Express News:
2025-09-18@19:06:07 GMT

خطوط اکبر بنام اقبال!

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

اکبر الہٰ آبادی اور علامہ اقبال کے مابین بھرپور خط و کتابت رہی۔ طالب علم کی حیثیت سے کم از کم ناچیز کو اس بارے میں بالکل کوئی علم نہ تھا۔ مگر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ایک صدی کے بعد‘ ایک سو تینتیس(133) غیر مطبوعہ خطوط کا خزانہ کھول کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا۔ زاہد منیر صاحب کی تحقیق کی داد نہ دینا ‘ زیادتی ہو گی۔

اگلہ جملہ رقم کرنے سے پہلے سوچ رہا ہوں کہ کون سے الفاظ مناسب ہوںگے۔ اس عظیم کام کو کتاب کی صورت میں ڈھالنے والے کا نام علامہ عبدالستار عاصم ہے جو قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں ہیں۔ عاصم صاحب ‘ جس تندہی سے علمی کام چھاپ رہے ہیں۔ وہ اپنی جگہ بذات خود ایک خوبصورت کارنامہ ہے۔خطوط کے بارے میں عرض کرتا چلوں۔ یہ 1910اور 1921کے درمیان لکھے گئے ۔ ان تمام مکتوبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکبر الہ آبادی اور شاعر مشرق کو پردہ سے باہر نہ نکالتے‘ تو عام لوگوں کو معلوم ہی نہ پڑتا‘ کہ برصغیر کی دو عظیم ہستیاں ایک دوسرے سے کس درجہ احترام کے رشتہ میں منسلک تھیں۔علامہ اور اکبر کی تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان کا احوال بھی درج کروں گا۔

اب ذرا دل تھام کر پڑھیے کہ مصنف دونوںاکابرین کے تعلقات کو کس طرح موتیوں میں پروتا ہے: ۔ پہلی بار ان کی ملاقات جنوری 1913میں ہوئی جب اقبال ‘ اکبر سے ملنے کے لیے الہ آباد گئے۔ یہ ملاقات چند گھنٹوں کی تھی جسے اکبر نے ’’کرم اور نیک ولی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ڈاکٹر اقبال صاحب بلحاظ جملہ حالات کے اس وقت اس حلقے میں آیات الٰہی میں سے ہیں‘‘۔

اسی سال اقبال‘ اکبر سے ملنے کے لیے ایک بار پھر الہ آباد گئے۔ یہ دوسری ملاقات 7ستمبر 1913 کو ہوئی۔ اقبال نے ایک خط میں اس ملاقات کا حال بتاتے ہوئے ’’دو روز مولانا اکبر کی خدمت میں‘‘ رہنے کا ذکر کیا ہے۔ اس ملاقات میں رات کے کھانے کے بعد اقبال سے شکوہ اور جواب شکوہ کے اشعار بھی سنے گئے۔ اکبر نے اس ملاقات کا ذکر عبدالماجد دریا بادی کے نام خط میں بھی کیا ہے۔ ’’ڈاکٹر اقبال صاحب جو مجھ سے ملنے کے لیے تشریف لائے تھے‘ دہلی گئے‘‘۔

تیسری اور آخری ملاقات 29 فروری 1920کو ہوئی۔ اقبال کسی مقدمے کے سلسلے میں ضلع ’’گیا‘‘ گئے تھے‘ وہاں سے واپسی پر اکبر سے ملنے کے لیے الہ آباد رکے اور تین روز تک اکبر کا فیض صحبت اٹھایا۔ اکبر نے اس ملاقا ت کے دوران اقبال سے ’’بہت پولیٹیکل نشاط طبع پایا‘‘ اور اقبال نے کہا کہ ’’آپ کے ساتھ رہتا تو ایک مجموعہ مرتب کرتا‘‘۔اس ملاقات کے بعد اقبال نے لاہورآ کر 17 مارچ 1920 کو جو خط اکبر کو لکھا وہ اقبال نامہ میں موجود نہیں۔ اس میں اقبال نے اکبر کو لکھا:

’’میں اپنے آپ کو خوش نصیب جانتا ہوں کہ آپ سے ملاقات ہو گئی اور دوروز لطف صحبت رہا۔ آپ کی باتیں نظم ہوں یا نثر نوٹ کرنے کے قابل ہیں مگر افسوس ہے کہ کوئی ایسا آدمی آپ کے پاس نہیں ہے جو ان رموز و حقائق کو جو آپ کی زبان فیض ترجمان سے وقتاً فوقتاً نکلتے رہتے ہیں آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرتا جائے۔

