کشمیر اسمبلی کے ممبر نے جموں و کشمیر کی تاریخی رواداری کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب پورا ملک فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا تھا، تب بھی کشمیر امن کا گہوارہ تھا۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر اسمبلی کے جاری اجلاس میں سی پی آئی (ایم) کے مرکزی کمیٹی کے رکن اور کولگام کے ایم ایل اے محمد یوسف تاریگامی نے جموں و کشمیر کے باشندوں کے لئے وہی روزگار اور زمین کے حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کیا، جو مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں ضمانت دئیے گئے تھے۔ محمد یوسف تاریگامی نے ریاست کے اصل آئینی درجہ کی بحالی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے بنیادی مفادات کا تحفظ ضروری ہے۔ یہ بحث لیفٹیننٹ گورنر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کے دوران ہوئی، جس میں یوسف تاریگامی نے بی جے پی کے اپوزیشن لیڈر سنیل شرما کے 13 جولائی 1931ء کے شہداء کے حوالے سے دئیے گئے بیان کا سخت جواب دیا۔ محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ دفعہ 370 ابھی بھی زندہ ہیں کیونکہ دفعہ 370 ہندوستانی آئین نے دیا تھا۔ وہیں انہوں نے بی جے پی کے سینیئر لیڈروں کے تبصروں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ سینیئر ساتھی اس طرح کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں، تاریخ کو جاننا بہت ضروری ہے۔

سی پی آئی (ایم) کے لیڈر نے بی جے پی پر ڈوگرہ حکمرانوں کے ورثے اور زوراور سنگھ جیسے تاریخی شخصیات کی جدوجہد کو کمزور کرنے کا بھی الزام لگایا۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر کیوں لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کیا گیا، یہ وہ سوال ہے جو میں بی جے پی سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ اس پر بی جے پی کے ارکان نے دلیل دی کہ علیحدگی کا سبب کشمیر انتظامیہ سے لداخ کے عوام کی ناراضگی تھی، تاہم یوسف تاریگامی نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ (جموں کے عوام) کشمیر کے ساتھ خوش تھے، تو پھر آج بھی ساتھ ہیں۔ محمد یوسف تاریگامی نے جموں و کشمیر کو ریاست سے کم درجے کے یونین ٹیریٹری میں تبدیل کرنے کے اقدام کو بے مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک بھی مثال دکھائیں جہاں کسی ریاست کو کم کر کے یونین ٹیریٹری بنایا گیا ہو، ایک نامزد گورنر جموں و کشمیر کے شہریوں کی نمائندگی کیسے کرسکتا ہے۔

انہوں نے جموں و کشمیر کی تاریخی رواداری کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب پورا ملک فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا تھا، تب بھی کشمیر امن کا گہوارہ تھا۔ محمد یوسف تاریگامی نے نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبداللہ اور جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے نافذ کئے گئے زرعی اصلاحات کی تعریف کی، جس کے ذریعے جموں اور کشمیر کے کسانوں کو فائدہ پہنچا اور ان کے جنم دن پر سرکاری تعطیل کا اعلان کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا "آج بی جے پی شیخ عبداللہ کے یوم پیدائش کو سرکاری تعطیلات کی فہرست سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن یہ وہی شخص تھا جس نے جموں اور کشمیر کے غریب سے غریب افراد کو بھی باوقار زندگی دی"۔ عمر عبداللہ سے مخاطب ہوتے ہوئے یوسف تاریگامی نے کہا کہ عوام جانتے ہیں کہ آپ (وزیراعلٰی) اپنے دفتر کے ایک سپاہی کا تبادلہ بھی نہیں کر سکتے، لیکن جموں و کشمیر کے لوگ خیرات نہیں مانگ رہے، بلکہ اپنے حقوق اور وقار کی بحالی چاہتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: محمد یوسف تاریگامی نے کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کے کشمیر کی انہوں نے بی جے پی

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی، بھارتی ریاست کی بوکھلاہٹ آشکار

مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں عوامی نمائندوں کو نظر بند کر کے نام نہاد جمہوریت کو بے نقاب کر دیا۔

کشمیری شہداء کی توہین ہندوتوا نظریے کے تحت مسلم شناخت کو دبانے کی گھناؤنی سازش ہے۔

بھارتی اخبار دی وائر کے مطابق جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے 13 جولائی کو منتخب سرکاری عہدیداران بشمول وزیر اعلیٰ کو گھروں میں نظر بند کر دیا۔

دی وائر نیوز کے مطابق حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور یوم شہداء کی سرکاری تعطیل ختم کر دی گئی تھی، 1931 کا واقعہ کشمیری عوام کی خود مختار سیاسی اور آئینی تشخص کی نمائندگی کرتا ہے۔ بی جے پی کے اپوزیشن لیڈر نے 1931 میں ڈوگرہ حکمران کے ہاتھوں مارے گئے 22 افراد کو غدار قرار دیا۔

بھارتی اخبار کے مطابق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، بی جے پی جلد از جلد جموں و کشمیر کو باقی ملک کے قوانین کے تحت ضم کرنے کی کوشش میں ہے، لیفٹیننٹ گورنر کے آئینی طور پر مشکوک اقدامات جموں و کشمیر کے ساتھ دیگر ریاستوں کے لیے بھی باعث تشویش ہونے چاہئیں۔

دی وائر کے مطابق بی جے پی کے اقدامات کا پہلا مسئلہ قوم پرست تاریخ اور شناخت کی یک جہتی کی سوچ سے جڑا ہے، بی جے پی مرکزی حکومت وفاقی اکائیوں پر اپنا تاریخی بیانیہ تھوپ رہی ہے۔

بی جے پی کا 1931 کے شہداء کو ’’غدار‘‘ کہنا کشمیری جدوجہد کو دبانے کوشش ہے، کشمیریوں کے یادگار دنوں پر پابندی لگانا مودی سرکار کی ذہنی شکست کی علامت ہے۔

مقبوضہ کشمیر پر زبردستی حکمرانی مودی سرکار کی غیر جمہوری سوچ اور آمریت کی عکاس ہے۔ مودی سرکار کے ان جارحانہ اقدامات سے مقبوضہ جموں و کشمیر پر گرفت مضبوط نہیں بلکہ غیر مستحکم ہو رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سرگودھا ،سالانہ میٹرک امتحانات ناکام امیدوار طلبا و طالبات کیلئے سپلیمینٹری امتحانات 10ستمبر کو شروع ہونگے
  • کانگریس اور انڈیا الائنس دفعہ 370 کی بحالی پر بات کریں، وحید الرحمن پرہ
  • وفاقی وزیر امیر مقام کی زیر صدارت اہم اجلاس،جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹی کا بجٹ زیر غور
  • کنگ سلمان ریلیف نے آزاد جموں و کشمیر میں 4,000 متاثرہ خاندانوں میں شیلٹر این ایف آئی کٹس کی تقسیم مکمل کر لی
  • مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی، بھارتی ریاست کی بوکھلاہٹ آشکار
  • پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کو بے نقاب کرنے کیلئے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں
  • نئی دلی، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ
  • الحاق پاکستان کے نظریے کے فروغ میں جموں و کشمیر لبریشن سیل کا کلیدی کردار
  • جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، عثمان جدون
  • نیپال کے ساتھ تعلقات مشترکہ تاریخ، ثقافتی رشتوں پر مبنی: یوسف رضا گیلانی