سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سلام اﷲ علیہا
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ سے کہا کہ میں آپ کو سیدہ خدیجہ ؓ کا کثرت سے ذکر کرتے دیکھتی ہوں حالانکہ آپ کو ان سے بہت بہتر خواتین ملیں۔ اس پر رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ مجھے خدیجہ سے بہتر کوئی خاتون نہیں ملی جب ہر ایک نے مجھے جھٹلایا،وہ میری رسالت پر ایمان لائیں اور مجھے اپنایا۔خدیجہ سے ہی اﷲ نے مجھے اولاد سے نوازا۔10رمضان المبارک سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کا یومِ وصال ہے۔انتہائی حیرت کی بات ہے کہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سلام اﷲ علیہا کے مقام و مرتبہ اور دینِ اسلام کی آبیاری میں آپ کے کردار کو واضح طور پر پیش نہیں کیا گیا۔
آپ رسول اﷲﷺ کی صرف زوجہ محترمہ ہی نہیں بلکہ رسول اﷲ کے ابدی پیغام کو ماننے والی اور اسلام قبول کرنے والی سب سے پہلی ہستی ہیں۔یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔اس فضیلت کو بھی صحیح معنوں میں اجاگر نہیں کیا گیا۔ سیدہ سلام اﷲ علیہا مکہ میں خویلد بن اسد بن عزیٰ بن قصیٰ کے گھر پیدا ہوئیں۔سیدہ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں قصیٰ کے اوپر آ کر رسول اﷲ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔
سیدہ کے والد خویلد585عیسوی میں وفات پا گئے تو ان کا ترکہ ان کی اولاد میں تقسیم ہوا ۔ سیدہ کے حصے میں خاصا مال و دولت آیا جسے سیدہ نے اپنی بہترین انتظامی اورکاروباری صلاحیتوں سے کئی گنا کر دیا۔اپنے بہترین اور پاکیزہ کردار کی بدولت مکہ میں آپ سیدہ کو طاہرہ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔
دولت و ثروت کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو بیٹھ کر کھانے اور کاہلی و سستی میں مبتلا کر سکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی انسانیت کے اعلیٰ معیار سے گرا سکتی ہے۔سیدہ خدیجہؓ نے دولت کے منفی پہلو اپنانے کے برعکس اپنی دولت سے غریبوں،بے کسوں،بیواؤں اور یتیموں کی مدد کا بیڑہ اُٹھایا۔سیدہ نے پرو ایکٹو زندگی گزارتے ہوئے اپنی تجارت پر دھیان دیا اور اسے بے پناہ وسعت دی۔اس طرح سیدہ نے ایک بڑی تجارتی ایمپائر کھڑی کر دی۔ مکہ سے ہرسال دو تجارتی قافلے نکلتے تھے۔
گرمیوں میں ایک قافلہ شام میں دمشق کی جانب کوچ کرتا تھا جب کہ سردیوں میں تجارتی قافلہ یمن جاتا تھا۔طبقات ابنِ سعد میں لکھا ہے کہ جب مکہ سے کوئی کارواں روانہ ہوتا تو اکیلا سیدہ خدیجہ کا کارگو باقی سب پر بھاری ہوتا۔مکہ کے رؤسا عام طور پر خود بھی اپنے کارگو کے ساتھ سفر کرتے تاکہ لین دین پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مارکیٹکی صورتحال کو جان سکیں۔ایک خاتون ہونے کے ناطے سیدہ خدیجہ خود اپنے کارگو کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی تھیں،اس لیے وہ اپنی جگہ اپنے کسی با اعتماد نمائندے کو روانہ کرتیں۔
سیدہ خدیجہ کی عمر جب 39سال تھی اور تجارتی قافلہ شام روانہ ہونا تھا۔سیدہ کو اپنے کارگو کے لیے ایک با اعتماد فرد کی تلاش تھی۔سیدنا ابو طالب کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے سیدہ خدیجہ سے اپنے بھتیجے محمدﷺ کا ذکر کیا۔سیدہ خدیجہ نے حضور پاک کی بہترین توصیف سن رکھی تھی۔اس لیے انھوں نے سیدنا ابوطالب کی بات سن کر حضورِ پاک ﷺ کو اپنے تجارتی نمائندے کے طور پر منتخب کر لیا ۔سیدہ نے اپنے غلام میسرہ کو حضورِ پاک ﷺ کے ساتھ کر دیا ۔ حضورِ پاک ﷺ کا یہ پہلا تجارتی تجربہ تھا لیکن آپﷺ نے معاملات کو اس خوش اسلوبی سے نبھایا کہ سیدہ خدیجہ کو پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ منافع ہوا۔مکہ واپسی پر میسرہ حضورِ پاک کے عظمت و کردار اور تجارتی معاملہ فہمی پر رطب اللسان ہو گیا، اور اپنی مالکن کو بہت اچھی رپورٹ پیش کی۔
