سنجیدہ سائنسی طرز فکر رکھنے والے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ کوئی قدرتی آفت آنے والی ہے، کچھ ایسا ہونے والا ہے جو ہم انسانوں کے لئے برا ہو گا یا ممکن ہے کہ بہت زیادہ برا۔کچھ سائنسی کارکنوں کو خدشہ ہے کہ سمندر میں کچھ بڑا اور خطرناک ہونے والا ہے۔ اس خدشہ کی کچھ ٹھوس سائنسی بنیاد بھی ہے لیکن اب تک بیشتر لوگ اسے ایک قیاس آرائی ہی تصور کر رہے۔

ہوا یہ کہ اس سال کچھ زیادہ غیر معمولی واقعات دنیا کے سمندروں میں ہوئے۔ سمندروں میں ہزاروں کلومیٹر دوری پر ایسی مچھلیاں پانی کی سطح پر دیکھی گئیں جو کبھی اوپر آ کر ہمارے سامنے نہیں آتیں۔ یہ مچھلیاں پانی کی کئی کلومیٹر گہرائی میں رہتی ہیں اور پانی کی سطح پر آئے بغیر ہی زندگی گزار دیتی ہیں۔ سمندری ماحول کے کارکن حیران ہیں کہ سمندر کے اندر ایسا کیا ہو رہا ہے کہ یہ مچھلیاں کئی کلومیٹر گہرائی مین اپنے اصل ماحول کو چھوڑ کر پہلی مرتبہ سمندر کی سطح پر آ گئیں۔

ایسا واقعہ کسی ایک جگہ ہوا ہوتا تو اسے کم اہمیت دی جاتی اور سمندر کے اندر اس علاقہ میں کسی مقامی نوعیت کی وجہ سے اس کا تعلق جوڑاجاتا لیکن ہوا یہ کہ ہزاروں کلومیٹر دوری پر واقع مقامات پر ایسی مچھلیاں بار بار دیکھی گئیں جو اس سے پہلے کبھی اوپر نہیں آتی تھیں۔

رواں برس تواتر کے ساتھ سمندر اور آبی حیات سے متعلق کچھ ایسے غیر معمولی واقعات سے کئی قیاس آرائیوں نے جنم لیا ہے۔ ان مین سے ایک نسبتاً سادہ قیاس آرائی یہ ہے کہ سمندر کے اندر موسم بدل رہا ہے، یہ کلائمیٹ چینج کا ہی حصہ ہے۔ پانی کا ٹمپریچر شاید بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے زیادہ گہرائی میں رہنے والی سمندری حیات کی زندگی ڈسٹرب ہوئی ہے، یا زیادہ گہرائی میں ایکو سسٹم تبدیل ہو رہا ہے۔

دوسری قیاس آرائیاں زیادہ توہم پرست ذہنوں میں جنم لے رہی ہیں جو غیر معمولی شکل و صورت کی مچھلیوں کے پہلی مرتبہ دیکھے جانے کو کسی قدرتی آفت کی آمد سے پہلے کی نشانیاں قرار دے رہے ہیں۔رواں سال 2025 کی ابتدا سے سمندر اور آبی حیات سے متعلق کچھ غیر معمولی واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں جس کے باعث مختلف قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں۔

سال کے پہلے ماہ جنوری میں نایاب اینگلر فش کو پہلی بار سطح سمندر میں دیکھا گیا جب کہ یہ مچھلی گہرے پانی میں 200 سے 2 ہزار فٹ کی گہرائی میں پائی جاتی ہے، جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی۔اسی طرح میکسیکو کے ساحل پر بھی حیرت انگیز طور پر اورفش دیکھی گئی۔ یہ مچھلی بھی سمندر میں 15 ہزار میٹر کی گہرائی میں تاریک ماحول میں رہتی ہے اور شاذ ونادر ہی سطح آب پر آتی ہے۔سپین کے ساحل پر چمکدار لمبی مچھلی نمودار ہوئی جس کو قیامت کی مچھلی بھی کہا جاتا ہے۔

اسی طرح گزشتہ ماہ آسٹریلیا کے ساحل پر ڈیڑھ سو سے زائد ویل مچھلیاں مری ہوئی دیکھی گئیں روس میں ایک بھوت نما مچھلی سامنے آئی جسے مچھیروں نے پکڑ تو لیا لیکن اس کو دیکھ کر سب خوفزدہ ہوگئے۔ دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی ساحلی پٹی پر معمول سے ہٹ کر مناظر دیکھے گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر اس حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سمندر میں کچھ بڑا اور خطرناک ہونے والا ہے اس لیے نایاب آبی حیات سطح سمندر پر آرہی ہیں، جبکہ کچھ سوشل میڈیا صارفین اسے ایک خوفناک سمندری مخلوق لیوی ایتھن سے جوڑ رہے ہیں۔ کلائمیٹ چینج پر کام کرنے والے ماحول کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گہرے پانیوں کی مخلوق کا ساحل سمندر پر آنا صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قیاس ا رائیاں گہرائی میں غیر معمولی کہ سمندر رہے ہیں رہا ہے

