فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اٹلی: غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے ایک طویل، پرخطر اور غیر معمولی سفر کے بعد بالآخر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں اٹلی کا رخ کیا، یہ سفر ایک سال سے زائد عرصہ، ہزاروں ڈالر کے اخراجات، کئی ناکامیوں اور بالآخر ایک جیٹ اسکی کے ذریعے ممکن ہوا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ابو دخہ نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز میں دستاویزی شکل میں ریکارڈ کی جو انہوں نے عالمی میڈیا سے شیئر کیں، جس میں بتایا کہ وہ غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ اسرائیل، حماس جنگ کی تباہ کاریوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جس میں مقامی حکام کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اپریل 2024 میں 5 ہزار ڈالر ادا کر کے رفح سرحد کے راستے مصر کا سفر کیا بعدازاں وہ پناہ کے لیے چین گئے لیکن ناکامی پر ملیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر لوٹ آئے، پھر لیبیا پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ساتھ دس ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے تقریباً 5 ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی، اضافی 1500 ڈالر جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس پر خرچ کیے۔
دو دیگر فلسطینی ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے 12 گھنٹے کا سمندری سفر کیا، دورانِ سفر انہیں تیونس کی گشتی کشتی کا تعاقب بھی برداشت کرنا پڑا، ایندھن ختم ہونے پر 20 کلومیٹر دوری پر انہوں نے مدد طلب کی، جس کے بعد یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ایک مشن کے تحت رومانیہ کی گشتی کشتی نے انہیں بچایا اور وہ 18 اگست کو لampedusa پہنچے۔
یورپی ادارے کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ تھا، ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں کو اٹلی کے جزیرے سے سسلی منتقل کیا گیا مگر بعد میں وہ حکام کی نگرانی سے نکل کر جینوا سے برسلز روانہ ہو گئے اور پھر جرمنی جا پہنچے، جہاں وہ اس وقت پناہ کے درخواست گزار کے طور پر مقیم ہیں۔
ابو دخہ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان خان یونس کے ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے، جہاں ان کا گھر جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان کے والد نے کہا کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ شاپ تھا اور زندگی کافی بہتر تھا مگر سب کچھ تباہ ہوگیا۔
خیال رہےکہ ابو دخہ اس وقت جرمنی کے شہر برامشے میں ایک پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن میں سے ایک کو نیورولوجیکل مرض لاحق ہے، جرمنی بلا سکیں، انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، بغیر اپنے خاندان کے زندگی کی کوئی معنویت نہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکی حمایت کو مقامی عوام نے امداد کے نام پر دہشت گردی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے
پڑھیں:
پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-5
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں توانائی کا بحران ہمیشہ ایک بنیادی چیلنج رہا ہے۔ صنعتی ترقی، زرعی پیداوار، نقل و حمل، حتیٰ کہ روزمرہ زندگی کے معمولات تک، توانائی کی دستیابی پر منحصر ہیں۔ اس پس منظر میں یہ خبر کہ پاکستان کو دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف ملکی معیشت کے لیے امید کی کرن ہے بلکہ یہ پاکستان کے توانائی خود کفالت کے خواب کی نئی تعبیر بھی ہے۔ پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کا آغاز 1950ء کی دہائی میں ہوا، جب سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ابتدائی ذخائر دریافت ہوئے۔ بعد ازاں سوئی گیس فیلڈ نے ملک کی صنعتی اور گھریلو ضروریات کو طویل عرصے تک سہارا دیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب میں اضافہ اور نئے ذخائر کی تلاش میں کمی نے بحران کی شدت کو بڑھایا۔ درآمدی تیل پر انحصار نے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو متاثر کیا بلکہ مالیاتی خسارے کو بھی بڑھایا۔ گزشتہ بیس برسوں میں توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہائیڈرو، سولر اور وِنڈ انرجی پر توجہ ضرور دی گئی، لیکن تیل و گیس کی مقامی دریافت میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ 2025ء میں موصول ہونے والی حالیہ بولیوں کو ایک تاریخی پیش رفت کہا جا رہا ہے۔