سیدہ اس وقت بیوہ تھیں۔سیدہ کے پاکیزہ ترین کردار اور دولت و ثروت کے سبب کئی رؤسا مکہ نکاح کا پیغام بھیج چکے تھے لیکن ناکام رہے۔سیدہ خدیجہ کی ایک سہیلی نفیسہ آپ کی رازدار تھیں۔ایک دن حضور نبی پاک ﷺ کعبہ شریف کے طواف کے بعد گھر لوٹ رہے تھے تو نفیسہ نے آپ کو روک کر کہا کہ آپ سیدہ خدیجہ سے نکاح کر لیں۔آپﷺ نے کہا کہ بات کر دیکھیں۔ساتھ ہی نبی پاک نے اپنے چچا سیدنا ابو طالب کو تجویز سے آگاہ کر دیا۔سیدنا ابو طالب نے اس تجویز کو پسند کیا۔نفیسہ نے سیدہ خدیجہ کو تجویز سے آگاہ کیا تو انھوں نے اسے بخوشی قبول کر لیا اور اپنی جانب سے حضورِ پاک کا رشتہ مانگ لیا۔یوں سیدہ خدیجہ آقائے دو جہاں،خیر البشر،خاتم النبیینﷺ کی زوجیت میں آ گئیں۔
سیرت کی پہلی کتاب سیرتِ ابنِ اسحاق میں درج ہے کہ حضورِ پاک کے دادا کے وقت سے آپ کے خاندان کا معمول تھا کہ رمضان میں ساری فیملی جبلِ نور پر چلی جاتی۔عبادت کرتی اور شام کو دستر خوان سجا کر آنے والوں کی تواضع کرتی۔اسی پہاڑ میں غارِ حرا ہے۔جب نبی کریم ﷺ چالیس برس کے ہوئے اور رمضان آیا تو آپ حسبِ معمول عبادت کے لیے سیدہ خدیجہ اور بچوں کے ساتھ جبلِ نور پر تشریف لے گئے۔ وہاں آپ ﷺ کو رسالت کی خوش خبری ملی۔
آپ ﷺ نے سیدہ خدیجہ کو سارے واقعے سے آگاہ کیا۔ رمضان ختم ہونے اور مکہ کی آبادی میں واپسی پرآپﷺ کو حکم ہوا کہ لوگوں کو دینِ اسلام کی طرف بلائیں۔اعلانِ حق کے ساتھ ہی آپ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔قریش نے ڈٹ کر آپ اور آپ کے پیغام کی مخالفت کی لیکن سیدہ خدیجہ اور سیدنا ابوطالب نے آپ کا یوں ساتھ دیا کہ تمام مخالفت اور ایذارسانی کے باوجود آپ کے پائے استقامت میں ذرا برابر لغزش نہ آئی۔سیدہ خدیجہ جو بہت صاحب ثروت تھیں اور شادی کے وقت 20کنیزیں صرف ذاتی خدمت کے لیے ساتھ لائی تھیں انھوں نے سارا مال ومتاع اسلام پر نچھاور کر دیا۔سیدہ نے اس کڑے وقت میں نبی پاک کو معاش کے جھنجھٹ سے آزاد رکھا۔دینِ اسلام کی راہ میں سب سے پہلا مال آپ کا خرچ ہوا۔جب بنی ہاشم کو شعبِ ابی طالب میں مسلسل تین سال محبوس کر دیا گیا تو مکہ کی یہ شہزادی گھاس پھوس کھا کر بھی نبیِ پاک کا ساتھ نبھاتی رہی اور آپ کی زبان پر کبھی شکوہ و شکایت نہیں آیا۔
قارئینِ کرام لوگوں کو تو تجارت سے جائیداد اور مال و متاع ملتا ہے،سیدہ خدیجہ وہ خوش قسمت ہیں جن کو تجارت میں آقائے دو جہاں ملے۔لوگ تو مال و زر سے دنیا بناتے ہیں سیدہ نے مال و زر سے دینِ اسلام کی آبیاری کی۔سیدہ ہی کے بطن سے ایک سیدنا ابراہیم کے سوا حضور کی ساری اولاد ہوئی۔سیدہ سے ہی نبی پاکﷺ کی نسل چلی۔اگر کسی فرد کو نبی پاکﷺ کا ایک لمحے کے لیے خواب میں دیدار ہوجائے تو اس کے لیے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔سیدہ خدیجہ کو متواتر 25سال نبی پاک کی جلوت و خلوت حاصل رہی۔کیا کوئی آپ کے مقام و عظمت کا اندازہ کر سکتا ہے۔
آپ کی موجودگی میں رسول اﷲ نے دوسرا نکاح نہیں کیا۔آپ کی گود میں پلنے والی سیدہ فاطمہ الزہرا جنت کی خواتین کی سردار اور سیدہ فاطمہ کی گود میں پلنے والے حسنین کریمین جنتی جوانوں کے سردار۔کئی کنیزوں کی موجودگی کے باوجود سیدہ نے ہمیشہ نبی پاکﷺ کا کھانا خود بنایا۔ایک روز سیدہ کھانا بنا کر آپ کی خدمت میں پیش کرنے آ رہی تھیں تو جبرائیلؑ نازل ہوئے اور فرمایا اﷲ سیدہ کو سلام کہتا ہے اور میں جبرائیل بھی سلام پیش کرتا ہوں۔اﷲ اﷲ جس ہستی کو خالقِ و مالک کائنات سلام کرے ایسی اولوالعزم ہستی کا کیا کہنا۔سیدہ سلام اﷲ علیہا کو نبی پاکﷺ نے اپنی چادر میں دفن کیا۔آپؓ پر ہمارا سلام۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے سیدہ خدیجہ سیدہ خدیجہ کو نبی پاکﷺ انھوں نے اسلام کی رسول اﷲ نبی پاک کے ساتھ کر دیا کے لیے کہ میں
