا پروپیگنڈا، ظلم، اور تعصب عدل کے سامنے ٹک نہ سکا۔اسے ممبئی پر سب سے بڑے حملوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے ‘سات/گیارہ حملوں’ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اس سے قبل 2015 میں ایک خصوصی عدالت نے پانچ ملزمان کو سزائے موت اور سات کو عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ اب بمبئی ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے۔ان ملزمان میں سے ایک کمال انصاری 2021 میں وفات پا گئے تھے۔رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے تمام بارہ افراد کو رہا کیے جانے کے عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ملزمان کی زندگی کے قیمتی 18 سال اس ناکردہ گناہوں کے الزام میں تباہ کر دیے گئے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اویسی نے ایکس پر لکھا، ”12 مسلمان مرد 18 سال سے اس جرم کے لیے جیل میں تھے جو انھوں نے نہیں کیا تھا۔ ان کی بنیادی زندگی ختم ہو گئی ہے۔ 180 خاندان جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا اور متعدد زخمی ہوئےـ انہیں کوئی تسلّی نہیں ملی۔”
اویسی نے اس طرح کے ہائی پروفائل کیسوں کے سلسلے میں پولیس کو اس کے رویے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا اور میڈیا پر متوازی ٹرائل چلانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ”ایسے کیسز میں جہاں عوامی ردعمل شدید ہوتا ہے، پولیس کا نقطہ نظر ہمیشہ پہلے کسی کو جرم قبول کرانے کا ہوتا ہے۔۔۔ میڈیا جس طرح کیس کو کور کرتا ہے، اس سے اس شخص کے جرم کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔”اس کیس کی تحقیقات کرنے والے مہاراشٹر کے اے ٹی ایس افسران کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا اور 2006 میں سیاسی قیادت کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔دوسری طرف ہندو قوم پرست جماعت شیو سینا کے رکن پارلیمان ملند دیورا، جو 2006 میں ممبئی سے ایم پی تھے، نے کہا، ”بطور ممبئی کے رہائشی، میں اس فیصلے کو قبول نہیں کر سکتا… میں مہاراشٹر حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بہترین وکیلوں کی خدمات حاصل کرے اور بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فوری اپیل کرے۔”بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے فیصلے کو ”انتہائی مایوس کن” قرار دیا اور ”تحقیقات اور قانونی لڑائی دونوں میں کوتاہیوں” کی طرف اشارہ کیا۔ خصوصی سرکاری وکیل اور اب رکن پارلیمان اجول نکم نے کہا کہ ملزمان کے بری ہونے سے سنگین خدشات پیدا ہوتے ہیں اور ریاست اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • مودی سرکار عدالت میں ہار گئی!
  • غزہ کی سنگین صورتحال پر برطانوی وزیرِاعظم کا ہنگامی ردعمل، فرانس اور جرمنی سے مشاورت کا اعلان
  • وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات،علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • پاکستان اسٹریٹ چلڈرن فٹبال کی ورلڈ کپ 2025 میں شرکت کی راہ ہموار
  • پاکستان اور برطانیہ کے مابین حال ہی میں ہونے والے تجارتی مذاکرات دونوں فریقین کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے ، وزیراعظم شہبازشریف کی برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ سے ملاقات میں گفتگو
  • وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • وزیراعظم شہبازشریف سے پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر محترمہ جین میریٹ کی ملاقات
  • وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، پاک برطانیہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • چین کے ساتھ بھائی چارے پر مبنی تاریخی تعلقات ہیں، ان کا تحفظ اولین ترجیح ہے، وزیراعظم