اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان سرحد پار سے دہشت گردی کا شکار ہے، جعفر ایکسپریس پر حملے میں ملوث دہشت گردوں کے بیرون ممالک رابطے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملے میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہوئی ہے، جبکہ اس واقعے کے دوران ٹریس شدہ کالز میں افغانستان سے رابطوں کا سراغ ملا ہے۔ اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان سرحد پار سے دہشت گردی کا شکار ہے، جعفر ایکسپریس پر حملے میں ملوث دہشت گردوں کے بیرون ممالک رابطے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کثیر الجہتی حکمت عملی پر گامزن ہے، ہم نے ابھی جعفر ایکسپریس ٹرین دہشت گردی پر ریسکیو آپریشن مکمل کیا ہے۔

شفقت علی خان نے کہا کہ افغانستان پر ہماری بنیادی ترجیح دوستانہ و قریبی تعلقات کا فروغ ہے، اس سمت میں تعلقات کا تسلسل اہم ہے، ماضی میں بھی ہم ایسے واقعات کی مکمل تفصیلات افغانستان کے ساتھ شئیر کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت، پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہے، ہماری پالیسی میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم طورخم سرحد کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں، یہ پروپیگنڈا ہے کہ پاکستان طورخم سرحد کو کھلنے نہیں دے رہا، افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحد کے اندر چوکی بنانے کی کوشیش کی جا رہی تھی۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جعفر ایکسپریس پر حملے میں شفقت علی خان نے کہا ترجمان دفتر خارجہ کہ پاکستان نے کہا کہ

پڑھیں:

پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-03-8
قاسم جمال
پاکستان اور افغانستان نے ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات میں جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں مذاکرات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ افغانستان، پاکستان، ترکیہ، قطر کے نمائندوں نے 25 سے 30 اکتوبر 2025 تک استنبول میں جنگ بندی کے لیے اجلاس منعقد کیے جن کا مقصد اس جنگ بندی کو مضبوط بنانا تھا جو کہ 18 اور 19 اکتوبرکو دوحا میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان طے پائی تھی۔ اس اعلامیے کے مطابق فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے اور عمل درآمد کے مزید طریقہ کار پر غور و خوض اور فیصلہ استنبول میں 6 نومبر 2025 کو اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا جائے گا۔ اس طرح ایک مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے جو امن کے تسلسل کو یقینی بنائے گا اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریق پر سزا عائدکرے گا اور دونوں فریق بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کی جانب بڑھ سکیں گے۔ ان مذاکرات میں پاکستان کا محور وہی بنیادی مطالبہ تھا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں گروہوں کے خلاف واضح، قابل تصدیق اور موثر کارروائی کرے۔ پاکستان نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

بلاشبہ اس مذاکراتی عمل اور یہ اعلامیہ خطے میں امن، استحکام کے فروغ کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے اور خطے میں امن کے لیے یہ بہترین کوشش ہے۔ اس اعلامیہ کا بنیادی نقطہ افغان سرزمین کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنا ہے۔ ان مذاکرات کے دوران پاکستان نے قابل عمل اور ٹھوس شواہد رکھے جو افغان فریق اور میزبان ممالک نے تسلیم کیے۔ البتہ افغان وفد نے بنیادی نکتہ سے ہٹ کر بحث کو موڑنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے مذاکرات متوقع نتیجہ تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ پاکستان نے استنبول میں چار روزہ مذاکرات کے دوران افغانستان کے نمائندہ وفد پر اپنی امیدوں اور احتیاطی حکمت عملی دونوں کے ساتھ اپنی پالیسی واضح کی۔ حکومت پاکستان نے واضح کیا کہ ان مذاکرات کا مقصد افغان عوام کی بہبود اور دونوں ملکوں کی سلامتی ہے اور خطے میں دیرپا امن ہماری اولین ترجیحی ہے۔ جس کے لیے سفارتی راستے اختیار کیے گئے ہیں۔ پاکستان کا اصولی موقف ہے کہ بھارت کے کہنے پر افغانستان کی جانب سے دہشت گردی یا ٹی ٹی پی کی پشت پناہی ہوگی تو پھر پاکستان اپنی عوام کے تحفظ اور وطن عزیز کی سلامتی کے لیے تمام ممکنہ کارروائیاں کرنے کا پابند ہے۔ تاکہ دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں اور حامیوں کو ختم کیا جاسکے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ دوست ممالک کے کہنے اور ان کی مداخلت پر کابل کے روئیے میں تبدیلی آئی ہے۔ افغانستان اگر اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ مستقبل میں دہشت گردوں کی مزید پشت پناہی نہیں کرے گا تو یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ تمام شرائط کی بنیاد امن ہے اور اگر امن نہیں ہوگا تو آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کی پشت پناہی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے افغان طالبان کی دھوکا دہی پر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم افغان طالبان کی دھوکا دہی مزید برداشت نہیں کریں گے۔ اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو دنیا سب کچھ دیکھے گی۔ ہم طالبان کو دوبارہ غاروں میں دھکیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم نے برادر ملکوں کی درخواست پر افغانستان سے امن کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ لیکن افغان حکام کے زہریلے بیانات طالبان کی بدنیت سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔ افسوس طالبان حکومت نے افغانستان کو دوبارہ تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ افغانستان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں پوری طاقت استعمال کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی اگر ہم چاہیں تو تورا بورا کی شکست کے مناظر ایک بار پھر دہرائیں گے۔