اگر میں الہ آباد میں ہوتا تو وہی کام کرتا جو باسول نے جانسن کے لیے کیا تھا۔ آپ کے پاس سے جدا ہونے کو دل تو نہ چاہتا تھا مگر لاہور واپس ہونا ضروری تھا۔ اب دیکھیے کب ملاقات ہوتی ہے؟ کیوں نہ آپ لاہور تشریف لائیں؟ پورا شہر آپ کی دید کا متمنی ہے۔ لاہور تک سفر کرنے اور الہ آباد بہ آرام واپس بھیجنے کی ذمے داری میری ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کی صحت درست نہیں رہتی اور میرا آپ کو اتنی دور مدعو کرنا بے معنی ہے۔ مگر کیا کروں دل جو نہیں مانتا۔ خیر انشاء اللہ پھر جلد ملاقات ہو گی۔ امید ہے آپ کا مزاج عالی اچھا ہو گا‘‘۔

اقبال کی دلی خواہش کے مطابق اکبر لاہور نہ آ سکے اور وقت کے دو نابغوں کی یہ ملاقات آخری ثابت ہوئی۔

یہ بھی اندازہ فرمائیے کہ ادب کی یہ دونوں قدآور شخصیات کی سنجیدگی سے ایک دوسرے کو کیسے متاثر کرتی تھیں:۔ ’’چونکہ جانبین کے تعلق کی بنا اخلاص پر استوار ہے اس لیے باہمی احترام و محبت‘ صادق خیالات کے اظہار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ جہاں اختلاف ہوتا ہے دونوں جانب سے اس کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ اور یہ اظہار کسی طرح بھی باہمی تعلق کے آئینے میں بال نہیں آنے دیتا۔ اکبر کی شخصیت اور ان کے عمومی مجموعہ ٔ خطوط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمہ رابخوہی یاد کردن کے طریقہ پر عامل رہے۔

سینیئرز یا ہم عمر تو ایک طرف وہ اپنے خوردوں کی خوبیوں کے اعتراف میں بھی بہت فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ مغربی تہذیب کا یہ بہت بڑا نقاد اپنے دوستوں کے معاملے میں خردہ گیری نہیں کرتا‘ ان کی خوبیاں ہی اس کے پیش نظر رہتی ہیں لیکن اقبال کے بارے میں ایسے عالی خیالات رکھنے کے باوصف وہ اقبال پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انھیں خود بھی اپنے اس رویے کا احساس ہے اور اس کا سبب بتاتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں کہ ’’ آپ نے محبت و ارادت کا اظہار کر کے مجھ کو دلیر کر دیا ورنہ میرا ایسا کہنا بدتہذیبی ہے‘‘ اسی خط میں اپنا اور اقبال کا موازنہ کرتے ہوئے ان کے قلم سے یہ الفاظ بھی تراوش ہوتے ہیں۔

’’آپ چالیس برس کے ‘ میں پچھہتر برس کا‘ آپ جوش سے بھرے ہوئے ہیں دل شکستہ بجھا ہوا‘ آپ محفل سنوارنے کی فکر میں‘ میں لحد میں بستر لگانے کی فکر میں‘ میں بیگانوں سے گھبرایا ہوا‘ آپ کو یگانوں کی تادیب کا شوق‘‘۔

اب ذرا اکبر الہ آبادی کا علامہ کو ایک خط ملاحظہ فرمائیے۔

10فروری 1810۔ مکرمی ! بہت دن ہوئے۔ آپ کا ایک شعر فارسی سنا تھا۔ مضمون یہ تھا کہ پیمانہ گل معکوس ہو۔ یا کچھ ایسا ہی تھا۔ استغنا مقصود تھا۔ غیرت کا سبق تھا۔ شاید شبنم کا لفظ بھی تھا۔ اگر ذہن میں ہو۔ یاد آ سکے تو مطلع فرمایئے۔ مجھ کو بہت پسند آیا تھا۔(اکبر)

ذرا آگے چلیے !

