کراچی: اورنج اور گرین لائن بس سروسز کا انتظام حکومت سندھ نے سنبھال لیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
کراچی میں گرین لائن، اورنج لائن بس سروسز کا انتظام حکومت سندھ نے باضابطہ طور پر سنبھال لیا ہے۔
بسوں کے آپریشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر گارڈن میں آپریشنل کنٹرول سے متعلق تقریب ہوئی۔
اس موقع پر سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ بس سروسز کی بہتری اور پائیداری کیلئے پرعزم ہے، کوشش ہے کہ شہریوں کو بہترین سفری سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔
شرجیل میمن نے کہا کہ کراچی شہر کیلئےایک مربوط اور مؤثر شہری ٹرانزٹ سسٹم تشکیل دیا جا رہا ہے، بی آر ٹی لائنز کو دیگر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹمز کے ساتھ منسلک کرنے کا منصوبہ جاری ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
کراچی میں ای چالان کے خلاف درخواست پر سندھ حکومت سے جواب طلب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر نافذ کیے گئے ای چالان نظام کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
عدالت نے چیف سیکرٹری سندھ، آئی جی سندھ، ڈی آئی جی ٹریفک، ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور ڈائریکٹر جنرل نادرا سے 25 نومبر تک جواب طلب کر لیا ہے۔ درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ ای چالان کے نام پر عائد کیے جانے والے بھاری جرمانے غیر منصفانہ، غیر قانونی اور شہریوں پر معاشی بوجھ ہیں۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی میں ٹریفک جرمانوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے۔ جن خلاف ورزیوں پر صوبے کے دیگر شہروں میں 200 روپے کا جرمانہ ہے، کراچی میں انہیں پانچ ہزار روپے تک بڑھا دیا گیا ہے، جو بنیادی شہری مساوات کے اصولوں کے خلاف ہے۔
درخواست گزاروں کے مطابق ٹریفک قوانین کی اصلاحات صوبے کے دوسرے بڑے شہروں مثلاً حیدرآباد، سکھر یا میرپورخاص میں نافذ نہیں کی گئیں، صرف کراچی کے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ای چالان کے نفاذ اور بھاری جرمانوں کے عمل کو فوری طور پر معطل کیا جائے، جب تک کہ متعلقہ حکام عدالت کو اس نظام کی شفافیت اور منصفانہ پہلوؤں کے بارے میں مطمئن نہ کر دیں۔
واضح رہے کہ شہریوں کا کہنا ہے کہ ای چالان سسٹم میں نہ صرف غلط اندراجات ہو رہے ہیں بلکہ بعض اوقات وہ گاڑیاں بھی جرمانے کی زد میں آ جاتی ہیں جو فروخت ہو چکی ہوتی ہیں یا دیگر افراد کے نام پر منتقل ہو چکی ہوتی ہیں۔ اسی طرح نادرا اور ایکسائز کے ڈیٹا کے استعمال میں شفافیت کیوں نہیں برتی جا رہی اور شہریوں کو دفاع کا موقع کیوں نہیں دیا جا رہا۔
عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد تمام متعلقہ محکموں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 25 نومبر تک تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