انسداد دہشت گردی منتظم عدالت نے مصطفی عامر اغوا و قتل کیس میں مرکزی ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں 7 دن کی توسیع کردی۔

رپورٹ کے مطابق  ملزم ارمغان کے وکیل عابد زمان اور سارہ عاصم خان نے چالان پیش کرنے کی درخواست دائر کی اور عابد زمان ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ 6 فروری کو ایف آئی آر درج کی گئی، بیریسٹر سارہ عاصم خان نے کہا کہ ملزم کو پولیس ریمانڈ میں 15روز سے زائد ہوگئے۔

عابد زمان ایڈووکیٹ نے کہا کہ پولیس کی تفتیش مکمل ہوگئی ہے ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے،
جج نے کہا کہ ملزم کو کہاں ہے ؟پیش کیا جائے، جج کے حکم پر ملزم کو پیش کیا گیا۔

عدالت نے آئی او سے استفسار  کیا کیا رپورٹ لیکر آئے ہیں ؟ آئی او  نے  استدعا کی کہ ہمیں مزید 17 مارچ تک جسمانی ریمانڈ دیاجائے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پروگریس کی ہے آپ نے ؟ آئی او نے جواب دیا کہ ہم نے آلہ قتل اور ڈی وی آر برآمد کیا ہے۔

وکیل عابد زمان نے کہا کہ  20دن سے زائد ہوگئے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں مزید جسمانی ریمانڈ نہ دیا جائے، ڈی وی آر اور آلہ قتل ڈنڈا پہلے برآمد کیا جاچکا ہے، میڈیا پر اسٹک دیکھائی جاچکی ہے۔

وکلاء نے  فاضل جج سے مکالمہ کیا کہ آپ نے میڈیا پر دیکھی ہوگی، فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ  میرے علم میں نہیں اور نہ میں میڈیا دیکھتا ہوں۔

فاضل جج نے استفسار کیا کہ  جو چیزیں برآمد کی گئیں اسے سیل کیا گیا؟ آئی او نے جواب دیا کہ  برآمد شدہ چیزوں کو سیل کردیا گیا ہے، فاضل جج نے ملزم ارمغان سے استفسار کیا کہ جی آپ کو مارا پیٹا تو نہیں ہے،
ملزم نے عدالت میں جواب دیا کہ مجھے پولیس کسٹڈی میں نہیں رہنا۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کا ریمانڈ دیا جائے تاکہ تفتیش میں مسئلہ نہ ہوسکے، ہمیں لیپ ٹاپ اور موبائل کا ڈیٹا ریکور کرنا ہے مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔

وکلاء صفائی نے مؤقف اپنایا کہ پولیس کی تفتیش مکمل ہوچکی ہے، مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں،
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں 7دن کی توسیع کردی اور کہا کہ 
آئندہ سماعت پر مقدمے کی پروگریس رپورٹ پیش کی جائے۔

عدالت نے ملزم کے وکلا کی مقدمے کا عبوری چالان پیش کرنے کی درخواست پر نوٹس جاری کردیا
اور ملزم ارمغان کے والدین کو 5منٹ کے لئے ملاقات کی اجازت دے دی۔

تفتیشی افسر محمد علی نے  میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  ملزم ارمغان اب تفتیش میں تعاون کررہا ہے، ملزم سے موبائل فون، ڈی وی آر اور بہت کچھ برآمد ہوا ہے،پیشرفت رپورٹ عدالت میں پیش کی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ملزم ارمغان کے نے کہا کہ عدالت نے فاضل جج ملزم کو کیا کہ آئی او پیش کی

پڑھیں:

سزا کیلئے شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے‘سپریم کورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جون2025ء) سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں ڈیجیٹل شواہد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فوٹیج کو درست طریقے سے تصدیق شدہ قرار دیا جائے تو وہ سائلنٹ وِٹنس تھیوری(خاموش گواہ اصول) کے تحت بنیادی شہادت کے طور پر قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔صرف حالات و واقعات کی بنیاد پر سزا دینا قانوناً ممنوع نہیں لیکن ایسے شواہد ملزم کی بیگناہی سے مطابقت نہیں رکھنے چاہئیں اور ان شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے۔

جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے 13 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں اس قدر شامل ہو چکی ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں اسے استعمال کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے اس 3 رکنی بینچ کی سربراہی کی جس نے 20 مئی کو ظاہر ذاکر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی، یاد رہے کہ نور مقدم کے 2021 کے اندوہناک قتل نے ملک بھر میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مجرم عدالت میں ایک مایوس شخص کے طور پر سامنے آیا، جس پر بینچ کے کسی بھی رکن کو کوئی ہمدردی محسوس نہیں ہوئی، تاہم بینچ کے رکن جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ وہ جلد ہی اپنا اضافی نوٹ جاری کریں گے۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ پچھلے 25 سالوں میں تقریباً تمام ممالک میں ’سائلنٹ وٹنس تھیوری‘ (خاموش گواہ کا اصول) کو اپنایا گیا ہے، اس اصول کے تحت، اگر کسی تصویر یا ویڈیو کو اس طریقہ کار یا نظام کی درستگی سے ثابت کیا جا سکے جس کے ذریعے وہ بنائی گئی ہے، تو پھر وہ خود بخود ایک گواہ کے طور پر تسلیم کی جا سکتی ہے، یعنی یہ تصاویر یا ویڈیوز اپنی صداقت خود بیان کرتی ہیں۔

سائلنٹ وٹنس تھیوری ایک ایسا قانون ہے جو تصویر، ویڈیو یا دیگر ریکارڈ شدہ مواد کو اس بات کے پختہ ثبوت کے طور پر قبول کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جس واقعے کو دکھا رہے ہیں، وہ حقیقت میں پیش آیا اور اس کے لیے کسی عینی شاہد کی گواہی درکار نہیں ہوتی کہ اس نے وہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔عدالت نے تسلیم کیا کہ کافی عرصے تک ملکی عدالتیں ڈیجیٹل شواہد کو بروئے کار نہ لا سکیں کیونکہ انہیں صرف سنی سنائی باتوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا، حالانکہ یہ شواہد صرف قانونِ شہادت 1984 کے آرٹیکل 164 کے تحت قابلِ قبول تھے۔

تاہم، مجرموں کی شناخت اور سراغ رسانی میں ڈیجیٹل شواہد کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بعض اہم قانونی تبدیلیاں کی گئیں تاکہ ان شواہد کو بنیادی شہادت کا درجہ دیا جا سکے۔عدالت نے فوٹیج کی شہادتی حیثیت کے حوالے سے برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کی مثالیں بھی دی ہیں، ماضی قریب تک پاکستان میں اس قسم کے شواہد کو ثانوی یا سنی سنائی شہادت سمجھا جاتا تھا، لیکن مجرموں کی شناخت میں اس کی افادیت کے پیش نظر متعلقہ قوانین میں تبدیلی کی گئی اور ڈیجیٹل شواہد کو بنیادی شہادت تسلیم کیا گیا۔

عدالت نے مزید وضاحت کی کہ یہ بات عام طور پر تسلیم شدہ ہے کہ سزا محض حالات و واقعاتی شواہد کی بنیاد پر بھی دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ سخت اصولوں اور معیارات پر پورا اتری.سپریم کورٹ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ درخواست گزار (ملزم) نے یہ وضاحت پیش نہیں کی کہ مقتولہ اس کے گھر پر کیوں موجود تھی اور اس کی لاش اسی جگہ سے کیوں برآمد ہوئی۔واضح رہے کہ 27 سالہ لڑکی نور مقدم 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد میں ظاہر جعفر کی رہائش گاہ سے انتہائی بے دردی سے قتل شدہ حالت میں ملی تھیں، ظاہر جعفر کو مرکزی ملزم کے طور پر گرفتار کیا گیا اور 24 فروری 2022 کو ٹرائل کورٹ نے اسے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔

عدالت نے اسے جنسی زیادتی کا بھی مجرم قرار دیتے ہوئے 25 سال قیدِ بامشقت اور 2 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے زیادتی کے جرم میں عمر قید کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  • سزا کیلئے شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے‘سپریم کورٹ
  • بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک اور فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کیلئے پولیس کی درخواست مسترد
  • عمران خان کے پولی گراف اور فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کیلئے پولیس کی درخواست مسترد
  • عمران خان کے پولی گرافک ٹیسٹ کے معاملے پر عدالت نے فیصلہ سنادیا
  • یونان کشتی حادثے کا مرکزی ملزم مصر سے گرفتار
  • یونان کشتی حادثے کا مرکزی کردار انسانی سمگلر عمران ٹونی مصر سے گرفتار
  • سانحہ چکرا گوٹھ: ایم کیو ایم لندن کے رئیس مما سمیت دیگر کیخلاف پولیس وین حملہ کیس کا فیصلہ پھر مؤخر
  • اغوا کی گئی کمسن بچی کی 72 گھنٹوں میں بازیابی پر ایس ایچ او کی حوصلہ افزائی
  • فیصل آباد، گرفتار بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے 3 ایجنٹس کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
  • کلفٹن پولیس کی بروقت کارروائی، 72 گھنٹوں میں اغوا کی گئی بچی بازیاب، رکشا ڈرائیور گرفتار