Express News:
2025-11-05@01:52:23 GMT

خطوط اکبر بنام اقبال!

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

اکبر الہٰ آبادی اور علامہ اقبال کے مابین بھرپور خط و کتابت رہی۔ طالب علم کی حیثیت سے کم از کم ناچیز کو اس بارے میں بالکل کوئی علم نہ تھا۔ مگر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ایک صدی کے بعد‘ ایک سو تینتیس(133) غیر مطبوعہ خطوط کا خزانہ کھول کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا۔ زاہد منیر صاحب کی تحقیق کی داد نہ دینا ‘ زیادتی ہو گی۔

اگلہ جملہ رقم کرنے سے پہلے سوچ رہا ہوں کہ کون سے الفاظ مناسب ہوںگے۔ اس عظیم کام کو کتاب کی صورت میں ڈھالنے والے کا نام علامہ عبدالستار عاصم ہے جو قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں ہیں۔ عاصم صاحب ‘ جس تندہی سے علمی کام چھاپ رہے ہیں۔ وہ اپنی جگہ بذات خود ایک خوبصورت کارنامہ ہے۔خطوط کے بارے میں عرض کرتا چلوں۔ یہ 1910اور 1921کے درمیان لکھے گئے ۔ ان تمام مکتوبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکبر الہ آبادی اور شاعر مشرق کو پردہ سے باہر نہ نکالتے‘ تو عام لوگوں کو معلوم ہی نہ پڑتا‘ کہ برصغیر کی دو عظیم ہستیاں ایک دوسرے سے کس درجہ احترام کے رشتہ میں منسلک تھیں۔علامہ اور اکبر کی تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان کا احوال بھی درج کروں گا۔

اب ذرا دل تھام کر پڑھیے کہ مصنف دونوںاکابرین کے تعلقات کو کس طرح موتیوں میں پروتا ہے: ۔ پہلی بار ان کی ملاقات جنوری 1913میں ہوئی جب اقبال ‘ اکبر سے ملنے کے لیے الہ آباد گئے۔ یہ ملاقات چند گھنٹوں کی تھی جسے اکبر نے ’’کرم اور نیک ولی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ڈاکٹر اقبال صاحب بلحاظ جملہ حالات کے اس وقت اس حلقے میں آیات الٰہی میں سے ہیں‘‘۔

اسی سال اقبال‘ اکبر سے ملنے کے لیے ایک بار پھر الہ آباد گئے۔ یہ دوسری ملاقات 7ستمبر 1913 کو ہوئی۔ اقبال نے ایک خط میں اس ملاقات کا حال بتاتے ہوئے ’’دو روز مولانا اکبر کی خدمت میں‘‘ رہنے کا ذکر کیا ہے۔ اس ملاقات میں رات کے کھانے کے بعد اقبال سے شکوہ اور جواب شکوہ کے اشعار بھی سنے گئے۔ اکبر نے اس ملاقات کا ذکر عبدالماجد دریا بادی کے نام خط میں بھی کیا ہے۔ ’’ڈاکٹر اقبال صاحب جو مجھ سے ملنے کے لیے تشریف لائے تھے‘ دہلی گئے‘‘۔

تیسری اور آخری ملاقات 29 فروری 1920کو ہوئی۔ اقبال کسی مقدمے کے سلسلے میں ضلع ’’گیا‘‘ گئے تھے‘ وہاں سے واپسی پر اکبر سے ملنے کے لیے الہ آباد رکے اور تین روز تک اکبر کا فیض صحبت اٹھایا۔ اکبر نے اس ملاقا ت کے دوران اقبال سے ’’بہت پولیٹیکل نشاط طبع پایا‘‘ اور اقبال نے کہا کہ ’’آپ کے ساتھ رہتا تو ایک مجموعہ مرتب کرتا‘‘۔اس ملاقات کے بعد اقبال نے لاہورآ کر 17 مارچ 1920 کو جو خط اکبر کو لکھا وہ اقبال نامہ میں موجود نہیں۔ اس میں اقبال نے اکبر کو لکھا:

’’میں اپنے آپ کو خوش نصیب جانتا ہوں کہ آپ سے ملاقات ہو گئی اور دوروز لطف صحبت رہا۔ آپ کی باتیں نظم ہوں یا نثر نوٹ کرنے کے قابل ہیں مگر افسوس ہے کہ کوئی ایسا آدمی آپ کے پاس نہیں ہے جو ان رموز و حقائق کو جو آپ کی زبان فیض ترجمان سے وقتاً فوقتاً نکلتے رہتے ہیں آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرتا جائے۔