پڑھیں:

سعودی عرب میں مقیم پاکستانی سیاح کا 20 سالہ مشن عالمی سطح پر تسلیم

سعودی عرب میں مقیم پاکستانی سیاح اور سعودی ٹورزم گروپ کے بانی کاشان سید نے گزشتہ 20 برسوں میں مملکت کے دور دراز، غیر معروف اور حیرت انگیز قدرتی مقامات کو دریافت کرنے کا جو مشن شروع کیا وہ اب ایک بین الاقوامی پہچان حاصل کر چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں میڈیا سیکٹر سرمایہ کاری کا نیا مرکز بن گیا

کاشان سید کی محنت اور جستجو کو سعودی ٹورزم اتھارٹی نے نہ صرف سراہا بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کے کام کو جیوگرافک چینل، ہسٹری چینل جیسے عالمی اداروں نے کوریج دے کر اعزاز بخشا ہے۔ ان کا یہ کارنامہ سعودی عرب میں غیر ملکیوں کے کردار اور سیاحت میں مثبت شراکت کی روشن مثال بن چکا ہے۔

حال ہی میں کاشان سید اور ان کی 20 گاڑیوں پر مشتمل ٹیم نے ریاض سے تقریباً 190 کلومیٹر دور واقع ’جو گوئیہ‘ ریجن کے جزالہ ایریا کا دورہ کیا۔ یہ مقام قدرتی چٹانوں، پہاڑی سلسلوں اور موسموں کے اثرات سے بنی انسانی اور حیوانی شکلوں کی وجہ سے حیرت انگیز نظارے پیش کرتا ہے۔

ان چٹانوں میں ہزاروں سالہ قدرتی عوامل جیسے بارش، دھوپ اور ہواؤں نے ایسی دلکش اور پراسرار اشکال تخلیق کی ہیں جو دیکھنے والوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔

مزید پڑھیے: سعودی عرب میں غیرملکیوں کو ملکیتی جائیداد حاصل کرنے کی مشروط اجازت

 کاشان سید کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے سعودی عرب کے ایسے مقامات کو دریافت کر رہے ہیں جو عام طور پر سیاحتی نقشے پر موجود نہیں۔ ان کا یہ جذبہ اب ایک مکمل پروفیشن میں تبدیل ہو رہا ہے جہاں ان کی ٹیم جی پی ایس نیویگیشن، ڈاکیومنٹیشن، فوٹوگرافی، ویڈیوز اور لوکیشن سروے جیسے جدید طریقوں سے سیاحت کو فروغ دے رہی ہے۔

ان کا مشن ہے کہ سعودی عرب کے قدرتی حسن، جغرافیائی تنوع اور تاریخی ورثے کو دنیا کے سامنے لایا جائے، اور ساتھ ہی سعودی وژن 2030 کے مطابق سیاحت کو ایک فعال صنعت کے طور پر پروان چڑھایا جائے۔

مزید پڑھیں: صحرا کو کیسے قابل کاشت بنائیں؟ پاکستان سعودی عرب سے مدد لینے کا خواہاں

سعودی ٹورزم گروپ کا یہ منفرد اقدام نہ صرف سعودی عرب کی سیاحت کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے بلکہ پاکستانی کمیونٹی کی نمائندگی بھی مثبت انداز میں پیش کر رہا ہے۔ ایسے افراد جو شوق، محنت اور وژن کے ساتھ کام کریں، وہی مستقبل میں قومی و بین الاقوامی ترقی کا سبب بنتے ہیں۔ دیکھیے یہ ویڈیو رپورٹ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستانی سیاح کاشان سید سعودی ٹورزم گروپ سعودیہ میں مقیم پاکستانی سیاح

متعلقہ مضامین

  • نواز شریف کے صدر بننے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں، سینیٹر عرفان صدیقی کی وضاحت
  • کیوبا کے قریب سمندر میں ہزاروں برس پرانا شہر دریافت!
  • پنجاب میں فلیش فلڈنگ کا خدشہ، الرٹ جاری
  • مچھلی کا گوشت دل و دماغ کے لیے بیحد مفید، مہینے میں کتنے دن کھانا چاہیے؟
  • کینیڈا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کردی
  • بھارت کے ’پریلے میزائل‘ کے تجربات سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ
  • کراچی میں جوڑے کا قتل، لڑکے کے والد نے لڑکی کے بھائی پر شک ظاہر کردیا
  • طرزِ زندگی میں معمولی تبدیلی خطرناک بیماری سے بچا سکتی ہے: ماہرین
  • چینی صدر کی سیلاب پر قابو پانے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے امور پر اہم ہدایات
  • سعودی عرب میں مقیم پاکستانی سیاح کا 20 سالہ مشن عالمی سطح پر تسلیم