وزارتِ توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے مطابق، پاکستان نے اٹھارہ سال کے طویل وقفے کے بعد رواں برس جنوری میں آف شور تیل و گیس کی تلاش کے لیے لائسنسز جاری کرنے کا عمل شروع کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستانی سمندری حدود میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے۔ اب اس عمل کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، جس میں 23 آف شور بلاکس کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ یہ بلاکس تقریباً 53,510 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر مشتمل ہیں جو توانائی کے نئے دور کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے اعلامیے کے مطابق، لائسنس کے پہلے فیز میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، جو بعد ازاں ڈرلنگ کے مراحل میں بڑھ کر ایک ارب امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس سرمایہ کاری سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ مقامی صنعتوں کے لیے بھی روزگار اور تکنیکی تربیت کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک توانائی کے بڑھتے ہوئے درامدی بل، ڈالر کے دباؤ، اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس تناظر میں اگر سمندری حدود میں موجود ذخائر کی دریافت کامیاب رہتی ہے تو پاکستان کے لیے توانائی کی خود کفالت کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس بڈنگ رائونڈ میں حصہ لینے والی کمپنیوں میں پاکستان کی معروف توانائی کمپنیاں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، اور پرائم انرجی نمایاں ہیں۔ ان کے ساتھ بین الاقوامی اور نجی شعبے کی کئی بڑی کمپنیاں بطور شراکت دار شامل ہیں، جن میں تکنیکی مہارت، جدید آلات، اور عالمی تجربہ موجود ہے۔ یہ شراکت داری دراصل ایک ایسے معاشی ماڈل کی علامت ہے جس میں مقامی و غیر ملکی سرمایہ کار باہمی تعاون سے وسائل کی تلاش، پیداوار اور تقسیم کے عمل کو مستحکم کر سکتے ہیں۔
حکومت وقت کے وژن کے مطابق، پاکستان کی انرجی سیکورٹی پالیسی کا بنیادی مقصد بیرونی انحصار میں کمی اور مقامی وسائل کے بھرپور استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ اس وژن کے تحت حکومت نے انڈس اور مکران بیسن میں بیک وقت ایکسپلوریشن کی حکمت ِ عملی اپنائی، جو عملی طور پر کامیاب ثابت ہوئی۔ یہ اقدام نہ صرف معاشی لحاظ سے اہم ہے بلکہ جغرافیائی اعتبار سے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ مکران کوسٹ اور انڈس بیسن دونوں خطے عالمی توانائی نقشے پر نمایاں جغرافیائی امکانات رکھتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے برازیل، میکسیکو، ناروے، اور سعودی عرب نے اپنی توانائی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سمندری ذخائر سے استفادہ کیا۔ اب پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہونے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اگر ان دریافتوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں تو پاکستان نہ صرف توانائی کے بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی برآمد کرنے والا ملک بننے کی جانب بھی پیش رفت کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ پیش رفت غیر معمولی ہے، تاہم اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی وابستہ ہیں۔ سمندری ڈرلنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور مہارت درکار ہوتی ہے۔ ماحولیاتی خطرات، جیسے آئل اسپِل یا سمندری آلودگی، ایک سنجیدہ معاملہ ہیں۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے شفاف پالیسی فریم ورک ضروری ہے۔ ان چیلنجز کے باوجود، اگر حکومت نے پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا، صوبائی حکومتوں کو شراکت دار کے طور پر شامل رکھا، اور شفافیت کو یقینی بنایا تو پاکستان کی توانائی تاریخ میں یہ باب ایک انقلاب کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
دو دہائیوں بعد پاکستان کے لیے یہ ایک بڑی خوشخبری ہے کہ بحرِ عرب کی لہروں میں چھپے توانائی کے خزانوں کی تلاش کا عمل عملی طور پر شروع ہو چکا ہے۔ کامیاب بولیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی سرمایہ کار پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اگر یہ منصوبے اپنے متوقع نتائج دیتے ہیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان کی معیشت میں استحکام، زرمبادلہ کی بچت، صنعتی ترقی، اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’یہ صرف سمندر میں تیل و گیس کی تلاش نہیں، بلکہ پاکستان کی اقتصادی خودمختاری کی نئی صبح کی نوید ہے‘‘۔