اگر میں الہ آباد میں ہوتا تو وہی کام کرتا جو باسول نے جانسن کے لیے کیا تھا۔ آپ کے پاس سے جدا ہونے کو دل تو نہ چاہتا تھا مگر لاہور واپس ہونا ضروری تھا۔ اب دیکھیے کب ملاقات ہوتی ہے؟ کیوں نہ آپ لاہور تشریف لائیں؟ پورا شہر آپ کی دید کا متمنی ہے۔ لاہور تک سفر کرنے اور الہ آباد بہ آرام واپس بھیجنے کی ذمے داری میری ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کی صحت درست نہیں رہتی اور میرا آپ کو اتنی دور مدعو کرنا بے معنی ہے۔ مگر کیا کروں دل جو نہیں مانتا۔ خیر انشاء اللہ پھر جلد ملاقات ہو گی۔ امید ہے آپ کا مزاج عالی اچھا ہو گا‘‘۔

اقبال کی دلی خواہش کے مطابق اکبر لاہور نہ آ سکے اور وقت کے دو نابغوں کی یہ ملاقات آخری ثابت ہوئی۔

یہ بھی اندازہ فرمائیے کہ ادب کی یہ دونوں قدآور شخصیات کی سنجیدگی سے ایک دوسرے کو کیسے متاثر کرتی تھیں:۔ ’’چونکہ جانبین کے تعلق کی بنا اخلاص پر استوار ہے اس لیے باہمی احترام و محبت‘ صادق خیالات کے اظہار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ جہاں اختلاف ہوتا ہے دونوں جانب سے اس کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ اور یہ اظہار کسی طرح بھی باہمی تعلق کے آئینے میں بال نہیں آنے دیتا۔ اکبر کی شخصیت اور ان کے عمومی مجموعہ ٔ خطوط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمہ رابخوہی یاد کردن کے طریقہ پر عامل رہے۔

سینیئرز یا ہم عمر تو ایک طرف وہ اپنے خوردوں کی خوبیوں کے اعتراف میں بھی بہت فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ مغربی تہذیب کا یہ بہت بڑا نقاد اپنے دوستوں کے معاملے میں خردہ گیری نہیں کرتا‘ ان کی خوبیاں ہی اس کے پیش نظر رہتی ہیں لیکن اقبال کے بارے میں ایسے عالی خیالات رکھنے کے باوصف وہ اقبال پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انھیں خود بھی اپنے اس رویے کا احساس ہے اور اس کا سبب بتاتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں کہ ’’ آپ نے محبت و ارادت کا اظہار کر کے مجھ کو دلیر کر دیا ورنہ میرا ایسا کہنا بدتہذیبی ہے‘‘ اسی خط میں اپنا اور اقبال کا موازنہ کرتے ہوئے ان کے قلم سے یہ الفاظ بھی تراوش ہوتے ہیں۔

’’آپ چالیس برس کے ‘ میں پچھہتر برس کا‘ آپ جوش سے بھرے ہوئے ہیں دل شکستہ بجھا ہوا‘ آپ محفل سنوارنے کی فکر میں‘ میں لحد میں بستر لگانے کی فکر میں‘ میں بیگانوں سے گھبرایا ہوا‘ آپ کو یگانوں کی تادیب کا شوق‘‘۔

اب ذرا اکبر الہ آبادی کا علامہ کو ایک خط ملاحظہ فرمائیے۔

10فروری 1810۔ مکرمی ! بہت دن ہوئے۔ آپ کا ایک شعر فارسی سنا تھا۔ مضمون یہ تھا کہ پیمانہ گل معکوس ہو۔ یا کچھ ایسا ہی تھا۔ استغنا مقصود تھا۔ غیرت کا سبق تھا۔ شاید شبنم کا لفظ بھی تھا۔ اگر ذہن میں ہو۔ یاد آ سکے تو مطلع فرمایئے۔ مجھ کو بہت پسند آیا تھا۔(اکبر)

ذرا آگے چلیے !