افغان طالبان صرف اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کی جنگی معیشت صرف تباہی اور خونریزی پر قائم ہے۔ افغان طالبان اپنی کمزوری اچھی طرح جانتے ہیں مگر وہ جنگی نعرے لگا رہے ہیں جس سے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ طالبان سے افغانستان اور اس کے عوام کو مزید تباہ وبرباد کرنا چاہتی ہے۔ افغانستان ماضی میں سلطنتوں کے کھیل کا میدان رہا ہے اور افغان عوام کی تباہی کا مرکز افغان حکومت اگر ایسا پھر چاہتی ہے تو ایسا ہی ہوجائے۔ افغان طالبان کے جنگ پسند عناصر نے ہماری محبت کو غلط سمجھا ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اگر افغان طالبان جنگ چاہتے ہیں اور لڑنا چاہتے ہیں تو دنیا اب سب کچھ دیکھے گی ہماری دھمکیاں صرف تماشا نہیں بلکہ حقیقت ہے۔

خطے میں کشیدگی کم کرنے اور کسی بھی تنازع سے بچنے کی ضرورت ہے۔ فتنہ الخوارج کی قیادت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی اور دراندازی کی کوشش کررہی ہے۔ جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ حکومت پاکستان نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔ پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں سرگرم باقی خوارج کے خاتمے کے لیے کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ جبکہ سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عزم استحکام مہم، کے تحت انسداد دہشت گردی کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ مہم نیشنل ایکشن پلان کی وفاقی اپیکس کمیٹی کے منظور شدہ وژن کے مطابق ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے جاری ہے۔ بلاشبہ جنگ کسی بھی صورت میں پاکستان یا افغانستان کے مفاد میں نہیں ہے اور اس جنگ میں دونوں طرف سے مارے جانے والے کلمہ گو مسلمان ہی ہوں گے۔ پاکستان اور افغانستان کا جنگ بندی پر اتفاق اور مذاکرات کی بحالی خوش آئند بات ہے۔ کابل کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کی ضمانت دے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ پاکستان نے چالیس سال تک اپنے افغان بھائیوں کی میزبانی کی ہے اور بھارت کے ایماء پر اپنے بردار اسلامی ملک کے ساتھ اس قسم کا رویہ ایک المیہ ہے۔ ان شاء اللہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل ہوں گے۔ بھارت پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں کا دشمن ہے بھارت کو دوست ملک قرار دینا افغانستان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ہے اور افغانستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور افغان عوام خود جلد ایسی نااہل حکومت کو اقتدار سے اُتار پھینکے گی۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • افغان وزیر خارجہ کی متعدد کالز آئیں، انہیں بتا یا کہ ان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو، اسحاق ڈار
  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں‘ طالبان
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  • امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، طالبان کا الزام
  • سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے، وزیر دفاع
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • سرحد پار دہشت گردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  • پاکستان سرحد پار دہشتگردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا: وزیر دفاع خواجہ آصف