حکومت کیخلاف کب میدان میں آنا ہے؟ فضل الرحمان نے واضح اشارہ دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
حکومت کے خلاف کب میدان میں آنا ہے؟ مولانا فضل الرحمان واضح اشارہ دے دیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں نواز شریف اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے عندیہ بھی دیا کہ یک طرفہ فیصلے بند نہ کیے تو ملکی سیاست میں شدت آئے گی۔
صحافیوں سے بات چیت میں مولونا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ عیدالفطر کے بعد تحریک چلانے کا فیصلہ کریں گے۔
جے یو آئی کے سربراہ کے مطابق حکومت مخالف تحریک میں پی ٹی آئی سے اتحاد کا فیصلہ مشاورتی کونسل کے اجلاس میں ہوگا۔
انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے گفتگو کرتے کہا کہ ریاست نے کہا تو افغانستان کے معاملے پر کردار ادا کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔
امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ رمضان المبارک میں روزانہ مساجد میں دھماکے ہو رہے ہیں، علما کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، پوچھتا ہوں حکومت کہاں ہے؟
فضل الرحمان کے مطابق اگر مساجد اور مدارس محفوظ نہیں تو عام مقامات کیسے محفوظ ہوں گے؟
انہوں نے کہا کہ علما کے پےدرپے قتل کے واقعات افسوس ناک اور مذہبی طبقے کے خلاف گہری سازش ہیں، اگر مساجد اور مدارس محفوظ نہیں تو عام مقامات کیسے محفوظ ہوں گے؟ ہم ممتاز عالم دین مفتی منیر شاکر کے قتل کی مذمت کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان تحریک جے یو آئی حکومت دہشتگردی مولانا فضل الرحمان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان تحریک جے یو ا ئی حکومت دہشتگردی مولانا فضل الرحمان فضل الرحمان نے کہا
پڑھیں:
دوحہ معاہدہ کی خلاف ورزی: افغانستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا، اقوام متحدہ رپورٹ
اسلام آباد: اقوامِ متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان حکومت کے زیرِ اقتدار افغانستان ایک بار پھر عالمی دہشتگرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جو پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے خلاف سرگرم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق طالبان نے دوحہ امن معاہدے کے تحت یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین دہشتگردی اور سرحد پار حملوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی، تاہم حالیہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ القاعدہ اور طالبان کے روابط بدستور قائم ہیں، بلکہ یہ تعلقات پہلے سے زیادہ فعال ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت کو اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا کہ القاعدہ کے نیٹ ورک اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دہشتگرد تنظیمیں زابل، وردک، قندھار، پکتیا اور ہلمند کے راستوں سے بلوچستان میں داخل ہوتی ہیں۔ طالبان حکومت کی سرپرستی میں فتنہ الخوارج کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں، جبکہ اس کے سربراہ نور ولی محسود کو ہر ماہ 50 ہزار 500 امریکی ڈالر فراہم کیے جاتے ہیں۔
مزید کہا گیا کہ محسود کے قبضے میں امریکی افواج کے چھوڑے گئے جدید ہتھیار بھی موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جعفر ایکسپریس دھماکے اور ثوب کینٹونمنٹ حملوں میں افغانستان سے منسلک ناقابلِ تردید شواہد سامنے آئے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق حالیہ مہینوں میں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے خطے کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی طاقتیں دوحہ معاہدہ کے تحت افغان طالبان پر سخت پابندیاں عائد کریں تاکہ دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کا خاتمہ ممکن ہو۔