لاہور۔28اکتوبر

مخدومی! السلام علیکم

نوازش نامہ دو تین روز ہوئے موصول ہوا۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ لاہور میں وبائے انفلوئنزا کی بہت شدت ہے۔ یہاں تک کہ گورکن میسر نہیں آتے۔ دوا سے بھی اس مرض کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ اول تومعلوم ہی نہیں کہ اس کا علاج کیا ہے۔ دوسرا دوا موجود نہیں اور ڈاکٹر خود اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے۔

پنجاب میں اس وقت اس کا حملہ نہایت شدید ہے۔ لاہور میں قریباً ڈھائی سو اموات روزانہ ہیں اور ابھی کمی کے کوئی آثار نہیں ۔ امرت سر میں بھی یہی کیفیت ہے۔ امید کہ الہ آباد میں خیریت ہو گی۔ مسلمانوں پر خصوصیت سے زیادہ نظر عنایت ہے۔ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم فرمائے۔زمانہ میں ریویو دیکھا تھا۔ خیر اچھا ریویو تھا مگر آپ کی شاعری پر ریویو لکھنے کا حق آج تک کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکا۔ زمانہ نے جو اشعار انتخاب کیے وہ دو چار روز ہوئے بارروم میں مزے لے لے کر پڑھے گئے ۔ وقت کی مصلحت نہیں ورنہ آپ کے اشعار پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا اور زندگی رہی تو انشاء اللہ کچھ ضرور لکھوں گا۔مطلع آپ کا لا جواب ہے۔

کم ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مقصود وہی ہے

سبحان اللہ والیہ المصیر

معارف میں کسی ہندو شاعر کا شعر نظر سے گزرا:

بسکہ از شرم تو در پر داز رنگ گلشن است

رشتہ نظارہ بندد‘ در ہواگلدستہ را

اور کچھ عرصہ ہوا اخبار الخلیل میں کسی نے ایک نہایت عمدہ شعر لکھا تھا۔

شب چو انداز ہم آغوشی او یاد کنم

خویش راتنگ بہ برگیر و فریاد کنم

للہ در من قال

زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔(مخلص‘ محمد اقبال)

اس دیدہ زیب کتاب کو پوری رات پڑھتا رہا اور سردھنتا رہا۔ واقعی‘ بڑے لوگ‘ بڑے ہی ہوتے ہیں!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے ملنے کے لیے اس ملاقات اقبال نے الہ آباد

پڑھیں:

عمران خان سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، بیرسٹر گوہر

راولپنڈی:

پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بانی سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، اس معاملے پر سیاسی کمیٹی میں بات کریں گے اور اس پر اپنی اسٹریٹیجی بنائیں گے۔

داہگل ناکہ پر میڈیا سے گفت گو میں انہوں ںے کہا کہ بانی عمران خان سے آج بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، دو سال سے عدالت کے احکامات پر عمل نہیں ہو رہا، یہ ظلم اور زیادتی ہے، بانی کو آپ جتنا چاہے جیل میں رکھیں لیکن وہ لوگوں کے دلوں میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بانی سے ملاقات کے بعد 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، اس معاملے پر سیاسی کمیٹی میں بات کریں گے اور اس پر اپنی اسٹریٹیجی بنائیں گے، آئین میں اگر ترمیم ہونی ہے تو وہ پہلے اتفاق رائے سے ہوتی رہی ہے، عدلیہ ہمیشہ متنازع رہی ہے لیکن 26 ویں ترمیم نے ملک میں دراڑ پیدا کر رکھی ہے اب 27ویں ترمیم آرہی ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم ہو رہی تھی تو 101 آرٹیکلز میں ترامیم ہوئیں، 26 ویں ترمیم کو  لے کر ورژن میں 56 آرٹیکلز تھے جب پہلا ورژن ہمارے پاس آیا تو اس میں 50 آرٹیکلز تھے، فائنل ورژن پر پہنچے تو 25 آرٹیکلز میں ترامیم کرنا تھیں، ان 25 آرٹیکلز میں سے ایک آرٹیکل میں پی پی، 6 آرٹیکلز میں جے یو آئی، 17 آرٹیکلز میں حکومتی ترامیم تھیں باقی مصنوعی ترامیم تھیں لیکن 5 ترامیم پر تنازع تھا۔

