نئے ٹریول بین کے باعث پاکستانیوں کے امریکہ داخلے پر پابندی کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 06 مارچ 2025ء ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے ٹریول بین کے باعث پاکستانیوں اور افغان شہریوں کے امریکہ داخلے پر پابندی کا خدشہ ظاہر کردیا گیا۔ گلف نیوز نے رائٹرز کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ اس معاملے سے آگاہ تین ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی سفری پابندی اگلے ہفتے کے اوائل میں پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد کو امریکہ میں داخل ہونے سے روک سکتی ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دیگر ممالک کو بھی پابندی میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کون کون سے ممالک ہیں، اس اقدام سے 7 مسلم اکثریتی ممالک کے مسافروں پر پابندی کی بازگشت ہے، جو ایک ایسی پالیسی ہے جس پر 2018ء میں امریکی سپریم کورٹ کی طرف سے توثیق کیے جانے سے پہلے متعدد نظرثانی کی گئی۔(جاری ہے)
بتایا گیا ہے کہ نئی پابندیاں اگر لاگو ہوتی ہیں تو اس سے ان ہزاروں افغانیوں کے لیے بڑے نتائج مرتب ہو سکتے ہیں جنہیں پناہ گزینوں کے پروگرامز یا خصوصی تارکین وطن کے ویزوں کے تحت امریکہ میں آباد ہونے کے لیے پہلے ہی کلیئر کیا جا چکا ہے، ان میں بہت سے افراد کو افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے دوران امریکی حکومت کے لیے ماضی میں کام کرنے کی وجہ سے طالبان کے انتقام کا سامنا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ رواں برس 20 جنوری کو صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس میں قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ میں داخلے کے خواہشمند غیر ملکیوں کے لیے سخت حفاظتی سکریننگ کی ضرورت پر زور دیا، آرڈر میں متعدد سرکاری ایجنسیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 12 مارچ تک ان ممالک کی فہرست جمع کرائیں جن کی جانچ کے عمل کو ناکافی سمجھا جاتا ہے جو ممکنہ طور پر جزوی یا مکمل سفری معطلی کا باعث بنتا ہے۔ رائٹرز نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان کو مکمل سفری پابندی کی فہرست میں شامل کیے جانے کا امکان ہے جب کہ پاکستان کو بھی اس میں تجویز کیے جانے کا امکان ہے، امریکی محکمہ خارجہ، انصاف اور ہوم لینڈ سکیورٹی، قومی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر کے ساتھ اہم ایجنسیاں جو اس اقدام کی نگرانی کرتی ہیں، انہوں نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔ ایک ذریعے نے رائٹرز کو بتایا کہ مہاجرین کے طور پر یا خصوصی تارکین وطن کے ویزوں کے ذریعے امریکہ میں آباد ہونے کے لیے درخواست دینے والے افغان پہلے ہی ایک وسیع سکریننگ کے عمل سے گزرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ عالمی سطح پر کسی بھی آبادی کے مقابلے میں زیادہ جانچے گئے ہیں، محکمہ خارجہ کا افغان آباد کاری کو سنبھالنے والا دفتر خصوصی امیگرنٹ ویزہ رکھنے والوں کے لیے استثنیٰ پر زور دے رہا ہے لیکن اس درخواست کے منظور ہونے کا امکان نہیں ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکہ میں کا امکان کے لیے
پڑھیں:
بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے کہا ہے کہ پاکستانی پروازوں پر بھارتی فضائی حدود کی پابندی سے پاکستان بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست فضائی رابطوں میں تاخیر کا سامنا ہے، کراچی اور چٹا گانگ کے درمیان براہ راست بحری رابطوں سے تجارتی سامان کی ترسیل کا دورانیہ بیس روز سے کم ہوکر پانچ چھ دن تک مختصر کیا جاسکتا ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی لائی جاسکے گی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔
یہ بات انہوں نے *ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری، چیف ایڈوائزر حکومتِ بنگلہ دیش کے خصوصی معاون کے اعزاز میں منعقدہ خیرمقدمی تقریب میں کہی، جس کا اہتمام **بورڈ آف مینجمنٹ، قائداعظم ہاؤس میوزیم – انسٹیٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ* نے کراچی میں کیا۔
اقبال حسین خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے اور مثبت دور میں داخل ہو رہے ہیں۔بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعاون، دوستی اور عوامی رابطوں کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
