ذرائع کے مطابق انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین (IMWU)، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (KIIR) اور انٹرنیشنل ویمن اینڈ چلڈرن یونین (IWCU) کے زیراہتمام تقریب میں انسانی حقوق کے ممتاز کارکنوں، قانونی ماہرین اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 58ویں اجلاس کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب میں مقررین نے تنازعہ جموں و کشمیر کے شدید نفسیاتی اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ دہائیوں سے جاری تنازعے سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ذہنی صحت کا بحران پیدا ہو رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین (IMWU)، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (KIIR) اور انٹرنیشنل ویمن اینڈ چلڈرن یونین (IWCU) کے زیراہتمام تقریب میں انسانی حقوق کے ممتاز کارکنوں، قانونی ماہرین اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔ کے آئی آئی آر کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے اپنے خطاب میں مسلح تصادم سے عام لوگوں کی ذہنی صحت پر پڑنے والے خوفناک اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ پرتشدد تنازعات کمزور آبادی بالخصوص خواتین اور بچوں کو متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے مسلسل تشدد، نقل مکانی اور نقصان کی وجہ سے کشمیریوں میں بڑے پیمانے پر پی ٹی ایس ڈی، بے چینی اور ڈپریشن کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ تنازعات والے علاقے صدمے کو جنم دیتے ہیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلسل ظلم و جبر، خونریزی اور صنفی بنیاد پر تشدد نے ذہنی صحت کے مسئلے کو ایک بحران میں تبدیل کر دیا ہے، خاص طور پر خواتین اور بچے ناقابل تصور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔

مقررین نے ذہنی صحت کے پریشان کن اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 37%بالغ مرد اور 50%بالغ خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں جبکہ نوجوانوں میں خودکشی کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ مسلسل بدامنی کی وجہ سے بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ اور تعلیم میں کمی ہو رہی ہے اور انہیں طویل صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے منظم تشدد اور جبر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہزاروں کشمیری خواتین قابض افواج کے ہاتھوں تشدد، جنسی تشدد اور نفسیاتی استحصال کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ دسیوں ہزار بچے یتیم ہو چکے ہیں۔انہوں نے ذہنی صحت کو ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیے جانے کے باوجو محکمہ صحت کے ناقص انفراسٹرکچر اور ناکافی پالیسیوں کی وجہ سے نفسیاتی علاج تک رسائی کے فقدان پر افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ ذہنی صحت کی خدمات کو انسانی امداد میں شامل کرے اور تنازعات والے علاقوں میں ذہنی تندرستی کو انسانی حقوق کے بنیادی مسئلے کے طور پر تسلیم کرے۔ مقررین میں سابق رکن یورپین پارلیمنٹ جولی کیرولین وارڈ، سی سی اے آر ایچ ٹی کائونٹر ٹریفکنگ سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر کیری پیمبرٹن فورڈ، کیرولین ہینڈچین موزر، شمیم شال، ویمنز فیڈریشن فارورلڈ پیس کی رکن سٹیلا ہیرس، ڈاکٹر عابدہ رفیق اور دیگر شامل تھے۔ تقریب کی نظامت کے آئی آئی آرکے سربراہ الطاف حسین وانی نے انجام دی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی وجہ سے انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان

کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کا مشہور زعفران سیکٹر ایک بار پھر شدید بحران کی لپیٹ میں ہے، کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کی پیداوار میں تقریباً 90 فیصد کمی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے علاقے پامپور کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ زعفران کی پیداوار بمشکل 10 تا 15 فیصد ہے اور ہزاروں خاندان معاشی بدحالی کے دہانے پر ہیں۔ پامپور جہاں زعفران کی سب سے زیادہ کاشت ہوتی ہے، کے کاشتکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صدیوں سے کشمیر کی شناخت کی حامل زعفران کی فصل ختم ہو سکتی ہے۔ ”زعفران گروورز ایسوسی ایشن جموں و کشمیر“ کے صدر عبدالمجید وانی نے کہا کہ پیداوار بمشکل 15 فیصد ہے۔ یہ گزشتہ سال کی فصل کا نصف بھی نہیں ہے، جو بذات خود عام فصل کا صرف 30 فیصد تھا۔ ہر سال اس میں کمی آ رہی ہے اور حکومت اس شعبے کی حفاظت کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ بار بار کی خشک سالی، موثر آبپاشی کی کمی اور دستیاب کوارمز کا خراب معیار ہے۔ کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ پامپور کے پریشان کسانوں کے ایک گروپ نے کہا، "زعفران کی بحالی صرف فصل کو بچانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک روایت، ایک ثقافت اور ایک شناخت کو بچانے کے بارے میں ہے اور اگر فوری اور موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2030ء تک پامپور میں زعفران نہیں بچے گا۔

متعلقہ مضامین

  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نیا نغمہ جاری
  • کشمیری عوام کو گزشتہ 78برس سے حل طلب تنازعہ کشمیر کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے، حریت کانفرنس
  • مقبوضہ جموں وکشمیر کے اسکولوں میں “وندے ماترم” پڑھنا لازمی قرار
  • سوڈان میں انسانی بحران، الفاشر سے 62 ہزار سے زائد بے گھر افراد کی ہجرت
  • مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان
  • مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
  • غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب