جدولِ مراتب میں ارکان پارلیمنٹ کی حیثیت کا فیصلہ کھلے اجلاس میں نہیں ہونا چاہئے،وزیر قانون
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 مارچ2025ء)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ مجموعی طور پر تقریبا 450 افراد پر مشتمل ہے جنہیں ایک مخصوص جدولِ مراتب میں رکھنا ممکن نہیں،پارلیمنٹ ملک کا سب سے سپریم ادارہ ہے، اور تمام ریاستی ادارے اپنی طاقت پارلیمنٹ ہی سے حاصل کرتے ہیں۔انہوں نے منگل کو ایوان بالا کے اجلاس میں پارلیمنٹ کی حیثیت اور ارکان کے جدولِ مراتب سے متعلق ایوان بالا کو بتایا کہ اعلی ترین عہدوں پر تقرریاں بھی پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ہوتی ہیں، اس لئیاس کی حیثیت سب سے بلند ہے۔
پارلیمنٹ کا رکن ہونا ہی سب سے بڑا اعزاز ہے، لہذا جدولِ مراتب میں ارکان پارلیمنٹ کی حیثیت کا فیصلہ کھلے اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے تجویز دی کہ اس معاملے پر سپیکر اور چیئرمین سینیٹ بند کمرہ اجلاس بلائیں، جس میں وہ اور دیگر متعلقہ حکام شریک ہونے کے لئے تیار ہیں ۔(جاری ہے)
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ اجلاس میں پارلیمنٹ کی بالادستی، عزت اور تکریم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ایوان (قومی اسمبلی اور سینیٹ)پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لئے ان کی عزت و تکریم سب پر لازم ہے۔
ہر شہری، ادارہ اور حکومتی اہلکار کو ان ایوانوں کا احترام دل سے کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے اور اس کی حیثیت کو کسی بھی سطح پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پارلیمنٹ کی اجلاس میں کی حیثیت
پڑھیں:
پاکستانی فورسز کا غزہ جاکر حماس کے مقابل کھڑا ہونا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا، حافظ نعیم
پریس کانفرنس کرتے ہوئے مرکزی امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلوں کا اختیار حکومت کو دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایسی ترامیم آئین اور جمہوریت دونوں کے ساتھ کھلواڑ ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستانی فورسز کو اگر غزہ بھیجا گیا اور وہ حماس کے سامنے کھڑی ہو جائیں تو یہ کسی طور دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہوگا، کراچی میں قاتلوں اور اسٹریٹ کرمنلز کو پکڑنے کیلئے کیمرے نصب نہیں کیے گئے، لیکن ای چالان کیلئے فوری کیمرے نصب کیے گئے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے ادارہ نور حق کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ پر حکومتی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش ہے، جماعت اسلامی 26ویں آئینی ترمیم کی طرح 27ویں آئینی ترمیم بھی ہرگز قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم سمیت آزاد کشمیر میں خرید و فروخت کی سیاست نے عوام کا اعتماد متزلزل کر دیا ہے، 26ویں ترمیم کو صرف جماعت اسلامی نے کلیتاً مسترد کیا، کیونکہ اس نے عدلیہ کی خودمختاری کو شدید نقصان پہنچایا۔
مرکزی امیر نے کہا کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلوں کا اختیار حکومت کو دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایسی ترامیم آئین اور جمہوریت دونوں کے ساتھ کھلواڑ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فرانزک آڈٹ کی ضرورت ہے، یہ پروگرام غربت مٹانے کے بجائے سیاسی ہتھکنڈوں کا ذریعہ بن چکا ہے، اگر اس کا شفاف آڈٹ کیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ملک میں اب چہروں کی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی ضروری ہے، 21 تا 23 نومبر مینار پاکستان لاہور میں ”بدل دو نظام“ کے عنوان سے عظیم الشان ” اجتماعِ عام“ منعقد کیا جائے گا، اجتماع عام میں خواتین چارٹر، قراردادِ معیشت اور نظامِ ظلم کی تبدیلی کا عملی لائحہ عمل پیش کیا جائے گا، یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا، جس میں خواتین کی شرکت بھی تاریخی ہوگی۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ پاکستان کو فلسطینیوں کے حق اور آزادی کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے، حماس ایک جائز فورس ہے جس نے پوری اُمت کا سر فخر سے بلند کیا اور پاکستان میں اس کے دفاتر قائم کیے جانے چاہئیں۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود 250 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، 8 مسلم ممالک کے اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ حماس نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، جبکہ اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز کو اگر غزہ بھیجا گیا اور وہ حماس کے سامنے کھڑی ہو جائیں تو یہ کسی طور دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