انہوں ںے بتایا کہ ان پانچ متنازع ترامیم میں آرٹیکل 175 اے جس کے ذریعے جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا، آرٹیکل 191 جس کے ذریعے آئینی بنچ بنوایا گیا تھا، آرٹیکل 179 جس کے ذریعے چیف جسٹس کے لئے تین سال کا مدت کا تعین کروایا گیا تھا، آرٹیکل 209 جس کے ذریعے ججز پر نظر رکھنے کے لئے کمیشن کو اختیارات دیئے گئے تھے اور پانچویں ترمیم الیکشن کمیشن سے متعلق رکھی تھی، باقی سب ترامیم مصنوعی یا کاسمیٹکس تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 243 میں حکومت کا جو پہلا ورژن ہمارے پاس آیا تھا تو اس میں آرٹیکل 200 ججز کے ٹرانسفر سے متعلق حکومت نے ضرور لکھا تھا کہ جج کی مرضی کے بغیر اس کی ٹرانسفر کا اختیار ہونا چاہے لیکن اکتوبر میں جو پہلا ورژن آیا اس میں یہ شامل نہیں تھا، آرٹیکل 243 کو افواج سے متعلق تھا یہ حکومت کے پہلے ورژن میں موجود تھا جو کاپی ہمیں 12 اکتوبر کو دی گئی تھی، پھر اس کے بعد اسے ختم کر دیا گیا، ہمیں دیئے گئے ورژن میں تحریر تھا کہ آرمی سربراہان سے متعلق جو قوانین ان کی عمر سے متعلق ہے ان کو تحفظ حاصل ہوگا اس میں ترمیم نہیں کی جائے گی البتہ این ایف سی ایوارڈ سے متعلق کوئی بات کسی بھی وقت نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تعلیم اس ملک کے بچوں کا ایک اہم مسئلہ ہے جب یہ شعبہ صوبوں کے پاس گیا تو انھوں نے کئی اسکول آؤٹ سورس کردیئے، پاپولیشن ویلفیئر صوبوں کے پاس گیا اس وقت ریورس کرنا صوبوں کا نقصان ہوگا، اس وقت اس چیز کو ریورس کرنے سے صوبوں کا نقصان ہوگا اسے ریورس نہ کیا جائے، 18ویں ترمیم اتفاق رائے سے ہوئی تھی اسے ریورس کرنا ریاست، حکومت، عوام، جمہورہت کا نقصان ہوگا اسے ٹچ نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آج تک 26 ترامیم ہوئی ہیں، 9،11,15ویں ترامیم پاس نہیں ہوئی  باقی 23 ترامیم پاس ہوچکی ہیں، کسی ترمیم میں آرٹیکل 163 کو تبدیل نہیں کیا، اگر تبدیل کیا تو 18ویں ترمیم میں اس حد تک تبدیل کیا گیا کہ صوبوں کا حصہ پچھلے ایوارڈ کے مقابلہ میں کم نہیں کیا جائے گا، سال 2007ء میں آخری این ایف سی ایوارڈ آیا تھا، اس کے بعد ایوارڈ نہیں آسکے، سارے صوبے گیارہویں این ایف سی ایوارڈ کے منتظر ہیں،کے پی کو جو حصہ ملتا ہے وہ تقریبا 14.6فیصد ہے،یہ آئین میں درج ہے کہ وہ کم نہیں کیا جائے گا۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کا موقف ہے کسی ایسی شق کو نہیں چھیڑا جائے جو صوبوں کے اتفاق رائے کے بغیر ہو، مشترکہ مفادات کونسل نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ جب تک اتفاق رائے نہ ہو نہریں نہیں نکالیں گے اس لیے جو محکمے صوبوں کے پاس چلے گئے اتفاق رائے کے بغیر اس معاملے کو واپس کرنا خطرے کو مول لینے والی بات ہے، پہلے آئینی عدالت بنانا چاہ رہے تھے پھر آئینی بنچ بنایا گیا اس پر بھی کوئی راضی نہیں ہے وہ عدلیہ کی آزادی پر قدغن ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کریٹیکل اسٹیپ لیں جس سے ملک کا بھلا ہو اور ادارے مضبوط ہوں،  بجائے اس کے کہ آپ آئین کی ان شقوں کا درج کریں جس سے صوبوں کا تناؤ اور بڑھ جائے گا اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مشال یوسف زئی کا ٹویٹ پارٹی سے متعلق ہے پارٹی کے معاملات کو پارٹی تک رہنے دیں، ہر محب وطن پاکستانی یہ کہہ رہا ہے کہ اسٹیک ہولڈر اپنی تلواریں اپنی نیام میں رکھیں اور ایک ایک اسٹیپ پیچھے ہوجائیں، ایسی صورتحال میں اشتعال انگیز ویڈیو دکھانا، آگ پر تیل چھڑکنے والی بات ہے، بانی جب آرڈر کریں تو پھر اسلام آباد آنے کی بات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پر تنقید ہو رہی ہے تو ہم کوئی کنگ نہیں، میں گالم گلوچ کے مخالف ہوں، تنقید کے خلاف نہیں، اگر کوئی کسی کی عیادت کرتا ہے تو کوئی ایسی بات نہیں، میں شاہ محمود، اعجاز چوہدری کی عیادت کے لئے گیا تھا، بانی کی رہائی کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور کریں گے۔

