بڑی قدرتی آفت آنیوالی ہے؟ سمندر میں کیابڑا اور خطرناک ہونیوالا ہے؟ماہرین نے بڑا خدشہ ظاہر کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
سنجیدہ سائنسی طرز فکر رکھنے والے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ کوئی قدرتی آفت آنے والی ہے، کچھ ایسا ہونے والا ہے جو ہم انسانوں کے لئے برا ہو گا یا ممکن ہے کہ بہت زیادہ برا۔کچھ سائنسی کارکنوں کو خدشہ ہے کہ سمندر میں کچھ بڑا اور خطرناک ہونے والا ہے۔ اس خدشہ کی کچھ ٹھوس سائنسی بنیاد بھی ہے لیکن اب تک بیشتر لوگ اسے ایک قیاس آرائی ہی تصور کر رہے۔
ہوا یہ کہ اس سال کچھ زیادہ غیر معمولی واقعات دنیا کے سمندروں میں ہوئے۔ سمندروں میں ہزاروں کلومیٹر دوری پر ایسی مچھلیاں پانی کی سطح پر دیکھی گئیں جو کبھی اوپر آ کر ہمارے سامنے نہیں آتیں۔ یہ مچھلیاں پانی کی کئی کلومیٹر گہرائی میں رہتی ہیں اور پانی کی سطح پر آئے بغیر ہی زندگی گزار دیتی ہیں۔ سمندری ماحول کے کارکن حیران ہیں کہ سمندر کے اندر ایسا کیا ہو رہا ہے کہ یہ مچھلیاں کئی کلومیٹر گہرائی مین اپنے اصل ماحول کو چھوڑ کر پہلی مرتبہ سمندر کی سطح پر آ گئیں۔
ایسا واقعہ کسی ایک جگہ ہوا ہوتا تو اسے کم اہمیت دی جاتی اور سمندر کے اندر اس علاقہ میں کسی مقامی نوعیت کی وجہ سے اس کا تعلق جوڑاجاتا لیکن ہوا یہ کہ ہزاروں کلومیٹر دوری پر واقع مقامات پر ایسی مچھلیاں بار بار دیکھی گئیں جو اس سے پہلے کبھی اوپر نہیں آتی تھیں۔
رواں برس تواتر کے ساتھ سمندر اور آبی حیات سے متعلق کچھ ایسے غیر معمولی واقعات سے کئی قیاس آرائیوں نے جنم لیا ہے۔ ان مین سے ایک نسبتاً سادہ قیاس آرائی یہ ہے کہ سمندر کے اندر موسم بدل رہا ہے، یہ کلائمیٹ چینج کا ہی حصہ ہے۔ پانی کا ٹمپریچر شاید بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے زیادہ گہرائی میں رہنے والی سمندری حیات کی زندگی ڈسٹرب ہوئی ہے، یا زیادہ گہرائی میں ایکو سسٹم تبدیل ہو رہا ہے۔
دوسری قیاس آرائیاں زیادہ توہم پرست ذہنوں میں جنم لے رہی ہیں جو غیر معمولی شکل و صورت کی مچھلیوں کے پہلی مرتبہ دیکھے جانے کو کسی قدرتی آفت کی آمد سے پہلے کی نشانیاں قرار دے رہے ہیں۔رواں سال 2025 کی ابتدا سے سمندر اور آبی حیات سے متعلق کچھ غیر معمولی واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں جس کے باعث مختلف قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں۔
سال کے پہلے ماہ جنوری میں نایاب اینگلر فش کو پہلی بار سطح سمندر میں دیکھا گیا جب کہ یہ مچھلی گہرے پانی میں 200 سے 2 ہزار فٹ کی گہرائی میں پائی جاتی ہے، جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی۔اسی طرح میکسیکو کے ساحل پر بھی حیرت انگیز طور پر اورفش دیکھی گئی۔ یہ مچھلی بھی سمندر میں 15 ہزار میٹر کی گہرائی میں تاریک ماحول میں رہتی ہے اور شاذ ونادر ہی سطح آب پر آتی ہے۔سپین کے ساحل پر چمکدار لمبی مچھلی نمودار ہوئی جس کو قیامت کی مچھلی بھی کہا جاتا ہے۔
اسی طرح گزشتہ ماہ آسٹریلیا کے ساحل پر ڈیڑھ سو سے زائد ویل مچھلیاں مری ہوئی دیکھی گئیں روس میں ایک بھوت نما مچھلی سامنے آئی جسے مچھیروں نے پکڑ تو لیا لیکن اس کو دیکھ کر سب خوفزدہ ہوگئے۔ دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی ساحلی پٹی پر معمول سے ہٹ کر مناظر دیکھے گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر اس حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سمندر میں کچھ بڑا اور خطرناک ہونے والا ہے اس لیے نایاب آبی حیات سطح سمندر پر آرہی ہیں، جبکہ کچھ سوشل میڈیا صارفین اسے ایک خوفناک سمندری مخلوق لیوی ایتھن سے جوڑ رہے ہیں۔ کلائمیٹ چینج پر کام کرنے والے ماحول کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گہرے پانیوں کی مخلوق کا ساحل سمندر پر آنا صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قیاس ا رائیاں گہرائی میں غیر معمولی کہ سمندر رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
آسٹریلیا : سطح سمندر بلند ہونے سے 15 لاکھ افراد خطرات کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-15
کینبرا (انٹرنیشنل ڈیسک) آسٹریلیا کی قومی موسمیاتی خطرات کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث سمندر کی سطح بلند ہونے اور سیلاب سے 2050 ء تک آسٹریلیا کے 15 لاکھ شہری متاثر ہوں گے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک رواں ہفتے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے نئے اہداف جاری کرنے والا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بڑھتا درجہ حرارت آسٹریلیا کی 2 کروڑ 70 لاکھ سے زائد آبادی پر مسلسل اور باہم جڑے ہوئے اثرات مرتب کرے گا۔ آسٹریلوی وزیر کرس باؤون نے کہا کہ ہم اب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئی پیش گوئی یا تخمینہ نہیں رہا، یہ ایک زندہ حقیقت ہے اور اب اس کے اثرات سے بچنا ممکن نہیں رہا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ 2050 ء تک ساحلی علاقوں میں مقیم 15 لاکھ افراد براہ راست خطرے سے دوچار ہوں گے جبکہ 2090 ء تک یہ تعداد بڑھ کر 30 لاکھ ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا میں جائداد کی مالیت کو 2050 ء تک 611 ارب آسٹریلوی ڈالر (406 ارب امریکی ڈالر) کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جو 2090 ء تک 770 ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے۔مزید یہ کہ اگر درجہ حرارت میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا تو صرف سڈنی میں گرمی سے اموات کی شرح میں 400 فیصد سے زائد اضافہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے فوسل فیول برآمد کنندگان میں شمار ہونے والے آسٹریلیا پر طویل عرصے سے تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے موسمیاتی اقدامات کو سیاسی اور معاشی بوجھ سمجھا تاہم بائیں بازو کی لیبر حکومت نے حالیہ برسوں میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر توجہ دی ہے۔ یہ رپورٹ پیر کو اس وقت سامنے آئی جب آسٹریلیا اپنے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے نئے اہداف پیرس معاہدے کے تحت پیش کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ اہداف پہلے سے زیادہ بلند ہوں گے۔