مقبوضہ کشمیر، بی جے پی حکومت کشمیری نوجوانوں کو منشیات کے استعمال کی لت میں مبتلا کر رہی ہے، معراج ملک
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
عام آدمی پارٹی کے رہنما اور ڈوڈہ سے رکن اسمبلی نے کشمیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نے منشیات کے استعمال کی لت میں مبتلا کرنے کیلئے مقبوضہ علاقے میں شراب کی دکانوں کا جال بجھا دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں عام آدمی پارٹی کے رہنما اور ڈوڈہ سے رکن اسمبلی معراج ملک نے کہا ہے کہ ہندوتوا بی جے پی حکومت مقبوضہ علاقے میں نوجوانوں کو شراب سمیت منشیات کی لت میں مبتلا کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق معراج ملک نے کشمیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی حکومت نے کشمیری نوجوانوں کو حق پر مبنی جدوجہد آزادی سے دور کرنے اور منشیات کے استعمال کی لت میں مبتلا کرنے کیلئے مقبوضہ علاقے میں شراب کی دکانوں کا جال بجھا دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیری نوجوانوں کو منشیات سمیت سماجی برائیوں سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے شراب سمیت ہر قسم کی منشیات کے استعمال پر سخت پابندی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اسپیکر پر کشمیر میں شراب پر فوری پابندی عائد کرنے اور منشیات کے خلاف سخت پالیسی کے نفاذ پر زور دیا۔ انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر کی زیرقیادت قابض انتظامیہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے دور میں جموں و کشمیر میں بڑی تعداد میں شراب کی دکانیں کھولی گئی ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: منشیات کے استعمال نوجوانوں کو انہوں نے بی جے پی
پڑھیں:
بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