مزاحمت صرف ہتھیاروں کے ذریعے نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک ہمہ جہت جدوجہد ہے، خالد القدومی
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
تہران میں خطاب کے دوران قدومی نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں صہیونی ریاست کے خلاف مقدمات کی پیروی میں غیر سرکاری تنظیموں کے کردار کی اہمیت پر زور دیا اور مرحوم "جیل ڈیورز" کے فلسطینی کاز کے لیے گرانقدر خدمات کو سراہا۔ اسلام ٹائمز۔ ایران میں حماس کے نمائندے خالد القدومی نے تہران میں فرانسیسی وکیل اور قانون دان جیل ڈیورز کی یاد میں منعقدہ تقریب میں شرکت کی، جو کہ جامعہ انقلاب اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی۔ تقریب میں اساتذہ، وکلا، قانون کے طلبہ، اور فلسطینی کاز کے حامی شریک ہوئے۔ اس موقع پر بیلجیم کے صحافی، مصنف اور عالمی سیاست کے ماہر میشل کولن، جو امریکی پالیسیوں کے خلاف اپنے مؤقف کے لیے مشہور ہیں، خصوصی مہمان کے طور پر شریک تھے۔ خالد قدومی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صہیونی قبضے کے خلاف عالمی سطح پر قانونی اور حقوقی جدوجہد کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم اور مؤثر میدان ہے، جسمیں فلسطین کے تمام حامیوں کو شامل ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمت صرف ہتھیاروں کے ذریعے نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک ہمہ جہت جدوجہد ہے، جس میں حق، کہانی، تصویر، اور قانون شامل ہیں۔ قدومی نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں صہیونی ریاست کے خلاف مقدمات کی پیروی میں غیر سرکاری تنظیموں کے کردار کی اہمیت پر زور دیا اور مرحوم جیل ڈیورز کے فلسطینی کاز کے لیے گرانقدر خدمات کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیورز نے فلسطینی حق کے دفاع، دشمن کے جرائم کو بےنقاب کرنے، مسئلہ فلسطین کی مرکزیت کو اجاگر کرنے، اور سب سے اہم بات، دشمن کے رہنماؤں کو بین الاقوامی عدالتوں میں لانے کے لیے حقیقی جدوجہد کی قیادت کی۔ تقریب کے اختتام پر جامعہ نے مرحوم ڈیورز کی یاد میں ایک یادگار کی نقاب کشائی کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جیل ڈیورز نے گزشتہ نومبر میں دی ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں ایک بڑی قانونی ٹیم کی قیادت کی، جس میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دنیابھر کے 500 سے زائد وکلا شامل تھے۔ ڈیورز قانون دان اور بین الاقوامی عدالت کے رکن تھے، جنہوں نے مئی میں صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیردفاع یوآو گالانٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین الاقوامی عدالت کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
امریكی انخلاء كیبعد ہی ملک كو ہتھیاروں سے پاک کیا جا سکتا ہے، عراقی وزیراعظم
اپنے ایک انٹرویو میں محمد شیاع السوڈانی کا کہنا تھا کہ ملکی سیکورٹی و استحکام کو برقرار رکھنے کے حوالے سے عراق کا موقف واضح ہے اور اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ جنگ اور امن کا فیصلہ سرکاری اداروں ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اب کوئی بھی عنصر، عراق کو جنگ یا تصادم میں نہیں دھکیل سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ عراقی وزیر اعظم "محمد شیاع السوڈانی" نے بغداد میں روئٹرز کو انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے کہا كہ الحمد للہ ملک میں اب داعش موجود نہیں، امن و استحکام بھی قائم ہے، پھر 86 ممالک کے عسكری اتحاد کی موجودگی كی کیا ضرورت ہے؟۔ انہوں نے مزید کہا كہ اس کے بعد، یقیناً غیر سرکاری اداروں کو غیر مسلح کرنے کے لئے ایک واضح پروگرام پیش کیا جائے گا۔ سب یہی چاہتے ہیں۔ محمد شیاع السوڈانی نے وضاحت کی کہ غیر سرکاری ملیشیاء اپنے ہتھیار جمع کروا کر حكومتی سیکیورٹی فورسز میں شامل یا سیاست میں داخل ہو سکتے ہیں۔ واشنگٹن اور بغداد، عراق سے امریكی فوجیوں کے بتدریج انخلاء پر متفق ہو چکے ہیں۔ 2026ء کے آخر تک امریکی، عراق سے نکل جانے کا ارادہ ركھتے ہیں۔ ابتدائی طور پر 2025ء میں عالمی عسكری اتحاد كے انخلاء كا آغاز ہوا۔ محمد شیاع السوڈانی نے عراق میں مسلح ملیشیاء کی سرگرمیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا كہ ملکی سیکورٹی و استحکام کو برقرار رکھنے کے حوالے سے عراق کا موقف واضح ہے اور اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ جنگ اور امن کا فیصلہ سرکاری اداروں ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اب کوئی بھی عنصر، عراق کو جنگ یا تصادم میں نہیں دھکیل سکتا۔