پڑھیں:
اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
اسلام ٹائمز: 5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انکا ملک پاکستان کیساتھ ملکر کابل ہوائی اڈے پر ہونیوالے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ اسوقت انکا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کیساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کیساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، نیویارک کے چار روزہ دورے کے بعد ایک روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق اسحاق ڈار کی اس دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے باضابطہ ملاقات ہوگی۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس کے بعد اٹلانٹک کونسل امریکن تھنک ٹینک میں تقریر کریں گے، جہاں وہ علاقائی اور عالمی مسائل پر پاکستان کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کے مستقبل کی وضاحت کریں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں پاکستان امریکہ تعلقات کے اہم پہلوؤں اور تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کے فروغ پر خصوصی توجہ کے ساتھ ان رابطوں کو مضبوط بنانے کے طریقوں اور ذرائع کا جائزہ لیا جائے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار کے آغاز کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی پاکستانی حکومت کے وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ امریکہ ہے۔ اس سے قبل پاکستانی فوج کے کمانڈر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے رواں سال 18 جون کو امریکہ کے سرکاری دورے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ اسلام آباد حکومت کے اعلیٰ ترین سفارت کار کا دورہ امریکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب امریکہ کی حمایت اور مغربی ممالک کی ملی بھگت سے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم جاری ہیں اور پاکستان نے غزہ میں نسل کشی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صیہونی جارحیت کی متعدد بار مذمت کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کل اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ملک کے وزیر خارجہ اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ اہم علاقائی اور عالمی مسائل بالخصوص ایران کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کے بعد کی حالیہ پیش رفت پر بات کریں گے۔
امریکہ اور اس کے یورپی شراکت داروں کے برعکس (جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حوالے سے اشتعال انگیز اور جارحانہ رویہ اپنایا ہے)، اسلام آباد، کسی بھی زبردستی کی مخالفت کرتے ہوئے، تہران کے جوہری مسئلے کے پرامن اور سفارتی حل پر زور دیتا ہے۔ اس سال جولائی کے اوائل میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کے حل کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت اور تعمیری طرز عمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ جنگ میں امریکہ اور اسرائیلی حکومت کے رویئے نے خطے کو ناقابل تصور نتائج سے دوچار کیا ہے اور اسے تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اسلام آباد نے صیہونی حکومت کی 12 روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی بھی مذمت کی ہے اور جارحین کے خلاف اپنے دفاع کے اسلامی جمہوریہ ایران کے جائز حق کی حمایت بھی کی ہے۔