لاہور۔28اکتوبر

مخدومی! السلام علیکم

نوازش نامہ دو تین روز ہوئے موصول ہوا۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ لاہور میں وبائے انفلوئنزا کی بہت شدت ہے۔ یہاں تک کہ گورکن میسر نہیں آتے۔ دوا سے بھی اس مرض کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ اول تومعلوم ہی نہیں کہ اس کا علاج کیا ہے۔ دوسرا دوا موجود نہیں اور ڈاکٹر خود اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے۔

پنجاب میں اس وقت اس کا حملہ نہایت شدید ہے۔ لاہور میں قریباً ڈھائی سو اموات روزانہ ہیں اور ابھی کمی کے کوئی آثار نہیں ۔ امرت سر میں بھی یہی کیفیت ہے۔ امید کہ الہ آباد میں خیریت ہو گی۔ مسلمانوں پر خصوصیت سے زیادہ نظر عنایت ہے۔ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم فرمائے۔زمانہ میں ریویو دیکھا تھا۔ خیر اچھا ریویو تھا مگر آپ کی شاعری پر ریویو لکھنے کا حق آج تک کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکا۔ زمانہ نے جو اشعار انتخاب کیے وہ دو چار روز ہوئے بارروم میں مزے لے لے کر پڑھے گئے ۔ وقت کی مصلحت نہیں ورنہ آپ کے اشعار پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا اور زندگی رہی تو انشاء اللہ کچھ ضرور لکھوں گا۔مطلع آپ کا لا جواب ہے۔

کم ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مقصود وہی ہے

سبحان اللہ والیہ المصیر

معارف میں کسی ہندو شاعر کا شعر نظر سے گزرا:

بسکہ از شرم تو در پر داز رنگ گلشن است

رشتہ نظارہ بندد‘ در ہواگلدستہ را

اور کچھ عرصہ ہوا اخبار الخلیل میں کسی نے ایک نہایت عمدہ شعر لکھا تھا۔

شب چو انداز ہم آغوشی او یاد کنم

خویش راتنگ بہ برگیر و فریاد کنم

للہ در من قال

زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔(مخلص‘ محمد اقبال)

اس دیدہ زیب کتاب کو پوری رات پڑھتا رہا اور سردھنتا رہا۔ واقعی‘ بڑے لوگ‘ بڑے ہی ہوتے ہیں!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے ملنے کے لیے اس ملاقات اقبال نے الہ آباد

پڑھیں:

اسلامی تہذیب کے انجن کی پاور لائیز خراب ہوگئی ہیں،احسن اقبال

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-08-6
اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے کہاہے کہ اسلامی تہذیب کے انجن کی پاور لائیز خراب ہوگئی ہیں، مسلمان ایک زمانے میں علم و تحقیق پر دنیا پر غالب تھے، آج ہم بہت پیچھے ہیں ۔اسرائیل نے پوری اسلامی دنیا کی کانفرنس کے اگلے دن ہی غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام کیا،ہم تعداد میں زیادہ مگر کمزور ہیں۔ان خیالات کااظہار وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے بین الاقوامی سیرت النبیﷺ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ احسن اقبال نے کہاکہ نبیﷺ کا ذکر احسن عمل ہے جس کی کوئی مثال نہیں اللہ اور مخلوق میں ایک مشترکہ عمل نبیؐ پردرود شریف بھیجنا ہے ،نبی پاک کا امتی ؐہونے پر اللہ کا انعام اور شکر ہے، اس امت کو مشن کے ساتھ پیدا کیااب نبوت کا سلسلہ ختم ہے ہمارے نبی خاتم النبیین ہیں جو کام نبی کرتے تھے وہ تبلیغ اب اس امت کو کرنی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلمان دو ارب سے زائد ہیں ایک کروڑ آبادی کے ملک نے دو ارب مسلمانوں کو آگے لگا رکھا ہے، وہ ملک جب چاہتا ہے مسلمانوں کے خون بہاتا ہے، وہ ملک غزہ کے مسلمانوں کی نشل کشی کر رہا ہے پوری اسلامی دنیا کی کانفرنس کے اگلے دن ہی غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام کیا،ہم تعداد میں زیادہ مگر کمزور ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان، سعودی عرب اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ خوش آئند ہے، احسن اقبال
  • اسلامی تہذیب کے انجن کی پاور لائیز خراب ہوگئی ہیں،احسن اقبال
  • پی اے سی ذیلی کمیٹی اجلاس: قومی ورثہ و ثقافت سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ
  • گوجرانوالہ: نوائے وقت کے نیوز ایجنٹ اقبال پرویز وفات پا گئے‘ ختم قل کل ہو گا
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • سیلاب سے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 10 دن میں مکمل کیا جائے گا، احسن اقبال
  • سیلاب سے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 10 روز میں مکمل ہوگا، احسن اقبال
  • لاہور: سوتیلی بیٹی سے جنسی زیادتی کرنے والا ملزم گرفتار
  • بلدیاتی ملازمین کیلئے گلشن اقبال مثالی ٹاؤن بن گیا‘ڈاکٹر فواد
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟علی امین گنڈاپور