میڈیا سے گفت گو میں سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میری ملاقات سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج خصوصی احکامات دئیے ہیں، میں نے ہائیکورٹ کا آرڈر ایس ایچ او کو واٹس ایپ کیا ہے، آرڈر کی کاپی میرا ایسوسی ایٹ لے کر آرہا ہے، جسٹس ارباب صاحب نے ایڈوکیٹ جنرل کو میری ملاقات کے بارے حکم دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب 27 ویں ترمیم کو رد کرتے ہیں اس اسمبلی کے استحقاق کو رد کرتے ہیں کوئی بھی آئینی ترمیم فارم 47 والی اسمبلی نہیں کرسکتی ہے، بلاول بھٹو کی ٹویٹ کے ذریعے جو باتیں سامنے آئی ہیں انتہائی خوفناک ہیں، پاکستان میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا جارہا ہے، آزاد عدلیہ کے تصور کو ختم کیا جارہا ہے، ہم تو اس ترمیم کی بہرحال مخالفت کریں گے اگر کوئی ہم سے کہے گا کہ اس کی مخالف میں حمایت کریں تو ہم کریں گےم ہم سمجھتے ہیں تمام جماعتوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان سے میری ملاقات بہت ضروری ہے، بںیادی حق ہے کہ ملزم کی اپنے وکیل سے بات کرائی جائے کوئی بھی ملزم اپنا ٹویٹر اکاؤنٹ آپریٹ نہیں کرسکتا، بہنوں کی اڈیالہ جیل کے باہر ٹاک کو اگر کوئی اٹھا کر ٹویٹ کر دیتا ہے تو اس سے ہمارا یا بانی کا کیا تعلق ہے؟ بانی اپنا ایکس اکاؤنٹ خود نہیں چلا رہے، بانی کونٹینٹ کو ڈس اون نہیں کرتے، جو لوگ ان سے جو بات کرکے آتے ہیں، بات کرنا ان کا حق ہے، کوئی قانون اس سے نہیں روکتا اگر کوئی بانی کو کوٹ کرتا ہے تو ٹھیک کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہم نے آرڈر لیا تھا کہ بانی جیل کے اندر بھی میڈیا سے بات کرسکتے ہیں، کیا ریاست مخالف بیانیہ ٹویٹ کیا جاتا ہے وہ عدالت فیصلہ کرے گی، ریاست مخالف کیا ہوتا ہے اس کی تعریف و تشریح ہونا بہت ضروری ہے، یہ کہنا کہ ہمارا الیکشن لوٹا گیا یہ ریاست مخالف بیانیہ ہے؟؟ کب تک آپ اس سچ کو یہ کہہ کر چھپائیں گے کہ یہ ریاست مخالف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پورٹ قاسم کو جدید خطوط پر استوار کیا جائیگا، وفاقی وزیر بحری امور
  • عمران خان سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، بیرسٹر گوہر
  • یومِ اقبال: 9 نومبر کوکوئی اضافی تعطیل نہیں ہوگی
  • جسارت میڈیا گروپ کی ڈیجیٹل شعبے کی تقریب سے سی ای او ڈاکٹر واسع شاکر خطاب کر رہے ہیں،جبکہ نمایاں کارکردگی پر کارکنان کو سر  ٹیفکیٹ دیے جارہے ہیں‘ چیف ایڈیٹر شاہنواز فاروقی اور سید طاہر اکبر ودیگربھی موجود ہیں
  • اسپیکر سندھ اسمبلی اویس قادر شاہ سے ایران کے قونصل جنرل اکبر عیسی زادہ کی ملاقات
  • پاکستان میں دینی مدارس کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے، احسن اقبال
  • آئینی ترامیم سے پہلے اس پر بات کرنا مناسب نہیں، احسن اقبال
  • وزیراعلیٰ نے تعاون کا یقین دلایا، گرین لائن فیز2 پر کام جلد شروع ہوگا، احسن اقبال
  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • سی پیک فیز ٹو کا آغاز ہو چکا، چین نے کبھی کسی دوسرے ملک سے تعلق نہ رکھنے کی شرط نہیں لگائی، احسن اقبال