ٹرمپ کی طرف سے پاک ہند کارڈ کے استعمال کی کوشش
اسحاق ڈار کے دورہ واشنگٹن کے مقاصد کے حوالے سے پاکستانی سیاسی اور میڈیا کے حلقوں میں ایک اور موضوع جو خصوصی طور پر زیر بحث ہے، وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ 4 روزہ جنگ میں ٹرمپ کی طرف سے دو ایٹمی ہمسایوں کے درمیان جنگ بندی قائم کرنے کا دعویٰ ہے۔ اسلام آباد نے تو ٹرمپ کی نام نہاد کوششوں کو سراہا ہے، لیکن نئی دہلی اپنے مغربی پڑوسی کے ساتھ تنازع کے حل میں امریکی صدر کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد ٹرمپ نے کئی بار ملکی اور غیر ملکی حلقوں میں خود کو فاتح قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنے تجارتی اقدامات سے اسلام آباد اور نئی دہلی کو جنگ کے پھیلاؤ سے دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت پر سوال اٹھاتا ہے اور واشنگٹن کی جانب سے چین کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک تعلقات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے مطابق چین کے ساتھ سرد جنگ کو بڑھاوا دے کر امریکہ بیجنگ کے ساتھ دوسرے ممالک کے آزاد اور مستحکم تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چین مخالف مقاصد کے حصول کے لیے نئی دہلی کے ساتھ بڑے سکیورٹی اور فوجی تعاون کو بڑھا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ سے توقع ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے بارے میں اپنے ملک کے تحفظات کا اظہار کریں گے، جس میں ہندوستان کی جانب سے "سندھ طاس معاہدہ" کے نام سے موجود مشترکہ آبی معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ کیا امریکی نئی دہلی کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ دو جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان کشیدگی کو دوبارہ بڑھنے سے روکے۔
ٹرمپ کے کئی ممالک کے خلاف ٹیرف اقدامات کے بعد پاکستان نے بھی واشنگٹن سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ نے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ کیا اور وزیر خزانہ اور ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے تجارت سے ملاقاتیں کیں۔ اسلام آباد نے اعلان کیا ہے کہ ان مشاورت کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ افغانستان کی صورتحال اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدوں پر دہشت گردی کا چیلنج بھی اسحاق ڈار اور مارکو روبیو کے درمیان بات چیت کے دیگر شعبوں میں متوقع موضوع ہے۔ غور طلب ہے کہ پاکستان میں آئی ایس آئی ایس کے ایک کارکن کی گرفتاری پر مارچ کے وسط میں امریکی صدر کی بات چیت انسداد دہشت گردی کے شعبے میں دو طرفہ تعاون میں نسبتاً بہتری کی نشاندہی کرتی ہے۔
5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ مل کر کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کے ساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کے ساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔
جب امریکی صدر نے بیانات میں پاکستان پر جھوٹ اور فریب کا الزام لگایا تو انہوں نے دعویٰ تک کیا کہ ان کے ملک نے پاکستان کو دسیوں ارب ڈالر دینے کے باوجود انسداد دہشت گردی کے تعاون میں کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا۔ ٹرمپ کے ان ریمارکس پر پاکستان میں امریکہ کے خلاف مذمت کی لہر دوڑ گئی اور اسلام آباد میں اس وقت کی حکومت نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی مسلسل فضا کو تسلیم کرتے ہوئے واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرے۔