اپنے خطاب میں ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے دونوں ممالک کے تاریخی روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ماضی میں سیاسی جدائی واقع ہوئی، مگر بنگلہ دیش اور پاکستان کے عوام آج بھی باہمی محبت اور بھائی چارے کے جذبات رکھتے ہیں۔
انہوں نے حالیہ برسوں میں ویزا پالیسی میں مثبت تبدیلیوں کو سراہتے ہوئے بتایا کہ اب بنگلہ دیشی شہری صرف 24 گھنٹوں میں پاکستانی ویزا حاصل کر سکتے ہیں اور پاسپورٹ جمع کرانے کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں قائم بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمیشن کو اب مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ویزا براہِ راست جاری کرے، جس سے سابقہ رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔
ہائی کمشنر نے *ڈھاکا اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان براہِ راست پروازوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی حدود کی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ فی الحال تاخیر کا شکار ہے، تاہم دونوں ممالک کے متعلقہ ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے *چٹاگانگ اور کراچی کے درمیان براہِ راست بحری رابطے* کی تجویز بھی پیش کی، جس سے مال برداری کا وقت بیس دن سے کم ہو کر صرف پانچ یا چھ دن رہ جائے گا۔ ان کے مطابق یہ اقدام تجارتی سرگرمیوں میں تیزی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔
اقبال حسین خان نے تعلیم، سیاحت، صحت اور ثقافتی تبادلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی وفود اور جامعاتی سطح پر کھیلوں کے تبادلے شروع ہو چکے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔
قائد اعظم ہاؤس میوزیم اور انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل بلڈنگ کے وائس چیئرمین اکرام سہگل نے اپنے خطاب میں دونوں ممالک کے تاریخی و ثقافتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان اور بنگلہ دیش آج دو علیحدہ ممالک ہیں، مگر وہ مشترکہ تاریخ، ثقافت اور اقدار کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم دو ممالک ضرور ہیں، لیکن ایک قوم ہیں۔''
انہوں نے زور دیا کہ اگر دونوں ممالک ویزا کی پابندیوں کو ختم کر دیں، باہمی تجارت پر محصولات عائد نہ کریں اور ایک دوسرے کی کرنسی کو قابلِ تبادلہ قرار دیں تو خطے میں خیرسگالی، اعتماد اور معاشی ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ اقدامات پیچیدہ معاہدوں کے بغیر ایک ہی صفحے کے فیصلے سے ممکن ہیں۔
اکرام سہگل نے دونوں ممالک کے درمیان *براہِ راست پروازوں اور بحری رابطوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کراچی اور چٹاگانگ سمیت دیگر بندرگاہوں سے تجارت تیز رفتار اور مؤثر ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر برآمدات بالخصوص *بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری* براہِ راست یورپ تک پہنچنے لگے تو دونوں ممالک کی معیشت کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔
اپنے خطاب میں انہوں نے 1971 کے واقعات سے متعلق ذاتی مشاہدات کا بھی ذکر کیا اور زور دیا کہ دونوں ممالک کو ''حقیقت پسندی، مفاہمت اور سچائی'' کی بنیاد پر تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے۔
اکرام سہگل نے آخر میں کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش اگر باہمی اعتماد، سچائی اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھیں تو دونوں ممالک مشترکہ اقدار اور مقصد کے تحت خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔
تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری مشیر خزانہ بنگلہ دیش نے کہا کہ دونوں ملکوں کو حقیقت تسلیم کرنی ہوگی، دونوں ملکوں کے درمیان بدگمانیاں پھیلائی گئیں ہمیں اپنے دشمن پر نظر رکھنا ہوگی جو اس وقت بھی بدگمانیاں پھیلا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد میں کمی اور غلط معلومات نے فاصلے پیدا کیے اسلام آباد میں دو اہم سڑکیں تحریک پاکستان کی سرکردہ بنگالی شخصیات کے نام سے موسوم ہیں اور بنگلہ دیش میں بھی محمد علی جناح اور دیگر سرکردہ شخصیات کے نام پر ادارے آج بھی قائم ہیں ہمیں یہ معلومات اور اعتماد نئی نسل کو منتقل کرنا ہوگی۔
انہوں نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکسان نے ساٹھ کی دہائی مں تیزی سے ترقی کی جب کوریا انتہائی غربت کا شکار تھا اور پاکستان سے مددکا خواہش مند تھا۔ انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے فنڈز کے بجائے خود انحصاری کو پائیدار ترقی کا راستہ قرار دیا۔