جی سیون وزرائے خارجہ اجلاس: یورپ پر صدر ٹرمپ کا مجوزہ 200 فی صد جوابی ٹیرف اور یوکرین جنگ سرفہرست
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک —
ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ ایک ایسے موقع پر کینیڈا میں اجلاس کر رہے ہیں جب امریکی صدر ٹرمپ نے کینیڈا پر ٹیرف کے نفاذ کے بعد یورپی گروپ کو 200 فی صد جوابی محصولات کی دھمکی دی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ روبیو نے سعودی عرب سے کینیڈا کے شہر کیوبک پہنچنے پر اپنی ہم منصب جولی سے ایک ایسے وقت میں ملاقات کی جب اس سے چند گھنٹے قبل صدر ٹرمپ نے کینیڈا کے اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیرف کا اطلاق کر دیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر یورپی یونین نے اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیرف کے خلاف امریکی وہسکی پر ٹیکس عائد کرنے سے پیچھے نہ ہٹے تو امریکہ یورپی شراب پر 200 فی صد محصول لگا دے گا۔
امریکہ اور اس کے قریبی یورپی اتحادیوں کے درمیان تعلقات ٹرمپ کے روس اور یوکرین کے درمیان تین سال سے جاری جنگ پر ردعمل کے سلسلے میں پہلے ہی تناؤ کا شکار ہیں۔
کینیڈا کی وزیر خارجہ میلینی جولی نے کہا ہے کہ اس کانفرنس کے ایجنڈے میں امن اور استحکام سرفہرست ہے۔اور میں اس بارے میں بات چیت کی منتظر ہوں کہ ہم کس طرح روس کی غیر قانونی جارحیت کے مقابلے میں یوکرین کی مدد کر سکتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یقیناً ہم مشرق وسطیٰ میں بھی طویل مدتی استحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ امکان ہے کہ اگلے دو روز کے دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کے دوران شکایات سننے کو ملیں گی۔
سعودی عرب میں روبیو نے 30 دن کی جنگ بندی کے لیے یوکرین سے معاہدہ کیا تھا جسے روس کی منظوری درکار ہے۔
جی سیون کانفرنس کی میزبان کینیڈا کی وزیر خارجہ جولی نے واضح کیا کہ ان کا ملک اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
 
 
 
کانفرنس سے قبل جولی کا کہنا تھا کہ ہر ایک سے ملاقات میں ، میں یورپیوں کے ساتھ ردعمل کو مربوط کرنے اور امریکہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے محصولات کا معاملہ اٹھاؤں گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ کی 51 ویں ریاست کی بات توہین آمیز ہے۔
امریکی وزیر خارجہ روبیو نے ان بیانات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ صدر صرف وہی کہہ رہے ہیں جو ان کے خیال میں ایک اچھا نظریہ ہے۔
محصولات سے متعلق روبیو کا کہناتھا کہ جی سیون کے شراکت داروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ امریکی مسابقت کے تحفظ کے لیے صدر ٹرمپ کا ایک پالیسی فیصلہ ہے۔
کینیڈا کی جانب سفر کے دوران رویبو بدھ کو مختصر وقت کے لیے آئر لینڈ روکے،وہاں انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے اتحادیوں اور دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ بات چیت میں ان تمام مسائل پر تعمیری انداز سے نمٹ سکتے ہیں، جن پر ہم مل کر کام کرتے ہیں۔ میں جی سیون اور کینیڈا سے بھی یہی توقع کرتا ہوں۔
جی سیون وزرائے خارجہ کانفرنس کے ایجنڈے میں چین، انڈو پیسفک، یوکرین اور یورپ، مشرق وسطیٰ، سمندروں کی سیکیورٹی، افریقہ ، شمالی کوریا، ایران اور روس سمیت امریکہ کا استحکام پر بات چیت متوقع ہے۔
(اس رپورٹ کی معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: کی وزیر خارجہ جی سیون کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم
کینیڈین وزیرِاعظم مارک کارنی نے ہفتے کے روز تصدیق کی کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک ’اینٹی ٹیرف اشتہار‘ پر معافی مانگی ہے، جس میں سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کو دکھایا گیا تھا جب کہ انہوں نے اونٹاریو کے وزیرِاعلیٰ ڈگ فورڈ کو یہ اشتہار نشر نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
غیر ملکی خبررساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اشتہار کو ’جعلی اینٹی ٹیرف مہم‘ قرار دیتے ہوئے کینیڈین اشیا پر مزید 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے اور تمام تجارتی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مارک کارنی نے جنوبی کوریا کے شہر گیونگجو میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے امریکی صدر سے معافی مانگی تھی کیوں کہ وہ اس اشتہار سے ناراض تھے۔
صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تجارتی مذاکرات اس وقت دوبارہ شروع ہوں گے جب امریکا تیار ہوگا۔
کینیڈا کے وزیراعظم نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ انہوں نے اشتہار نشر ہونے سے پہلے ڈگ فورڈ کے ساتھ اس کا جائزہ لیا تھا مگر اسے استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس اشتہار کو نشر کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔
یاد رہے کہ یہ اشتہار کینیڈا کی ریاست اونٹاریو کے وزیرِاعلیٰ نے تیار کرایا تھا، جو ایک قدامت پسند سیاستدان ہیں اور جن کا موازنہ اکثر ٹرمپ سے کیا جاتا ہے، اس اشتہار میں ریگن کا ایک بیان شامل کیا گیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’ٹیرف تجارتی جنگوں اور معاشی تباہی کا باعث بنتے ہیں‘۔
مارک کارنی نے مزید کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ان کی گفتگو دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، اور انہوں نے اس دوران غیر ملکی مداخلت جیسے حساس معاملات پر بھی بات کی۔
کینیڈا کے چین کے ساتھ تعلقات مغربی ممالک میں سب سے زیادہ کشیدہ رہے ہیں، تاہم اب دونوں ممالک ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، حالانکہ شی اور ٹرمپ نے جمعرات کے روز کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
چین اور کینیڈا نے جمعے کو 2017 کے بعد پہلی بار اپنے رہنماؤں کے درمیان باضابطہ مذاکرات کیے۔
کینیڈین وزیراعظم کا صحافیوں سے گفتگو میں مزید کہنا تھا کہ ہم نے اب ایک ایسا راستہ کھول لیا ہے جس کے ذریعے موجودہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شی جن پنگ کی طرف سے ’نئے سال میں‘ چین کے دورے کی دعوت قبول کر لی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے وزرا اور حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ باہمی تعاون سے موجودہ چیلنجز کے حل تلاش کریں اور ترقی و اشتراک کے نئے مواقع کی نشاندہی کریں۔